ناول یا افسا نے،نے داستان سے کیا حاصل کیا ہے اس پر غور کرنا چاہئے:عارف نقوی

0
0
داستانوں میں جو زبان اور ماحول ہے وہ ہمیں متاثر کرتی ہے۔پروفیسر ریشما پروین
شعبہئ اردو،سی سی ایس یو میں ”داستان کے اردو ناول اور افسانے پر اثرات“ موضوع پرآن لائن پروگرام کا انعقاد
میرٹھ
”ناول یا افسا نے،نے داستان سے کیا حاصل کیا ہے اس پر غور کرنا چاہئے۔ اب داستان کیسے لکھی جائے یہ طے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے اصو لوں کو داستانوں پر نہیں تھوپ سکتے۔ موجودہ داستان اور سوسال قبل کی داستان میں فرق ہے۔ آج کے زمانے میں داستان کہنا مشکل ہے اس پر بھی غور کرنا چاہئے۔ یہ الفاظ تھے معروف ادیب و شاعر جرمنی سے عارف نقوی کے جو آیو سا اور شعبہئ اردو کے زیر اہتمام منعقد ”داستان کے اردو ناول اور افسانے پر اثرات“ موضوع پراپنی صدارتی تقریر میں آن لائن ادا کررہے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ آج کے فکشن نگاروں کے لیے داستانوں کا مطالعہ انتہا ئی لازمی ہے۔ داستان بیان کا فن ہے۔ داستان جتنی طویل ہوگی اتنی ہی دلچسپ ہوگی۔ داستان قوت متخیلہ کا فن ہے۔
  اس سے قبل پرو گرام کا آغاز سعید احمد سہارنپوری نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔بعد ازاں ایم۔اے سال دوم کی طالبہ فرحت اختر نے ہدیہ نعت پیش کیا۔اس ادب نما پروگرام کی سرپرستی معروف ناقد و افسانہ نگار اور صدر شعبہئ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری اور صدارت کے فرائض معروف ادیب عارف نقوی، جرمنی نے انجام دیے۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے ایم جی ایم کالج، سنبھل کے سابق پرنسپل اور ممتاز ناقدپروفیسر عابد حسین حیدری آن لائن شریک ہوئے۔ مقالہ نگار کے بطور دائم انصاری، کولکاتا نے شرکت کی۔ مقرر کی حیثیت سے لکھنؤ سے آیوسا کی صدر پروفیسر ریشما پروین اور معروف ناول نگار شبیر احمد نے شرکت کی۔استقبالیہ کلمات سیدہ مریم الٰہی،نظامت ڈاکٹر ارشاد سیانوی اور شکریے کی رسم ایم۔اے سال دوم کی نزہت اختر نے انجام دی۔
معروف ناقد و افسانہ نگار اور صدر شعبہئ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا۔ داستان سننا سنانا انسان کی فطری جبلت ہے۔ آج کے بہت سے فکشن نگاروں کی تخلیقات میں داستان کے اثرات ملتے ہیں۔جہاں قدیم زمانے میں داستانوں نے اپنے عہد کی تہذیب کو منفرد انداز میں پیش کیا وہیں آج بھی ناولوں، افسانوں کی صورت میں داستان کا ارتقا جا ری ہے۔
پروفیسر عا بد حسین حیدری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کے افسانے،نے داستان کے اثرات کو قبول کیا ہے۔ انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر کے ناولوں اور افسانوں نے یہ ثابت بھی کیا۔داستانی اسلوب سے ان کے ناول اور افسانوں میں انفرادیت ملتی ہے۔ مولانا محمد علی جو ہر، انتظار حسین، عشرت نقوی، آفتاب احمد، سید سجاد حیدر یلدرم، خواجہ نذیر اور فراق وغیرہ نے اپنی تخلیقات میں خوب داستانوی رنگ پیش کیے ہیں۔
پروفیسر ریشما پروین نے کہا کہ طارق چھتاری، شمس الرحمن فاروقی وغیرہ کی تخلیقات میں داستا نی اثرات موجود ہیں۔ ہم ادب پڑھتے ہیں تو اس میں کہیں نہ کہیں داستان موجود ہوتی ہے۔ ان داستانوں میں جو زبان اور ماحول ہے وہ ہمیں متاثر کرتی ہے۔ دائم انصا ری نے اپنا جو مقالہ پڑھا ہے وہ بہت خوب ہے۔کم عمری کے با وجود اتنا پر مغز مقالہ لکھنا بڑی بات ہے۔اس کے لیے مبارک باد۔
شبیر احمد نے کہا کہ کسی قصہ کو بیان کرنا آسان کام نہیں ہوتا،داستان میں ریلٹی داستان کو صحیح داستان بناتی ہے۔ داستان میں اصلیت مقدم ہو تی ہے۔ اصلیت آگ کے دریا میں نہیں بلکہ ہمیں بند گوشوں سے الگ ہو کر بات کرنا چا ہئے۔ افسانے میں داستانوی رنگ کی گنجائش کم ہوتی ہے لیکن ناول میں بہت زیادہ ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ داستان کے عناصر کون کون سے ہیں اور ان کا کتنا استعمال ہوا ہے۔
اس موقع پر ادب کی معروف شخصیت نور جمشید پوری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس مو قع پرڈاکٹرآصف علی ڈاکٹر شاداب علیم، ڈاکٹر الکا وششٹھ،محمدشمشاد،فیضان ظفر ا   ور دیگر طلبہ و طالبات موجود رہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا