محمد حسن
ایمسٹرڈیم، دی نیدرلینڈز
راجشاہی یونیورسٹی کے شعبئہ بنگلہ کے سنئیر پروفیسر ڈاکٹر صمدی کے طالب علم جو بنگلہ دیش سے نیدرلینڈز ایک کانفرنس میں شرکت کی غرض سے تشریف لائے تھے۔ ان کی واپسی 27 اپریل کو تھی اورمجھے ان سے ملاقات کرنے اسخیپول انٹرنیشنل ائیرپورٹ صبح کے نو بجے پہنچنے تھے۔ گھر سے نکلتے ہی محسوس ہوا کہ موسم کا موڈ خراب ہے، ہوائیں چل رہی تھیں اور بارش اپنے عروج پر تھی۔ میں بس میں سوار ائیرپورٹ کی طرف جارہا تھا کہ راستہ میں ڈچ عوام کی ہجوم پر نظر پڑی جو نارنجی کپڑوں میں ملبوس راستوں کے دونوں اطراف رنگ برنگ اسٹال پرخرید و فروخت میں مصروف تھے۔ تبھی مجھے یاد آیا کہ آج کنگس ڈے ہے۔ تو کیوں نہ نیدرلینڈز کے کنگس ڈے کے حوالے سے چند اہم معلومات آپ کے ساتھ شئیر کروں۔
دوسری جنگِ عظیم کی ہیبت ناک واقعات اور تباہ کن بربادی کا مشاہدہ کرنے کے بعد دنیا کے بیشتر ملکوں نے اس بات کو محسوس کیاکہ ایک مضبوط اور پائیدار تنظیم قیام عمل میں لایا جائے تاکہ دنیا کو دوبارہ تباہی و بربادی سے بچایا جاسکے نیز ایک جمہوری، مساوی، انسانی حقوق اور انصاف پر مبنی سماج قائم کیا جاسکے۔ اس ضمن میں 1948 میں انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ کی منظوری کے ذریعہ تمام ملکوں کے لئے اس عمل کو رائج کیا گیا کہ و ہ اپنیاپنے ملکوں کو انصاف، مساوات، جمہوریت اور انسانی حقوق کی ترجیحات کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔
یورپ میں نیدرلینڈز جسے ہالیند کے نام سے بھی جانا جاتا ہے میں 1848 تک بادشاہی نظام رائج تھا اور بادشاہی فرمان کو ائینی حیثیت حاصل تھی۔ اسی وجہ سے اس ملک کو کنگڈم اف دی نیدرلینڈز کہا جاتا ہے۔ 1848 کے بعد یہاں پارلیمانی جمہوریتی نظام رائج کیا گیا۔ لیکن عوام کی ایما پر ملک کے بادشاہ کے خاندان کو بلند ترین مقام نیز ملک کے نام کوکنگڈم اف دی نیدرلینڈز کی حیثیت سے دستور میں شامل کیا گیا۔ بادشاہ کے عہدہ کو دستوری بادشاہت کا نام دیا گیا۔ اج بھی لوگ اپنے بادشاہ سے ویسے ہی محبت و عقدیت رکھتے ہیں جیسا کہ قدیمی زمانے کی روایت ہے۔
نیدرلینڈز ایک زمانے تک فرانس اور اسپین کے قبضہ میں رہا۔ اس دوران انلوگوں کے ظلم و جبر اور زیادتیوں سے تنگ ا کرڈچ عوام نے 1579میں اسپین کے خلاف بغاوت کی جس کی قیادت ویلیم فان ارنج ناساو نے کی۔ 1581 میں نیدرلینڈز کوفتح حاصل ہوئی۔ اس فتح سے ڈچ قوم اتنی خوش ہوئی کہ ویلیم فان ارنج ناساو کوبابائے قوم کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا اور انہیں ملک کا بادشاہ قرار دیا گیا۔ چونکہ ان کینام میں لفظ آرنج شامل ہے اس لئینارنجی رنگ کو ملک کا قومی رنگ منتخب کیا گیا۔ شاہی خاندان کو ہاوس اف ارنج جیسے القاب سے نوازا گیا۔ اس کے بعد ہر سال تاج پوشی والے دن کو جوش و جذبہ اور بہت ہی اہتمام کے ساتھ ایک تہوار کی طرح منایا جاتا ارہاہے۔
موجودہ بادشاہ کی والدہ ملکہ بیٹریکس جو کہ 2013 تک شاہی تخت سے وابستہ رہیں۔ ان کی تاج پوشی 30اپریل 1980 میں ہوئی۔ اس لئے 2013 تک 30 اپریل کوئنس ڈے کی حیثیت سے مانایا جانے لگا۔ اپنے 75سالہ عمر میں ملکہ بیٹریکس نے فیصلہ کیا کہ وہ شاہی ذمہ داری سے سبکدوش ہوکر اپنے بڑے بیٹے ویلیم الیگزینڈر جن کی پیدائش27 اپریل کو ہوئی تھی کو اپنا عہدہ تفویض کردیں۔ دریں اثنا 2014 میں بادشاہ ویلیم الیگزینڈرکی تاج پوشی کے بعد نیدرلینڈز میں بادشاہ کی سالگرہ کے موقع پر27 اپریل کو کنگس ڈے کی حیثیت سے منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
ڈچ قوم اپنے بادشاہ کی یومِ ولادت کو شایان شان اندازمیں مناتے ہیں۔ 26 اپریل کوملک کے تمام اسکولوں میں بچے بادشاہ کی سالگرہ کو منانے کی غرض سے نارنجی رنگ میں ملبوس ملک کا قومی پرچم ہاتھ میں تھامیاسکول انتظامیہ کی جانب سے ترتیب دیئے گئے مختلف پروگرام میں شرکت کرتیہیں اورخوب انجوائے کرتے ہیں۔ 26 اپریل کی شام کنگس نائٹ کے نام سیمنسوب ہے۔ ڈچ سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے تئیں پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ ریستوران، پارک، بار اور اپنے اپنے گھروں میں پارٹی کا اہتمام کرتے ہیں۔اس دوران بیشتر گھروں میں ڈچ قومی پرچم میں اضافی نارنجی پٹی شامل کر کیلہرائے جاتے ہیں۔ 27 اپریل کو نیدرلینڈز میں عام تعطیل ہے۔ اس موقع پرپورے ملک کو نارنجی رنگ سے اراستہ کیا جاتا ہے۔ ڈچ مرد و زن، بچے اور بوڑھے اپنے بادشاہ سے بے پناہ عقیدت کے پیشِ نظر نارنجی ملبوسات کا استعمال کرتے ہیں۔ کھانے میں ٹومپوس، جو کہ ایک خاص قسم کا ڈچ کیک ہے کا اہتمام ہوتا ہے۔ تحفہ کے طور پر لوگ خاص ٹومپوس کیک کا تبادلہ کرتے ہیں۔
کنگس ڈے کے حوالے سے نیدرلینڈز میں ایک منفرد ثقافتی منظر کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جس کی اپنی ایک الگ روایت ہے۔ لوگ خاص کر خواتین اور بچے اپنے گھروں میں رکھے پرانی یا غیر استعمال شدہ چیزوں کو لے کر شاہ راہوں اور شہرکے اہم راستوں کے دونوں اطراف ان چیزوں کا برائے نام قیمت پر خرید و فروخت کرتے ہیں۔ لیکن اس سال خراب موسم نیز صبح سے بارش کی وجہ سے اس ثقافتی عمل میں رخنہ پڑا پھر بھی ملک گیر پیمانے پر اس طرح کے فلی مارکٹ کامشاہدہ کیا گیا۔
ملک کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم جسے جھیلوں کا شہر کہاجاتا ہے میں عوام نارنجی رنگوں سے اراستہ چھوٹی بڑی کشتیوں میں سوار پورے دن انجوائے کرتینظر ائے۔ اس دن کا مشاہدہ کرنے کے لئے یورپ سمیت یورپ کے گرد و نواہ کے ملکوں سے لوگ یہاں کے چھوٹے بڑے شہروں کا دورہ کرتے ہیں اور ڈچ سماج کے اس اہم ثقافتی تہوار کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
اس دن کے موقع پر بادشاہ ویلیم الیگزینڈر ایک شہر کا انتخاب کرتے ہیں جہاں وہ شہر کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے براہِ راست ملاقات کرتے ہیں۔ وہاں کی انتظامیہ مع عوام گرم جوشی کے ساتھ اپنے بادشاہ کا استقبال کرتے ہیں، انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ بادشاہ عوام کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے تصویر کشی میں حصہ لیتے ہیں۔ جس سے بادشاہ اور عوام کے درمیان تعلقات کا ایک بہترین مثال دیکھائی دیتا ہے۔ اس دوران ان کی اہلیہ ملکہ میکسیمہ، تین صاحبزادیاں پرنسس اف ارنج امالیہ، پرنسس الیکسیہ اور پرنسس اریانہ بھی بادشاہ کے ہمراہ ہوتی ہیں۔ اس سال بادشاہ نے ملک کے شمال مشرقی شہر ایمن کا انتخاب کیا۔ انہوں نے باقاعدہ اس شہر کا دورہ کیا، کچھ وقت گذارے اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ ملاقات کی۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اقوام متحدہ نے 20 مارچ کوخوشی کا بین الاقوامی دن قرار دیا ہے۔ اس سال اس دن کے موقع پر اقوامِ متحدہ نے ورلڈ ہیپینس رپورٹ 2024 شائع کی۔ نیدرلینڈز جو کہ یورپ میں معاشی طور پر مستحکم ملکوں میں سے ایک ہے۔ معاشی، سماجی،ثقافتی اور سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے اس رپورٹ میں خوشحال ممالک میں نیدرلینڈز کا شمار چھٹے نمبر پرہوا جوکہ بادشاہ ویلیم الیگزینڈرکی سیاسی بصیرت اور رہنمائی کا ائینہ دارہے۔ نیدرلینڈز دنیا میں تیزی کے ساتھ معاشی ترقی کرنے والا ملکوں میں سے ایک ہے۔ یہ بات مثبت طور پر مانا جارہاہے کہ ملک مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
ایمسٹرڈیم، دی نیدرلینڈز
[email protected]
٭٭٭