محمد علیم اسماعیل
سید محمد اشرف ہمارے عہد کے قد آور فکشن نگار ہیں۔ ’’نصف صدی کا قصہ‘‘ ان کے منتخب افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جس میں کل 35 کہانیاں اور ایک ناولٹ ’نمبردار کانیلا‘ شامل ہے۔ 713 صفحات پر مشتمل یہ کتاب سنہ 2022 میں عرشیہ پبلی کیشنز دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ مجموعے کی فہرست اس طرح ہے: یک بیاباں، دوسرا کنارہ، بلبلا، ببول کے کانٹے، منظر، کعبے کا ہرن، آدمی، قدیم معبدوں کا محافظ، بڑے پل کی گھنٹیاں، قربانی کا جانور، آخری بن باس، علامتی تشبیہ کی استعاراتی تمثیل، غالب کے ساتھ ایک سہ پہر، دروازے، منشی خان، گدھ، لکڑبگھا ہنسا، آخری موڑ پر، لکڑبگھا رویا، چکّر، روگ، لکڑبھگا چپ ہوگیا، ڈار سے بچھڑے، نمبردار کانیلا، رنگ، ساتھی، چمک، طوفان، اندھا اونٹ، دعا، نجات، تلاش رنگ رائیگاں، جنرل نالج سے باہر کا سوال، وہ ایک لمحہ، بادِ صبا کا انتظار، پہلی اڑان۔
سید محمد اشرف زوال پذیر معاشرے کے نباض و نقاد ہیں۔ ان کی زیادہ تر کہانیاں پرسکون ماحول میں شروع ہوتی ہیں اور پھر دھیرے دھیرے اضطراب، باطنی کشمکش اور بغاوت کی جانب بڑھنے لگتی ہیں۔ سید محمد اشرف کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ منظر نگاری اور جزئیات نگاری میں بھی وہ کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے آہستہ آہستہ قاری کو اپنی گرفت میں اس طرح جکڑ لیتے ہیں کہ کہانی کو مکمل طور پر پڑھے بغیر چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا۔ سید محمد اشرف نے جانوروں اور غیر جاندار اشیا کو مرکزی کرداروں کے طور پر اخذ کرکے کہانیاں لکھیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے ماضی کی ٹوٹتی بکھرتی قدروں کو بھی تخلیقی پیرائے میں بیان کیا۔ ان کی کہانیوں کے متن سے فکر کی کئی کرنیں پھوٹتی ہیں جو موضوع کی گہرائی وہ گیرائی پر روشنی ڈالتی ہے۔
سید محمد اشرف کی کہانیاں بین السطور میں مکالمہ کرتی ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ فرماتے ہیں: ’’سید محمد اشرف کے یہاں واقعیت اور علامت کا ایسا امتزاج ملتا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ جب میں ان کی کہانیوں کو بار بار پڑھتا ہوں تو ان کا اسلوب، نثر، ساخت اور تھیم دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بات کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے۔ یہ متن میں تو کہتے ہی ہیں لیکن بین السطور اتنا روشن ہوتا ہے کہ بلاتشبیہ خدائے سخن میر تقی میرؔ کا شعر یاد آتا ہے۔
طرفیں رکھے ہے ایک سخن چار چار میرؔ
کیا کیا کہا کریں ہیں زبانِ قلم سے ہم‘‘
سید محمد اشرف کی کہانیوں کی اگر بات کی جائے تو لکڑبگھا ہنسا، لگربگھا رویا، لکڑبگھا چپ ہو گیا، یہ تینوں علامتی اور استعاراتی کہانیاں ہیں جو انسانی نفسیات کی پرتیں کھولتی ہیں اور انسانی رویوں پر بات کرتی ہیں۔ افسانہ ’’لکڑبگا ہنسا‘‘ بظاہر تو ایک لکڑبگھے کے ذریعے پیدا ہونے والے خوف کی کہانی ہے لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہانی انسانی نفسیات کو بیان کرتی ہے۔
افسانہ ’’ببول کے کانٹے‘‘ زمینداری ختم ہونے کے بعد ایک زمیندار کے گھر کی، ان کی زندگی کی اور نفسیاتی الجھنوں کی کہانی ہے۔ اختر میاں جو ایک زمیندار حبیب احمد میاں کا لڑکا ہے، کہانی کا مرکزی کردار ہے جو کہانی کا راوی بھی ہے۔ بارہ برس پہلے وہ پڑھائی کے لیے لندن گیا تھا اور جب بارہ برس بعد گھر لوٹا تو معلوم ہوا کہ زمینداری ختم ہو گئی، سب کچھ بدل گیا۔ ذاتی طور پر سید محمد اشرف کی یہ کہانی مجھے بہت پسند ہے، بڑی پر اثر داستان ہے۔ یہ افسانہ ابتدا سے آخر تک خوبصورت پیرائے میں لکھا گیا ہے، جس کا اسلوب متاثر کن ہے۔ افسانے کی چند ابتدائی سطریں دیکھیے: ’’رات بوڑھی ہوچکی تھی جب میں ان گلیوں میں داخل ہوا جہاں میں نے اپنے بچپن کو جوان کیا تھا۔ بارہ سال…اُف بارہ سال ہو گئے مجھے یہاں سے گئے ہوئے۔ سڑک پر بجلی کے لمبے ساکت کھڑے تھے۔ ان کے ٹمٹماتے زرد قمقموں سے بس اتنی ہی روشنی پھوٹ رہی تھی کہ آدمی اندھیرے میں کھمبوں سے ٹکرا نہ جائے۔ رکشا قصباتی سڑک پر دھیرے دھیرے رینگ رہا تھا۔ صبح ہونے میں ابھی دیر تھی۔ آسمان آہستہ آہستہ ستاروں سے بے نیاز ہو رہا تھا۔‘‘
اس افسانے کو قاضی عبدالستار کے نام کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس مجموعے کی خاصیت ہے کہ اس میں موجود زیادہ تر افسانے کسی نہ کسی کے نام سے منسوب کیے گئے ہیں۔ افسانہ ’’ببول کے کانٹے‘‘ کو قاضی عبدالستار کے نام کرنے کی ایک خاص وجہ نظر آتی ہے اور وہ ہے اس افسانے کا موضوع کہ قاضی عبدالستار کا نام آتے ہی دماغ میں پیتل کا گھنٹہ بجنے لگتا ہے اور اس گھنٹہ چوٹ کے نشانات دل کو مغموم کر دیتے ہیں کچھ ایسی ہی فضا اس افسانے ’’ببول کے کانٹے‘‘ سے بھی بنتی ہے۔
’’آدمی‘‘ فسادات کے دور کی کہانی ہے۔ یہ ڈر خوف، خوشی اور انسانی نفسیات کی داستان ہے۔ یہ ایک ایسے کردار کی کہانی ہے جو آدمیوں سے خوفزدہ ہے۔ اُسے محسوس ہوتا ہے کہ جب ایک سے زائد آدمی ایک جگہ اِکھٹّا ہوتے ہیں تو فساد برپا ہو جاتا ہے۔ ’’چکر‘‘ ایک علامتی کہانی ہے۔ اس میں زندگی کے چکر کو بتایا گیا ہے کہ تاریخ کس طرح اپنے آپ کو دُہراتی ہے۔ اقتدار کی خواہش یا کامیابی کی چاہت اس کہانی کا موضوع ہو سکتا ہے لیکن ہر قاری اپنے مطابق اس کہانی کا مطلب اخذ کر سکتا ہے اور یہی اس کہانی کی بڑی خوبی ہے۔ ’’کعبے کا ہرن‘‘ فسادات کے پس منظر میں انسانی نفسیات کی کہانی ہے۔ ’ڈار سے بچھڑے‘ اس افسانے میں ہجرت کے قرب کو بیان کیا گیا ہے۔
سید محمد اشرف کے افسانوں میں انسانی ذہن، نفسیات، عمل، طبقاتی کشمکش، اخلاقی قدروں کی پاسداری اور ٹوٹ پھوٹ، انسانی زندگی میں تضاد اور زندگی کی مختلف شکلیں نظر آتی ہیں۔ اسلوبی سطح پر بھی ان کی کہانیاں متاثر کرتی ہے۔ علامتی، استعاراتی اور ایک تہذیب جو اب ماضی بن چکی ہے اس کا نوحہ بھی ان کی کہانیوں میں جابجا نظر آتا ہے۔