نشہ خوری حقیقت میں مہلک امراض کے زریعہ موت کو دعوت

0
0

سلمی راضی

ملک کو جہاں ملک دشمن عناصر کا سامناہے وہی سماج دشمن عناصر نے بھی اپناایک الگ محاذ قائیم کرکے نوجوان نسل کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیاہے۔جس کی وجہ سے ہر روز سینکڑوں جانیں تلف ہوتی ہیں اور سینکڑوں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جارہے ہیں۔ ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھی اس وقت منشیات کی لعنت عروج پر ہے۔ منشیات میں کسی بھی طرح سے ملوث افراد کی تعداد یہاں ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ معلوم ہواہے کہ مرکزی وزارت نے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جموں و کشمیر میں تقریباً ایک لاکھ آٹھ ہزار مرد اور 36,000 خواتین بھنگ کا استعمال کرتے ہوئے پائے گئے۔ جبکہ 534,000 مرد اورآٹھ ہزار خواتین اوپیو استعمال کر رہی تھیں۔قریب 160,000 مرد اور 8,000 خواتین مختلف مسکن ادویات استعمال کر رہی تھیں۔ یہ حالت واقع ہی تشویش ناک ہے کیوں کہ منشیات مخالف مہیم جتنی تیز ہوتی جارہی ہے۔اس سے زیادہ منشیات میں نوجوان ملوث ہوتے جارہے ہیں۔ جن میں مردوخواتین دونوں ہی ملوث ہیں۔ایسالگتاہے کہ منشیات مخالف مہیم نوجوانوں کے لئے نسخہ اکثیر کا کام کررہی ہے۔ حالیہ دنوں ایک دولدوز اور قابل افسوس واقعہ جو اخبارات اور سوشل میڈیا کے دیگر زرایع کے حوالے سے موصول ہوئی۔جس نے ہر ایک کے رونگٹے کھڑے کردئے کہ ایک نوجوان نے نشہ میں دھت ہوکر اپنی ماں کو قتل کردیا اور اپنی معصوم بچی کا بھی گلا کاٹ دیا! یہ درندگی نہیں تو کیاہے؟
پونچھ کے سرنکوٹ میں ایک حسین وجمیل نوجوان نے ایک ماہ قبل نشہ کا کہیں سے ا نجکشن اپنے آپ کو لگایا تھا۔ تب سے وہ بیمار ہوگیا۔ہسپتال میں علاج معالجہ ایک ماہ تک چلتارہا۔آخر کار انجکشن نے علاج کو کارگر نہ ہونے دیااور نوجوان اپنے والدین کو داغ جدائی دیکر لقمہ اجل ہوگیا۔ اس طرح کے ایک دو واقعات نہیں ہیں بلکہ جموں وکشمیر کے ہر ضلع اور ہر تحصیل میں ان گنت معاملے پیش آ رہے ہیں۔بس افسوس اور رونے رولانے کے سوا کچھ نہیں ہوتاہے۔ اب یہ وبا شہروں قصبوں اور دیہاتوں اور تعلیمی اداروں کے اندر تک داخل ہوچکی ہے۔ جس کو ختم کرناتو دور،درکنارکرنا اور اس سے بچنابھی مشکل ہورہاہے۔یہ وباجنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔ ضلع پونچھ جہاں جموں وکشمیر پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں نے انتھک محنت کرکے منشیات مخالف کامیاب کاروائیوں کو انجام دیاہے اور متعدد منشیات سمگلروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی دھکیل دیاہے۔ کیا بس اتنا ہی کافی ہے؟ کیا صرف پولیس اور سیکورٹی اجنسیاں ہی منشیات کو روکنے کی زمہ دار ہیں؟ کیا والدین اور سماج میں نامور افراد اس مہیم سے بری ہیں؟ کیا منشیات کے اسباب وارتکاب دیہاتوں میں نہیں ہورہاہے؟ ہر گز ہورہاہے۔ بلکہ جب سے منشیات نے شہروں سے دیہاتوں میں دستک دی ہے۔ تب سے اس لعنت میں اضافہ ہواہے۔ طارق حسین جن کی عمر 44سال ہے، انہونے تشویش کا اظہار کرتے ہوے کہاکہ اس وقت جب نوجوانی کی دلہیز پر دستک دیتے ہیں تو موج مستی میں آوارہ لڑکوں کے ساتھ باہر نکل پڑتے ہیں اور والدین چونکہ اپنے کام کاج میں مگن رہتے ہیں۔انہیں اپنے بچوں کا کوئی خیال ہی نہیں رہتا۔انجام یہ ہوتاہیکہ یہی بچے آہستہ آہستہ پان، گٹھکہ، نیوالا،بیڑی،تمباکو،سیگریٹ یاروں بیلیوں کی محفلوں سے استعمال کرتے ہوے ایک وقت وہ اس نشہ کے عادی ہوجاتے ہیں۔ انجام یہ ہوتاہے کہ یہ کم علم اور دیہاتی نوجوان منشیات کے کاروبار اور استعمال میں زیادہ ملوث ہوجاتے ہیں۔بلکہ اب سارا نظام ہی دیہاتوں میں انجام دیاجاتاہے۔
اس لعنت کے حوالے سے جہاں منشیات کے نقصانات پر سیمینار،ریلیاں،مشاورت مٹنگیں، ناٹک یا دوسرے زرایع منعقد کئے جاتے ہیں وہی پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اجنسیاں بلخصوص پولیس منشیات میں جزوی یا کلی طور پر شامل افراد اشخاص یاگروہ کو سزاء کے حوالے سے بتائیں۔ انہیں ملک کے قانون کے عین مطابق سزاء اور جیلوں کے پیچھے ڈالنے کے پیغامات بھی تو عام کریں۔ نامور ادیب پرنسپل ماڈل ہائیر سیکنڈری سکول ساوجیاں انور خان نے منشیات کے حوالے سے بتایاکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کو اپنے پیاروں سے دوست واحباب سے تو دور کردیتی ہے۔ایسے شخص کو رب بھی پسند نہیں کرتا ہے۔ایسا شخص نہ مسجد میں، نہ گردوارے میں، نہ مندر میں جانے کے قابل ہے۔ بلکہ اسلام کی متبرک کتاب قران پاک نے تو نشہ کی حالت میں نماز کے قریب تک جانے سے منع کردیاہے۔ یہاں تک کہ یہ شخص اس قدر پلید ہوجاتاہے کہ وہ کسی بھی عبادت کے قریب تک نہیں جاسکتاہے۔جس رب اپنے در سے دور کردے اپنے سامنے جھکنے سے روک دے سوچ لو اس کا انجام کیاہوگا؟پونچھ کے معروف صحافی اور سماجی کارکن پردیپ کھنہ نے پولیس کی جانب سے منعقدہ منشیات مخالف سیمنار میں کہا کہ نشہ خوری گھروں کو اجاڑکر تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کرتاہے۔ جس کے لئے ہم سب جب تک اپنے سماج کو سدھارنے کی قسم نہیں کھائیں گے۔اپنے سماج کے ہر فرد کی ہر حرکت پر نظر رکھ کر اس کو سدھارنے کی از حد کوشش نہیں کریں گے تو یہ وباء اس قدر عروج اختیار کرے گی۔ جس پر قابوں پانا ناممکن ہوجایگا۔ نوبت یہاں تک پہونچے گی کہ بچوں اور بچیوں کی تعلیم بھی متاثر ہوگی۔
منشیات کے حوالے سے انسپکٹر مختار علی جو تھانہ پولیس منڈی میں تعینات ہیں نے بتایاکہ گزشتہ جب سے یہاں آیاہوں منشیات کے حوالے سے میرا کریک ڈاؤن جاری ہے اور جاری رہیگا۔ اپنے مختصر ایام تعیناتی میں متعدد منشیات فروشوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیاہے۔ مذید کاروائی جاری ہے۔ منڈی ہی نہیں بلکہ ضلع بھر میں ایس ایس پی پونچھ کی جانب سے سخت گیر مہیم جاری ہے اور منشیات فروشوں کے خلاف اس سال سب سے کامیاب کاروائیاں جاری ہیں۔ لیکن جب تک اس مہیم میں سماج کا ہر فرد شامل نہیں ہوگا، پولیس کی معاونت نہیں کرے گا،اپنے نوجوانوں کی زندگیوں کو برباد ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے اقدام نہیں اٹھاے گا تو صرف پولیس یا سیکورٹی ایجنسیاں ہی کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں۔ اگر اپنے سماج اور معاشرہ سے اس لعنت کو ختم کرناہے تو ہر فرد کو سامنے آکر منشیات مخالف جنگ لڑنی پڑے گی۔ ورنہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے نوجوانوں منشیات میں لت پت ہوکر زندگیاں برباد کرتیرہیں گے۔ حقیقت میں نشہ خوری میں مبتلا نوجوان مہلک مرض کے زریعہ موت کا شکار ہونگے۔ (چرخہ فیچرس)
9350461877

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا