سعدیہ ثنا
پونچھ
آج کے دور میں بے روزگاری اور ڈپریشن دو سنگین مسائل بن چکے ہیں، جس سے معاشرے کے مختلف طبقات خصوصاً نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں میں عدم تحفظ اور مایوسی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے جس کے بالآخر ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جس کو آئے روز نوجوان نسل میں بڑھتا ہوا دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے انسانی سکون تباہ و برباد ہورہاہے۔ موجودہ معاشرے میں ایسا کوئی بھی گھر نہیں جو اس بیماری سے بچا ہوا ہے۔ ماہرین اس بیماری کی بہت سی وجوہات بتاتے ہیں۔ ایک تو آج کل کی نوجوان نسل کو دماغی سکون میسر نہیں ہوتا دوسرے نیند مکمل نہیں ہوتی ہے جبکہ کچھ لوگ زندگی میں ناکامی کی وجہ سے اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح جموں کشمیر کے سرحدی علاقہ پونچھ کے نوجوان بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔اس سلسلے میں پونچھ کے سماجی کارکن سید انیس الحق کہتے ہیں کہ طبی نقطہ نظرسے ہٹ کر اگر ہم اسے سماجی مسئلہ کے طور پر دیکھیں تو اس کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔اس میں نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیں ہونا سب سے اہم ہے۔ بے روزگاری جموں کشمیر کا ایک اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل اس بیماری کا تیزی سے شکار ہو رہی ہیں۔ایک جانب انہیں روزگار کی فکر ہوتی ہے تو دوسری جانب سماج اور اہل خانہ کو ان سے کئی طرح کی امیدیں وابستہ ہو جاتی ہیں۔انہیں امید ہوتی ہے کہ ان کا لڑکا اعلی تعلیم حاصل کر اچھی نوکری کرے گا اور اس سے ان کی غربت دور ہو جائے گی۔لیکن جب ایسا نہیں ہوتا ہے تو وہ لڑکے کو ناکارہ سمجھنے لگتے ہیں اور اس کے ساتھ بہتر سلوک کرنے اور اس کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے اسے طعنہ دینے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ نوجوان اپنا حوصلہ کھونے لگتا ہے اور ڈپریشن کا شکارہو جاتا ہے۔
دراصل ڈپریشن کی ایک اہم وجہ بے روزگاری ہے۔مسلسل نوکریوں کی کمی کی وجہ سے بے روزگاری عروج پر پہنچتی جا رہی ہے۔ تعلیم اور ہنر کے باوجود نوجوانوں کو ان کے لائق ملازمتیں نہیں مل پا رہی ہیں۔ مزید برآں، معاشی کساد بازاری اور تکنیکی تبدیلی بھی بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جوں جوں مشینوں اور ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے، انسانی محنت کی ضرورت کم ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔انیس کہتے ہیں کہ”ہمارے سماج میں جو ایک اوراہم مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو جج کرتے ہیں اور دوسروں کے مطابق زندگی جینے کا سوچتے ہیں۔جو ایک آسان بات نہیں ہوتی ہے۔ہر ایک کی زندگی اپنی زندگی ہوتی ہے اور اسی کے مطابق اس کی اپنی پہچان ہوتی ہے۔ خدا نے ہمیں ایک مکمل انسان بنایا ہے پھر کیوں ہم دوسروں کے جیسا بننا چاہتے ہیں؟ اس طرح ہم اپنا ہی سکون برباد کر دیتے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل معاشرے میں پڑھے لکھے نوجوان سب سے زیادہ اس بیماری کا شکار ہورہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بے روزگاری کا سب سے زیادہ اثرانسان کے ذہنی صحت پر پڑتا ہے۔ جب کسی شخص کو طویل عرصے تک نوکری نہیں ملتی تو وہ مایوسی، پریشانی اور ڈپریشن جیسے ذہنی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے اپنے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کا سامنا کرناپڑتا ہے جس سے اس کی ذہنی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔
32 سالہ وسیم اقبال نے جغرفی میں دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے ایم اے اور ساتھ میں نیٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ اتنے بڑے امتحانات پاس کرنے کے باوجود وہ لگاتار جموں کشمیر پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے لیے جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اپنے مضمون میں اگر کوئی آسامی (پوسٹ) آتی ہے تو محض دو سے چار ہی ہوتی ہیں۔جبکہ ان آسامیوں کے لئے اپلائی کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ ایسے میں ہم کیا کریں؟گھر والوں کی امیدیں ہم سے وابستہ ہیں۔آخر کب تک نوکری کے انتظار میں بیٹھیں گے؟ اتنا پڑھ لکھ کر آج ہم ڈپریشن جیسی بیماری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ 2019 سے بھی پہلے ہم نے فارم بھرے تھے لیکن آج تک ان کا امتحانات کا اتا پتہ نہیں ہے۔ بس ہم امید لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے جیسے کئی نوجوانوں کا مستقبل داؤ ں پر لگا ہوا ہے۔
ایک طالبہ جتنا کماری بتاتی ہیں کہ انہوں نے سینٹرل یونیورسٹی جموں سے ایم اے پبلک ایڈمنسٹریشن کے بعد نیٹ کا امتحان پاس کیا اور پھر جے این یو سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اس کے بعد کافی جدوجہد کر انہیں پنجاب کے آدم پور کالج میں ایڈھاک پر دو سال کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنی ڈگریاں حاصل کر کے ہمیں اپنا مستقبل کہیں نظر نہیں آتاہے۔ حال ہی میں جموں یونیورسٹی میں ہمارے مضمون سے جڑے پرماننٹ پروفیسر کے لیے صرف دو پوسٹیں آئی تھیں جس کے لئے ساٹھ سے زیادہ کینڈیڈیٹ نے اپلائی کیا تھا۔ اتنی محنت مشقت کے ساتھ میں نے یہ سب ڈگریاں حاصل کیں کہ آنے والی نسل اس مضمون کی اہمیت کو سمجھ سکے اور اس مضمون کا بھی ایک اپنا ڈیپارٹمنٹ ہو۔ لیکن اب مجھ جیسے کئی نوجوان اس میں ایم اے نیٹ اورپی ایچ ڈی کر کے مستقل ملازمت کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ ایسے میں ہم احساس کمتری کا شکار ہوکر ڈپریشن جیسی بیماری میں مبتلا ہو رہیں۔اس سے ہمارا ذہنی سکون تباہ وبرباد ہو رہاہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ ڈپریشن ایک ایسی حالت ہے جس میں انسان ہمیشہ اداس اور افسردہ رہتا ہے۔بے روزگاری، خود اعتمادی کا فقدان، سماجی تنہائی اور معاشی دباؤ کا باعث بنتی ہے، جو ڈپریشن کو فروغ دیتی ہے۔ کئی بار لوگ اتنے مایوس ہو جاتے ہیں کہ وہ خودکشی جیسا سخت قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس حساس مسئلہ کا حل بھی ممکن ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بے روزگاری اور ڈپریشن سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوگی۔ سب سے پہلے جہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ نوجوانوں کو روزگار کے لیے تربیت اور ہنرمندی کے فروغ کے پروگراموں میں حصہ لینے کی ترغیب دینا ہوگی۔ اس کے علاوہ دماغی صحت کی خدمات کو بھی قابل رسائی بنانا ہوگا تاکہ ضرورت مند لوگوں کو صحیح وقت پر مدد مل سکے۔وہیں دوسری جانب معاشرے کو بھی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ڈپریشن سے نمٹنے کے لیے خاندان اور دوستوں کا تعاون بہت ضروری ہے۔ معاشرے کو ایسے افراد کی نشاندہی کرنی چاہیے جو بے روزگاری کی وجہ سے ذہنی مسائل کا شکار ہیں اور انہیں ذہنی اور جذباتی مدد فراہم کریں۔ مزید برآں، مراقبہ، یوگا اور دیگر ذہنی صحت کے طریقے بھی ڈپریشن سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔بے روزگاری اور ڈپریشن کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ اس لیے ان دونوں مسائل کا حل معاشرے کے ہر طبقے کی شراکت سے ہی ممکن ہے۔ اگر ہم سب مل کر اس سمت میں کوششیں کریں تو ہم بے روزگاری اور ڈپریشن دونوں سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکتے ہیں۔(چرخہ فیچرس)