نامور شاعر،مصنف پروفیسر رحمان راہی کا انتقال

0
0

جموںو کشمیر کے سیاسی سماجی اور ادبی حلقوں کا اظہار دکھ
کے این ایس
سری نگر؍؍کشمیر کے معروف شاعر اور گیان پیتھ ایوارڑ یافتہ پروفیسر رحمان راہی اتوار کی دیر شام سرینگر میں انتقال کر گئے۔وہ98برس کے تھے ۔اس دوران مرحوم کی وفات کے حوالے سے خبر منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی نہ صرف جموںو کشمیر بلکہ ملکی سطح کے سیاسی سماجی اور ادابی حلقوں نے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے مرحوم کے نماز جنازے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ہے ۔کشمیر نیوز سروس ( کے این ایس )کے مطابق کشمیری زبان اور شاعری کی ترقی اور فروغ میں بہت ہی عظم کردار ادا کرنے والے راہی نے تقریباًایک درجن کتابیںاور ترجمے اور تصنیف کئے ہیں۔اور سینکڑوں طلباء اور سکالرس کی انہوں نے رہنمائی کی ہے ۔زبان کی ذخدمت کے لئے انہوں متعدد اعلیٰ ایواڑ حاصل کئے ہیں۔ایک معروف اخبار میں شائر رپورٹ کے مطابق انہوں نے اپنے کرئیر کا آغاز1948ء میں پی ڈبلیوں ڈی کلرک کے طور پر کیا ہے ۔جہاں بعد میں وہ اخبار سے وابستہ ہوئے انہوں 1952ء میں فارسی میں ایم اے کیا،جس کے بعد انہوں نے انگریزی میں پی جی کیا ہے ۔مرحوم کے پسمان گان میں بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔اہلیہ کا انتقال پہلے ہی ہوچکا ہے۔مرحوم شاعر کے درجنوں شعری مجموعے منظر عام پر آئے ہیں جنہیں ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔مرحوم کو سال 2007 میں سال2004 کے ملک کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ سے سر فراز کیا گیا جبکہ انہیں سال 1961میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور سال2000میں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔پروفیسر رحمان راہی گیان پیٹھ ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے کشمیری ہیں۔ دریں اثنا جموں وکشمیر کی جملہ ادبی و سجماجی انجمنوں نے ان کے انتقال پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے موصوف شاعر کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی وادی کے ادابی حلقوں کے افق پر مایوسی اور ماتم کے گہرے بادل سایہ فگن ہوگئے۔اس دوران نہ صرف جموںو کشمیر بلکہ ملکی سطح پر بھی علمی ادبی سیاسی و سماجی حلقوں نے شدید دکھ اور ادفسوس کا ظہار کیا ہے ۔ادھر مرحوم کے شاگردوں نے بھی سوشل میڈیا پر دکھ اور رنج کا ظہار کر کے مرحوم کے حق میںدعاء مغفرت جبکہ سوگواراں کے لئے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا