نتیش کا ٹریک ریکارڈ اور نیائے یاترا

0
0

 

 

 

 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

راہل کے بہار پہنچنے سے پہلے ہی نتیش کمار خیمہ بدل کر این ڈی اے کا حصہ بن گئے۔ حالانکہ بھارت جوڑو نیائے یاترا کے بہار پہنچنے پر انہیں اس میں شامل ہونا تھا۔ این ڈی اے میں جانے کے ساتھ ہی ان کا انڈیا اتحاد سے بھی ناتا ٹوٹ گیا۔ جبکہ انہوں نے برسراقتدار بی جے پی کے آمرانہ رویہ کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے، ذات پر مبنی سروے کرایا اور کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دیئے جانے کی سفارش کی تھی۔ جس کی وجہ سے انہیں سماجی انصاف کا بہادر سپاہی اور وکیل مانا جا رہا تھا۔ اسی سماجی انصاف کے سوال کو راہل گاندھی اپنی یاترا کے دوران شدت اٹھا رہے ہیں۔ وہ بہار کے کشن گنج پہنچے تو وزیراعظم نریندر مودی پر جارحانہ نظر آئے اور پورے ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے یہاں بولتے ہوئے کہا، ’’بہار سماجی انصاف کی سرزمین ہے۔ پورا ملک بہار کی طرف دیکھ رہا تھا کیونکہ سماجی انصاف کو بہار سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ ہر کسی کو او بی سی، اقلیتوں، قبائلیوں، عام زمرے کی صحیح تعداد جاننے کا حق ہے۔ ایسے میں ذات پات پر مبنی سروے ایک انقلابی قدم تھا۔
نتیش کی اس شبیہ کو این ڈی اے میں شامل ہونے سے دھچکا لگا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عام انتخابات سے چند ماہ قبل وہ این ڈی اے میں کیوں شامل ہوئے۔ کیا انہیں ای ڈی کا ڈر ستا رہا تھا یا پارٹی ٹوٹنے کا۔ مہا راشٹر میں شیو سنا اور این سی پی کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہوئے دیکھا اور ٹوٹے ہوئے گروپ کو اصل پارٹی بتے ہوئے بھی۔ بہار میں لوک جن شکتی پارٹی کا حشر ان کے سامنے تھا۔ کیا انہیں جے ڈی یو میں ٹوٹ کے خطرے کا احساس ہو رہا تھا یا پھر یہ ان کی انتخابی حکمت عملی ہے؟ حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ "مر جائیں گے، مگر مہا گٹھ بندھن کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔” ان کے ساتھ کام کر چکے پرشانت کشور نے پشین گوئی کی تھی کہ نتیش کمار لوک سبھا الیکشن سے پہلے این ڈی اے کا حصہ بن جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی انہیں ساتھ لینے پر کیوں مجبور ہوئی جبکہ نریندر مودی، جے پی نڈا سمیت پارٹی کے دوسرے لیڈران نتیش کمار پر طنز کسں چکے ہیں۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے تو یہاں تک کہا تھا کہ "نتیش کمار کے لئے واپسی کے سارے راستے مسدود ہو چکے ہیں۔” سمراٹ چودھری جو اب نائب وزیر اعلیٰ ہیں نے عہد کیا تھا کہ جب تک وہ نتیش کمار کی سرکار نہیں گرا دیں گے تب تک پگڑی نہیں کھولیں گے۔ نتیش کی سیاست اور انتخابی ٹریک ریکارڈ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ فائدے کا سودا کرتے رہے ہیں۔ 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں جے ڈی یو، کانگریس 2 – 2 سیٹوں، آر جے ڈی 4 اور بی جے پی 22 سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ انہوں نے 2015 کا اسمبلی الیکشن بی جے پی سے رشتہ توڑ کر آر جے ڈی، کانگریس، این سی پی کے ساتھ مل کر لڑا اور مہا گٹھ بندھن کی سرکار بنائی تھی۔
2015 کے اسمبلی الیکشن میں جے ڈی یو کو 71 آر جے ڈی کو 80 اور بی جے پی کو 53 سیٹیں ملی تھیں۔ 2017 میں نتیش کمار نے آر جے ڈی کا ساتھ چھوڑ کر این ڈی اے کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ لیکن 2019 کا لوک سبھا الیکشن انہوں نے بی جے پی کے ساتھ مل کر لڑا اور 16 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ مگر 2020 کے اسمبلی الیکشن میں جے ڈی یو 43 سیٹوں پر سمٹ گئی جبکہ بی جے پی 74 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ واضح رہے کہ 2014 میں جے ڈی یو کے پاس اسمبلی میں 120 سیٹیں تھیں۔ جے ڈی یو بی جے پی نے مل کر حکومت بنائی لیکن 2022 میں نتیش کمار خیمہ بدل کر پھر آر جے ڈی کے ساتھ آ گئے۔ اب این ڈی اے کے ساتھ جا کر کیا وہ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ شاید انہیں احساس ہوا ہوگا کہ 2024 میں بی جے پی پھر اقتدار میں آسکتی ہے۔ اسے روکنے یا اس کی سیٹیں کم کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ اسی احساس نے انہیں جیتنے والے کے ساتھ کھڑا کر دیا ہے۔
سینئر صحافی انل سنہا نے نتیش کمار کے این ڈی اے کے ساتھ جانے کو تاریخی غلطی بتایا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا اندازہ ہے کہ بی جے پی 2024 کے الیکشن میں 30 – 235 کا آنکڑا بھی پار نہیں کر پا رہی ہے۔ بہار میں اسے اپنے دم پر کامیابی نہیں مل پا رہی ہے اسی لئے اسے نتیش کمار کی ضرورت ہے۔ دراصل برسراقتدار جماعت راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کو مل رہی عوامی حمایت، اس میں اٹھائے جا رہے بنیادی سوال اور انڈیا اتحاد کے ساتھیوں کی زمینی پکڑ سے گھبرا گئی ہے۔ اس نے پہلے شیو سینا کو توڑ کر مہاراشٹر کی حکومت گرائی، پھر این سی پی سے اجیت پوار کو اپنے ساتھ ملا لیا اور شیو سینا کی ہی طرح انتخابی کمیشن نے اجیت گروپ کو ہی اصل این سی پی کا درجہ دیا ہے۔ مگر اس سے ادھو ٹھاکرے اور شرد پوار کا حوصلہ نہیں ٹوٹا۔ وہ اب بھی وہاں بی جے پی کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی لئے روہت پوار اور ادتیہ ٹھاکرے ای ڈی کے نشانہ پر ہیں۔ حالانکہ ادھو ٹھاکرے نے ایک ریلی کے دوران کہا ہے کہ ہم مودی جی کے دشمن نہیں ہیں۔ ہمارے اور بی جے پی کے رشتے پرانے ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ وہ بی جے پی سے اپنے رشتے سدھارنا چاہتے ہیں۔ ای ڈی کے ذریعہ ہیمنت سرین کو گرفتار کراکر جھارکھنڈ کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔ بنگال میں ممتا بنرجی کے بھتیجے ابھسیک بنرجی کو ای ڈی گھیرنے میں لگی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے منیش سسودیا، سنجے سنگھ جیل میں ہیں۔ اروند کجریوال کو ای ڈی پانچ سمن بھیج چکی ہے۔ تلنگانہ اور آندھرا کے وزیر اعلیٰ بھی ای ڈی کے رڈار پر ہیں۔ بی جے پی اپوزیشن لیڈران کو ڈرانے یا ساتھ ملانے کے منصوبہ پر کام کر رہی ہے تاکہ وہ 2024 کا الیکشن جیت سکے۔
بی جے پی انڈیا اتحاد کو کمزور کرنے کے ساتھ زور شور سے لوک سبھا انتخاب کی تیاری میں لگی ہوئی ہے۔ اس نے اترپردیش کے بلند شہر سے اپنی انتخابی مہم کا بگل بجا دیا ہے۔ 25 جنوری کو لوک سبھا انتخاب کا تھیم سانگ جاری کیا ہے۔ اس میں رام مندر کا ذکر کیا گیا ہے۔ مندر کے افتتاح کو بڑی کامیابی بتایا جا رہا ہے۔ وہیں دوسری طرف آسام انتظامیہ لاکھ کوششوں کے باوجود کانگریسیوں کو ڈرا نہیں پایا۔ یہاں راہل گاندھی نے 8 دن گزارے 17 اضلاع میں گئے اور 855 کلو میٹر کا سفر طے کیا۔ ہر بڑھتے قدم کے ساتھ انہیں پیچھلے قدم سے زیادہ لوگ ملے۔ وہ کامیابی کے ساتھ مغربی بنگال پھر بہار پہنچے۔ بہار کی سبھا میں کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ ایک ایک کو نوٹس دیا جا رہا ہے۔ ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے کہ اگر دوستی نہیں چھوڑیں گے تو ہم دیکھ لیں گے۔ "ڈر کے کوئی دوستی چھوڑ رہا ہے۔ کوئی پارٹی چھوڑ رہا ہے، کوئی خیمہ بدل رہا ہے، کوئی گٹھ بندھن چھوڑ رہاہے۔
ارے اتنے ڈرپوک لوگ اگر رہے تو کیا یہ ملک بچے گا، کیا آئین بچے گا؟ کیایہ ڈیموکریسی بچے گی؟ اس لئے آخری موقع ہے ووٹ دینے کا اس کے بعد کوئی ووٹ نہیں دے گا”۔ یہ تو آنے والا وقت طے کرے گا کہ ملک میں جمہوریت رہے گی یا نہیں؟ اس وقت سوال یہ ہے کہ 2024 کے بعد اپوزیشن جماعتیں کس حالت میں ہوں گی۔ امکان ہے کہ پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے فوراً بعد عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہو جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انڈیا اتحاد اس الیکشن کو لے کر کتنی سنجیدگی دکھاتا ہے۔ اور عوام کو ساتھ لانے کے لئے سوالوں کو انتخاب کا مدعا بناتا ہے۔ عوام اسی کے ساتھ جائیں گے جو انہیں اور ملک کو بہتر راہ پر لے جانے کا یقین دلائے گا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا