میں دیکھتا ہوں تم اور تمہاری قوم صریح گمراہی میں ہے

0
0

۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
سورہ النعام،آیت نمبر 74 میں ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا۔ترجمہ(اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا:کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟بلاشبہ میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کْھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں)۔
ابراہیم علیہ السلام کے والد یا چچا آزر اور ان کی قوم کی سب سے بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ اپنی ہی ہاتھوں گھڑے ہویے بتوں کو معبود بناکر ان کی پرستش کرتے تھے۔”کیا تم پوجتے ہو ان چیزوں کو جن کو خود اپنے ہی ہاتھوں گھڑتے ہو ’’(صافات:95)۔
بتوں کے علاوہ وہ لوگ فلکیاتی اجسام مثلاً سورج،چاند اور ستاروں کی بھی پرستش کرتے تھے،اس طرح وہ لوگ دوہرے شرک میں مبتلا تھے اور یہی ابراہیم علیہ السلام کی قوم کی بڑی گمراہی تھی۔قرآن مجید نے قوم ابراہیم کے کسی اور خاص گمراہی کا ذکر بیان نہیں فرمایا۔اس آیت سے یہ بات واضح ہوگء کہ جب انبیاء علیہم السلام کی ان کی قوموں میں بعثت ہوتی ہے تو انبیاء کرام کی نگاہیں ان کے قوموں کے سرگرمیوں پرہوتی ہیں،وہ قوم کے اندر رہ کر قریب سے لوگوں کی حرکتوں پر نظر رکھتے ہیں،وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان کی قوم کن کن اخلاقی خرابیوں میں مبتلا ہیں اور پھر انہیں ان کو ان خرابیوں سے آگاہ کرتے ہیں،اس کے نقصان بتاتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان خرابیوں سے رب العالمین ناراض ہوتا ہے اور پھر اپنی قوم کو ان سے بچانے کی سعی کرتے ہیں۔ان کے باطل اور فاسد عقائد کی تصحیح کے لییانہیں دلائل وبراہین پیش کرتے ہیں تاکہ وہ صحیح راستے پر آ جائے۔اس جدوجہد میں انبیائ￿ علیہم السلام کو اپنے ہی قوم کے لوگوں سے دل آزار باتیں بھی سننی پڑتی ہے،انہیں ستایا بھی جاتا ہے اوران کو انہیں کے وطن سے نکالنے کی دھمکی بھی دی جاتی ہے اور بالاخر انہیں ہجرت بھی کرنی پڑتی ہے۔
یہ وہ قیمت ہے جو انبیاء کرام کو اپنے قوم کے لوگوں کو گمراہی کے اندھیرے سے نکال کر ہدایت کی روشنی کے طرف لے جانے میں چکانی پڑتی ہے،اور دور حاضر میں بھی جو صحیح و سالم شریعتہ اسلامیہ کی تعلیم دے گا اسے بھی دنیاوی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
اللہ تعالی نے جتنے بھی رسولوں کو ان کے قوموں میں بھیجا تمام اقوام کے اندر ایک مشترکہ عقائد کی خرابی یہی تھی کہ وہ لوگ اللہ تعالی کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کرتے تھے۔شرک ہی انکا دین تھا۔وہ اللہ تعالی کو خالق،مالک اور رازق تسلیم تو کرتے تھے لیکن وہ دوسرے معبودوں کی بھی پرستش کرتے تھے۔
آج بھی ہم باطنی شرک میں مبتلا ہیں۔
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم بندگی کرو اللہ کی،کوئی نہیں تمہارا معبود اس کے سوا، یہی بات ہود علیہ السلام نے اپنی قوم عاد سے اور صالح علیہ السلام نے اپنی قوم ثمود سے کہی کہ اے میری قوم بندگی کرو اللہ کی کوئی نہیں تمہارا معبودسوا اس کے۔
قوم نوح کی تاریخ کے مطالعہ سے ایسامعلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک زراعتی قوم تھی۔کاشت کاری ہی اس قوم کا پیشہ تھا۔اس لیے اس قوم کے اندر شرک کے علاوہ اور کوئی گمراہی نہیں تھی(سور العراف، آیت نمبر 59)۔
لیکن جب ہم مدین کے لوگوں کیاحوال کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم بھی قوم نوح،قوم عاد اور قوم ثمود کی طرح شرک کا ارتکاب کرتی تھی جیسا کہ پیغمبر شعیب علیہ السلام کی دعوت سے واضح ہے۔”اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا،اس نے دعوت دی،اے میرے ہم قوموں اللہ ہی کی بندگی کرو،اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں”-(سور العراف ایت نمبر 85)۔
اہل مدین ایک تجارتی قوم تھی۔تجارت انکا پیشہ تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اہل مدین کھیتی باڑی نہیں کرتے تھے۔وہ تجارت انہوں چیزوں کا کرتے تھے جو زرعی زمینوں سے پیدا ہوتی تھی،جسے ہم آج کی اصطلاح میں Cash Crops کہتے ہیں۔تجارت کی وجہ سے ان کے اندر عقائدی خرابیوں کے ساتھ ساتھ وہ برائیاں بھی پیدا ہوگئیں جو تجارت پیشہ قوموں میں پیدا ہوجایا کرتی ہیں۔یہ لوگ اپنی تجارت دیانت داری اور ایمانداری سے نہیں کرتے تھے۔
اسی لیے پیغمبر شعیب علیہ السلام نے جہاں ایک طرف اس قوم کو توحید کی دعوت دی اور شرک سے منع کیا تو دوسری طرف انہیں ایمانداری سے تجارت کرنے کی نصیحت بھی کی۔ان کی معیشت میں جو اخلاقی خرابیاں پیدا ہوگء تھیں ان سے ان کو روکا اور کاروبار میں دیانت اور راست بازی کی تلقین کی۔”ناپ تول پوری کرو، لوگوں کی چیزوں میں کوئی کمی نہ کرو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ برپا کرو،یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔(سور العراف ایت نمبر 85)۔
علاوہ ازیں اہل مدین میں سے بعض موالی اور سرکش قسم کے نوجوان راستوں اور چوراہوں پر بیٹھ کر شرارت کرتے اور حضرت شعیب کے ساتھیوں کو ان کے ایمان لانے کے باعث ڈراتے اور دھماکاتے کہ وہ حضرت شعیب کا ساتھ اور ایمان کی راہ چھوڑ کر پھر ان کے طریقہ پر آ جائے۔بعض مفسرین نے یہ بھی فرمایا کہ یہ بدمعاش لوگ مسافروں کو لوٹا بھی کرتے تھے۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے ان لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کیا۔
اب تک جن رسولوں کی دعوت کا ذکر ہوا ہے ان میں سے ہر ایک کی دعوت کا آغاز توحید سے ہوا ہے لیکن جب ہم حضرت لوط علیہ السلام اور انکی قوم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام نے توحید کی دعوت سے آغاز کرنے کی بجائے سب سے پہلے قوم کی ایسی نمایاں اخلاقی خرابی کو موضوع بحث بنایا ہے جسے ہم آج کی اصطلاح میں ہم جنس پرستی اور انگریزی میں Homosexuality کہتے ہیں یعنی مرد عورت کو چھوڑ کر مرد سے اپنی جنسی پیاس بجھاتے تھے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے اندر شرک کی برائی موجود نہیں تھی۔شرک بحیثیت دین تمام اقوام میں مشترک تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم جنس پرستی قوم لوط میں ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی تھی اس لیے لوط علیہ السلام نے اس سنگین خرابی کو شرک پر ترجیح دیتے ہوئے سب سے پہلے اس خرابی کو معاشرہ سے ختم کرنے کی کوشش کی۔حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے اندر شرک و کفر کی برائی بھی موجود تھی اور دوسری تمام برائیاں بھی،جو شرک و کفر کے لوازم میں سے ہیں، موجود تھیں لیکن جن کی فطرت اتنی اوندھی ہوگئی ہو کہ مرد مردوں ہی کو شہوت رانی کا محل بنائے ہوئے ہوں ان کو تو سب سے پہلے اس غلاظت کی دلدل سے نکالنے کی ضرورت تھی،ان سے کوئی دوسری بات کرنے مرحلہ تو بہرحال اس کے بعد ہی آسکتا تھا۔
موسی علیہ السلام کی بعثت سرزمین مصر میں ہوء جہاں ایک ظالم اور جابر فرعون کی حکومت تھی۔وہ اپنے آپ کو فرعون اپنے درباریوں سے یہ بھی کہتا میں تمہارے لیے اپنے سوا کسی اور معبود کو نہیں جانتا(سور القصص، آیت نمبر 38)
اس طرح فرعون خود کے رب ہونے کا دعوے دار تھا اور لوگ فرعون کو اسی حیثیت سے اس کی بندگی بھی کرتے تھے۔وہ مصریوں کے سب سے بڑے دیوتا،سورج کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔اس کے اسٹیچو اور بت سارے مصر میں پوجے جاتے تھے۔جب کوئی بادشاہ رب ہونے کی حیثیت سے پوجا جاتا تو اسے انگریزی میں Emperor worship کہا جاتا ہے۔قدیم زمانے میں یہ گمراہی تقریباً دنیا کے تمام بادشاہوں میں موجود تھی۔ رومن شہنشاہ اور سکندر اعظم کو بھی اسکی قومیں پوجتے تھے۔ان کی بڑی بڑی مورتیاں مندروں میں نصب کی گئی تھیں اور لوگ وہاں جا کر ان کی عبادت کیا کرتے تھے۔غالباً اسی وجہ سے عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد غیر یہودی (Gentiles)جو رومن شہنشاہوں کی بندگی کرتے تھے جب عیسایئت مذہب کو قبول کیا تب ان لوگوں نے بھی عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت کرنا شروع کر دی،یہاں تک کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا درجہ دے دیا۔فرعون اور اس کے لشکر کو یہ بھی گمان تھا کہ ان کو ہماری طرف لوٹنا نہیں ہے یعنی وہ آخرت کے بھی منکر تھیتھے(سور القصص، آیت نمبر 39)۔
اس سرکشی اور استکبار کے علاوہ فرعون بنی اسرائیلیوں پر بڑا ظلم کرتا تھا۔وہ بنی اسرائیلیوں کو غلام بنا رکھا تھا۔وہ انکے بچوں کو قتل کر دیتا اور بچیوں کو لونڈی بنانے کے لیے زندہ رکھتا۔ایسے سرکش اور متکبر فرعون کو پیغمبر موسی علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہارے رب کا بھیجا ہوا رسول ہوں،بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دو اور ان کو مت ستاؤ۔
اپنے اس پیغام میں موسی علیہ السلام نے فرعون کی ربوبیت کو چیلنج کیا اور اس کے رب ہونے کی تردید کی اور کہا جو میرا رب ہے وہ تمہارا بھی رب ہے اور تو رب نہیں ہے،اس کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو بنی اسرائیل پرظلم کرنے سے منع کیا۔فرعون کا رب ہونے کا دعویٰ،اس کی قوم کا فرعون کو پوجنا اور لوگوں کو غلام بنانا اور ان پر ظلم و تشدد کرنا۔
یہ تمام چیزیں فرعون اور اس کی قوم کی گمراہیوں میں سے تھی،اور انہیں گمراہیوں کو موسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعوت کا موضوع بنایا۔اس طرح موسی علیہ السلام نے فرعون کی عقائد کی اصلاح اور بنی اسرائیل کو ظلم سے نجات دلانے کی دعوت دی۔
حضور اکرم کی بعثت جب مکہ مکرمہ میں ہوء تو اہل مکہ اللہ کے علاوہ بہت سارے معبودوں کی پرستش کرتے تھے۔وہ ان معبودوں کو اللہ کا سفارشی سمجھتے تھے۔شرک کی طرفداری میں یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ وہ اپنے آبا و اجداد کو اسی دین پر عمل کرتے دیکھا۔ دوبارہ زندہ اٹھا جانے کے منکر تھے۔شرک کے علاوہ عرب معاشرہ میں ہر قسم کی خرابی اور گمراہی وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا