نو عمر بچوں میںمنشیات کی لت تشویشناک !

0
0

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ ہیروئن کے عادی ہیں۔جبکہ 12 سے 70 سال کی عمر کے لوگ زیادہ تر اس خطرناک مسئلے یعنی منشیات کی لت میں ملوث ہیں۔ بھنگ ،چرس، گانجا ،ہیروئن اور فارماسیوٹیکل منشیات کے علاوہ نشہ آور ادویات، بھارت میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی چیزیں ہیں۔ یہ مادے کئی طریقوں سے لیے جاتے ہیں، کچھ کوکھایاجاتا ہے، ان میں سے کچھ کو سونگھ کر لیا جاتا ہے اور باقی کو نس کے ذریعے لیا جاتا ہے۔ شراب، تمباکو، سگریٹ یہ وہہ چیزیںہیں جو ہر تیسرا شخص بڑے پیمانے پر لیتا ہے اور سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی چیزیں ہیں۔ وہیں ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی تعداد میں کم عمر بچے اس کا شکار ہو رہے ہیں۔وہیںمنشیات کا اضافہ ان بچوں کو آگے چل کے کچھ سنگین جرائم کی طرف لے جاتا ہے جیسے چھیڑ چھاڑ، گروہی تصادم، قاتلانہ حملے،وغیرہ منشیات کے استعمال سے بڑھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس نشے نے ہمارے بچوں کو ذہنی طور پر تباہ کر دیا ہے، ان کی جسمانی، اخلاقی اور فکری نشوونما کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ زیادہ تر ان منشیات کی قیمتوں کو برداشت نہیں کر سکتے اور پھر یہ جرم کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ کہا جائے ہمارے بچے ایک ایسی برائی کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں جو انہیں مختصر وقت کی لذت اور زندگی بھر کیلئے بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے۔واضح رہے منشیات کا غلط استعمال کسی بھی غیر قانونی دواسازی کی دوائیوں کا بغیر کسی طبی ضرورت کے استعمال ہے، جو طویل مدت میں افراد پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے ۔منشیات کی لت اور منشیات کا استعمال کسی خاص جگہ کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس کے برے اثرات کا شکار ہے۔وہیں وبائی امراض کے سروے کے مطابق منشیات کے غلام افراد میں ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی اور تپ دق کی شرح بہت زیادہ ہے۔منشیات کے استعمال یا منشیات کی لت نے انفرادی گرو کو تباہ کر دیا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ نقصان ہے لہذا انفرادی اور قومی سطح پر دونوں کی ترقی میں سنگین رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔
وہیں اس لت کے برے اثرات صرف ان بچوں پر ہی نہیں بلکہ ان کے خاندان اور ان کے قریبی لوگوں کو بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ اتنا بھی نہیں بلکہ کئی بار خاندان اس لت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مالی، نفسیاتی اور صحت کے مسائل کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہو جاتے ہیں۔ پہلے یہ مسئلہ صرف بڑے شہروں میں کام کرنے والے بچوں میں دیکھا جاتا تھا لیکن اب چھوٹے شہر حتیٰ کہ دیہات بھی اس سنگین مسئلے سے دو چارہیں۔اس لعنت سے متاثر ہونے والوں کی بہت سی مثالیں ہمارے اپنے اردگرد دیکھنے کو ملتی ہیںتاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس لت کو سماج سے ختم کرنے کیلئے حکومتی ادارو ں کے علاوہ ہر شہری اس کا حصہ بنیں اور منشیات کی لت کو اکھاڑ پھینکیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا