نشہ: ایک ناسور

0
0

فرحان بارہ بنکوی

دینِ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔ یہ ایسا فطری دین ہے، جس کا ہر ہر حکم انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اور نسلِ انسانی کے لیے آبِ حیات کے مانند ہے۔ اس نے انسان کو ہر اس چیز سے منع اور ہر اس کام سے روکا ہے، جو انسان کے لیے مضرت رساں ہو۔
اس نے تمام غلط امور کے ارتکاب سے منع کیا اور اس کی سزائیں مقرر کیں؛ تاکہ انسان اسی خوف کی بنا پر مضر چیزوں سے باز رہے۔ انسان چونکہ جلد باز اور بے صبرا پیدا کیا گیا ہے اور اس کا ذہن و دماغ اس قدر دور رس نہیں ہوتا کہ وہ خدائے حکیم و خبیر کی منشا اور اس کے پسِ پردہ مقاصد کو بہ آسانی پا سکے؛ اسی بنا پر وہ بعضے ایسے امور کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے کہ جن میں متعدد مفاسد پنہاں ہوتے ہیں، اور بے شمار مفاسد کا جنم اسی ایک امر ممتنع سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔
انہیں نواہئ الٰہیہ میں سے ایک مُنشّیات ہے۔
آج کل نوجوان نسل فیشن کے نام پر نشے کی  اس قدر عادی ہو چکی ہے، کہ ان کو بھلے برے کی تمیز بھی نہیں رہی۔ اس نشہ خوری کا آغاز کُول (Cool) اور ماڈرن بننے کے نتیجے میں ہوتا ہے اور ابتداءً سگریٹ کے ایک آدھ شوقیہ کش لگانے اور پان مسالہ کی سپاری کے چند دانے سے ہی نشہ خوری کی داغ بیل پڑتی ہے۔
والدین کے لیے اولاً خود نشہ بازی سے دور رہنا اور پھر اپنے نونہلان کی تربیت کے واسطے ہر نشہ آور شے سے ان کو تا بہ مقدور باز رکھنے کی سعئ پیہم اور جہدِ مسلسل ناگزیر ہے۔
نشہ خوری کی لت نے نوجوانوں کو موت و حیات کے دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے، جہاں سے تکلیف و مصائب سے پُر، صعوبت و ایذا سے معمور ایک ایسی راہ گذر ہے، جو ایک ایسی  خوف ناک منزل کی طرف لے جاتی ہے کہ جہاں انسان موت و حیات کے کشمکش میں مبتلا رہتا ہے۔ اس کی مابقیہ حیاتِ مستعار صرف، تکلیف و مصائب، رنج و الم حاصل میں بسر ہوتی ہے اور تمام زندگی کفِ افسوس ملنے پڑتے ہیں۔
اس نشہ خوری کی عادت نے نوجوانانِ ملک و ملت کو ایسی راہ پر گامزن کر دیا ہے کہ جہاں سے زیست کا دامن تنگ نظر آتا ہے۔
مذہبِ اسلام نے جہاں بے شمار حدود قائم کی ہیں، انہیں میں سے ایک ’’اسراف‘‘ (فضول خرچی) بھی ہے؛ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔
کوئی بھی صاحبِ عقل و مالکِ فہم و فراست کسی طرح کی نشہ خوری کو درست اور روا شمار نہیں کر سکتا۔
نشہ خوری سے سوائے مضرت کے، کوئی بھی نفع نہیں ہے۔
اس بد خوئی سے متعدد نقصانات ظہور پزیر ہوتے ہیں۔ نشہ خوری کی لت کی وجہ سے انسان کا مال و منال اس طرح ضائع ہوتا ہے کہ اس کا علم و ادراک بھی نہیں ہوتا۔
نشہ خوری کی لپیٹ میں آکر اکثر نوجوان خود کو ہلاکت کے منہ میں ڈھکیلتے ہیں اور اس کی شروعات چند دانے سپاری کے کھانے اور سگریٹ کے ایک آدھ کش شوقیہ لگانے سے ہوتا ہے اور پھر انسان رفتہ اور رفتہ اور سگریٹ نوشی کے مراحل بتدریج طے کرکے اس کا اسیر ہو چکا ہوتا ہے۔ اب اس سے سگریٹ کا تعلق اسی صورت میں منقطع ہو سکتا ہے؛ جب فرشتۂ اجل اس کے سامنے پروانۂ نجات لیے حاضر ہوتا ہے۔ اس نشہ خوری اور سگریٹ نوشی کے سے دل و دماغ مفلوج ہو جاتے ہیں، صحیح غلط کا امتیاز کرنے صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، اچھے اور برے میں فرق کرنا اس کے لیے کسی پہاڑ کو منتقل کرنے جیسا امر عظیم اور دشوران کن ہوتا ہے۔
نو عمر  بچے نشہ آور ادویہ، چرس، افیون، سگریٹ، پان مسالہ، تمباکو، یہاں تک کہ بعضے لوگ پٹرول کا استعمال کرکے اپنی نشہ بازی کی طلب پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نشہ بازی میں نوجوان ہی نہیں؛ بلکہ کم عمر بچے، کم سن بچیاں، نو خیز لڑکیاں، عمر دراز مرد اور سن رسیدہ عورتیں، بہ فرقِ تناسب سبھی شامل ہیں۔
نشہ آوار انجیکشن، سیرپ و ادویات کا استعمال موجودہ وقت میں کسی صاحبِ بصیرت سے ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے۔ معاشرے میں رہنے والا ہر فردِ بشر اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہے۔
جو والدین خود نشہ کرنے کے عادی ہوں، آخر وہ اپنی اولاد کو کس منہ سے نشہ سے روکیں گے اور نشہ کے نقصانات کے پر کس طرح گفتگو کریں گے۔
اب بھی وقت ہے کہ نشہ ترک کرکے اور نسلِ نو کو اس امرِ مہلک سے باز رکھیں؛ ورنہ آپ اپنی نسلِ نو کی ہلاکت کے از خود ذمہ دار ہوں گے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا