شبانہ عشرت
روز آواز لگاتی ہے چلی جاتی ہے
زندگی پاس بلاتی ہے چلی جاتی ہے
ایک مدت سے تمنا ہے کہ تعبیر ملے
زندگی خواب دکھاتی ہے چلی جاتی ہے
اب مجھے ہوش میں لانے سے بھی حاصل کیا ہے
زندگی وجد میں لاتی ہے چلی جاتی ہے
اپنی صورت پہ بھی تنقید گوارا کر لوں
آئینہ مجھ کو دکھاتی ہے چلی جاتی ہے
خامشی تیری فضائل نہیں دینے پاتی
زندگی شور مچاتی ہے چلی جاتی ہے
مجھ سے معمور ہے الفت کی کہانی کیا کیا
اک جھلک روز دکھاتی ہے چلی جاتی ہے
کوئی خوش رنگ سی تتلی ہے خوشی بھی شاید
دل کی دہلیز تک آتی ہے چلی جاتی ہے
کوئی پازیب سی پیروں میں بندھی ہے عشرتؔ
عشق کی دھن پہ نچاتی ہے چلی جاتی ہے