نفرت کی باتیں شری رام کے پجاری نہیں، راون کے پجاری کرتے ہیں:- مولانا دلاور حسین لطیفی۔

0
0
( منصوراحمدحقانی )

ارریہ :-// کئی دنوں سے نہ صرف بہار میں بلکہ پورے ملک میں سیمانچل کا ارریہ ضلع یہاں کے رکن پارلیمینٹ شری پردیپ کمار سنگھ کے ایک متنازع بیان سےکافی چرچے میں ہے اور چھوٹے سے لے کر بڑے سیاستدان اپنی اپنی سیاسی روٹی سینکنے میں لگے ہیں۔ واضح رہے کہ دوتین دن قبل "ہندو سوابھیمان” پروگرام کے دوران ارریہ آر ایس میں یہاں کے ایم پی شری پردیپ کمار سنگھ بولتے بولتے بول گئے کہ "ارریہ میں رہنا ہے تو ہندو بننا ہوگا۔”
یہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر اتنا وائرل ہوا کہ پورا دیش کیا تقریباً پوری دنیا میں یہ بات پھیل گئی کہ ایک معزز رکن پارلیمینٹ کیسی بات کر گئے، کیوں کہ ملک ہندوستان کسی ایک مذہب کے ماننے والے کا دیش نہیں ہے، بلکہ ہندو۔ مسلم سکھ اور عیسائی کا یہ دیش ایک پھلواری کے مانند ایک دوسرے کو اپنی خوشبو سے معطر کر رہا ہے مگر یہاں کے ایم پی صاحب نے اپنی باتوں سے گنگا جمنی تہذیب کو مٹانے کا کام کر ڈالا ہے، اسی تناظر میں مولانا دلاور حسین لطیفی چترویدی صدر شیام پنڈ بھارت کلیان پریشد ارریہ اورصدر عوامی پارٹی بہار ایک تحریری پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے اپنی باتوں کا آغاز ان اشعار سے کیا ہےکہ:-
وہ آباد شہر ارریہ کے محفل کو اجاڑنے میں لگے ہیں۔
دشمن ہندو مسلم کی خوشیوں کو بگاڑنے میں لگے ہیں۔
ہوش میں رہنا اے شہر ارریہ کے امن پسند باشندوں!
لیڈر،کرسی کی خاطر ہندومسلم یکتاکو توڑنےمیں لگے ہیں۔
مولانا دلاور نے مزید تحریر کیا ہےکہ شہر ارریہ سمیت پورے سیمانچل اپنی خاص تہذیب کی وجہ سے مشہور ہے ،یہاں کے ہندو مسلم کی یکتا مثالی ہے، آپس میں پیار ومحبت سے رہنا اور مل جل کر زندگی بسرکرنا یہاں کا کا اپنا دستورہے، ہندو مسلمان کا ایک دوسرے کی پریشانی میں شریک ہونا اور ایک دوسرے کاآنسو پوچھنا یہاں کے لوگوں کا خاص طور طریقہ رہا ہے ،
مگر افسوس کچھ ناپاک سوچ رکھنے والے لوگ، شہر امن کو بدامنی کے عمیق گڈھے میں گرانے میں لگے ہیں، ان کی یہ ناپاک کوشش کبھی بھی کامیابی کو عبور نہیں کرسکتی ہے۔ چاہے ایسے افراد اپنی ناپاک عزائم سے اپنے آقاؤوں کوخوش کرنے کیلیے کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کرلیں۔ میں باشندگان ارریہ کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام ہندو مسلم اور امن پسند لوگوں سے بتانے کی کوشش کرونگا کہ ایسے ناپاک سازش کرنے والے لوگوں کو پہچانیں! یہ لوگ اپنی کرسی کو بچانے کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ لوگ شری رام کا نام لے کر رام کو بدنام کرنے میں تلے ہوئے ہیں۔ اس عظیم ہستی کے نام کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ رام کے ماننے والے نہیں ہیں، یہ لوگ اہنکار میں ڈوب کر راون کو پوجنے والے ہیں۔ اگر یہ لوگ رام کے پوجنے والے ہوتے تو یہ لوگ کبھی بھی کسی ایک کمیونٹی کو ٹارگٹ نہیں کرتے۔ رام کے نام کو اپنے غلط کاموں کے لئے استعمال کرنے والے کبھی بھی رام کے بھگت نہیں ہو سکتی ہیں۔ مولانا نے شری رام کے متعلق کہا کہ ایک رات شری رام کے دربار میں ایک عورت آتی ہے۔درباری اسے یہ کہ کر لوٹا دیتا ہے کہ مہاراج ابھی آرام کر رہے ہیں، صبح رام جی کو اسکی اطلاع ملتی ہے تو شری رام نے درباریوں کو اپنے خدمت سے اخراج کرتے ہوئے کہا کہ اس راجیہ میں راجا کو آرام سے سونے کا کوئی ادھیکار نہیں جسکے راجیہ میں ایک بھی پرجا بے آرام سوئے۔ ایک سبھا کو سمبودھت کرتے ہوے شری رام نے مہارشی سے سوال کیا کہ سب سے بڑا دھرم کیا ہے۔ تو رشی نے جواب دیا اہنسا سب سے بڑا دھرم ہے۔ اہنسا پرمو دھرمہ۔ پھر رشیوں سے پوچھا گیا کہ سنت اور اسنت میں کیا فرق ہے۔ جواب دیا کہ سنت دوسرے کو خوش کرنے کیلئے خود کو پریشانی اور دکھ میں مبتلا کر لیتا ہے۔ اور اسنت کا ارتھ ہے اپنے فائدے کے لئے دوسرے پر دکھوں کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں۔ اسی لیے ہماری یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ ایسے نفرت پھیلانے والے لوگوں کے بیان پر دھیان نہ دیں! بلکہ ان کے خلاف آئین کے تحت کاروائی کریں! آپ نے آخر میں لکھا ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان پھولوں کا ایک باغیچہ ہے اور یہاں کے رہنے والے لوگ طرح طرح کے رنگ برنگے پھول ہیں، اس لئے ایسی پھلواری سے نفرت کی بد بو نہیں بلکہ محبت کی خوشبو آنی چاہیئے۔ٹھیک ان اشعار کی طرح:-
      ہم بھارت کی پھلواری کے رنگ برنگے پھول 
    اک دوجے کو کانٹا سمجھیں یہ ہے اپنی بھول
بھارت دیس کی پھلواری کو مل کر خوب سجائیں 
سارے جگ میں پیار کی خوشبو ہم سب پھیلائیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا