۰۰۰
سید واصف اقبال گیلانی
۰۰۰
رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے نوازا جاتا ہے۔ اس مہینے میں روزہ رکھنے، نماز پڑھنے اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں کئی اہم اسباق بھی ملتے ہیں۔ یہ سبق ہماری زندگی کے ہر پہلو میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور ہمیں ایک بہتر انسان بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اگرچہ رمضان المبارک کی روحانی برکتوں سے فیض پانے کا اختتام قریب ہے، لیکن کیا ہم رمضان کی روشنی کو باقی ماندہ سال میں بھی قائم رکھ سکتے ہیں؟ کیسے ہم اس مہینے کے سیکھے گئے اسباق کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنا سکتے ہیں؟ رمضان المبارک ہمیں مثبت سوچ، حوصلہ، صبر، سخاوت، وقت کی اہمیت، نظم و ضبط اور تقویٰ جیسے اہم اسباق سکھاتا ہے۔
پہلا سبق ہے مثبت سوچ کا۔ رمضان ہمیں روزہ رکھوا کر صبر اور تحمل سکھاتا ہے، یہی صبر زندگی کے ہر امتحان میں کام آتا ہے۔ اس سے ہم کسی بھی منفی صورتحال کا مقابلہ مثبت انداز میں کر سکتے ہیں۔ روزہ رکھ کر ہم صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم بھوک اور پیاس جیسی جسمانی ضروریات کو اللہ کی رضا کے لیے پورا دن قابو میں رکھتے ہیں۔ یہ صبر ہمیں زندگی کے ہر امتحان میں کام آتا ہے۔ رمضان ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم کسی بھی منفی صورتحال کا مقابلہ مثبت انداز میں کریں۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں مثبت سوچ اپنانے کی واضح ہدایات دیتا ہے۔ سورلبقرۃ کی آیت نمبر 186 میں ارشاد ہے: (اور جب میرے بندے مجھ سے پوچھیں تو میں قریب ہی ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو چاہیے وہ میری طرف رجوع ہوں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔)
یہ آیت ہمیں یقین دلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بہت قریب ہے اور ہماری ہر دعا قبول کرنے والا ہے۔ جب ہم کسی مصیبت میں گِرفتار ہوتے ہیں یا کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے، تو ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے مثبت سوچ رکھنی چاہیے کہ اللہ ہمیں ضرور اس مشکل سے نکالے گا۔ اسی طرح ایک حدیث میں نبی اکرم ? نے فرمایا: (’’عقلمند وہ ہے جو جوابدہ ہو (اور برے کاموں سے پرہیز کرے) اور اچھے کام کرے تاکہ موت کے بعد اسے فائدہ پہنچے، اور بیوقوف۔ انسان وہ ہے جو اپنی خواہشات اور طمع کے تابع ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی باطل خواہشات کی تکمیل کا طالب ہو۔” [ترمذی: ریاض الصالحین 66])۔ یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ عقل مند وہ ہے جو ہر صورتحال میں اللہ کے مطابق رہتا ہے، یعنی اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مشکلات کا مقابلہ نہ کریں، لیکن یہ مقابلہ ہم مثبت سوچ کے ساتھ کریں اور اللہ کی مدد پر یقین رکھیں۔ رمضان المبارک ہمیں یہی سبق دیتا ہے۔ ہم روزہ رکھ کر اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ اپنا روزہ پورا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا اجر ضرور عطا فرمائے گا۔ یہی مثبت سوچ ہمیں سال بھر مشکلات کا مقابلہ کرنے اور زندگی میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
دوسرا سبق ہے حوصلہ اور برداشت کا۔ بھوک اور پیاس پر قابو پانے کی رمضان کی مشق ہمیں زندگی کی دیگر مشکلات کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی طاقت دیتی ہے۔ ہم غصے اور بے صبری پر قابو پا کر اپنے معاملات کو زیادہ بہتر طریقے سے نمٹا سکتے ہیں۔ روزہ رکھتے وقت ہم بھوک اور پیاس جیسی جسمانی ضروریات پر قابو پاتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی مشق ہے جو ہمیں زندگی کی دیگر مشکلات کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی طاقت دیتی ہے۔ ہم رمضان میں سیکھتے ہیں کہ غصے اور بے صبری جیسی منفی جذبات کوقابو کرکے اپنے معاملات کو زیادہ بہتر طریقے سے نمٹا سکتے ہیں۔
حوصلہ اور برداشت کی اہمیت کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر ملتا ہے۔ سور البقرۃ کی آیت نمبر 153 میں ارشاد ہے: (اور صبر کرو اور (دشمنوں کے مقابلے میں) جم کر رہو اور (اللہ کی نافرمانی سے) بچو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔) یہ آیت ہمیں ہر مشکل اور آزمائش میں صبر اور برداشت کی تلقین کرتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ جب ہم مشکلات کا مقابلہ حوصلے کے ساتھ کرتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی رضا کے لیے صبر کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور کامیابی عطا فرماتا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں نبی اکرم نے فرمایا: (مضبوط مسلمان کمزور مسلمان سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے۔ اور دونوں میں (ایمان کی وجہ سے) نیکی ہے۔ اس چیز کی کوشش کرو جو تمہارے لیے نفع بخش ہو اور اللہ سے مدد مانگو اور بے بس نہ ہو۔) اس حدیث میں نبی اکرم ? ہمیں بتا رہے ہیں کہ ایمان والا وہ ہے جو مضبوط اور حوصلہ مند ہے۔ وہ مشکلات کے سامنے گھٹنے نہیں دیتا بلکہ اللہ کی مدد سے ان کا مقابلہ کرتا ہے۔ رمضان المبارک میں ہم اسی حوصلے اور برداشت کی مشق کرتے ہیں۔ ہم بھوک اور پیاس پر قابو پاتے ہیں اور اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتے ہیں۔ یہی حوصلہ ہمیں سال بھر مشکلات کا مقابلہ کرنے اور زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔
تیسرا سبق ہے خود احتسابی کا۔ رمضان میں ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں، یہ عادت ہمیں سال بھر اپنے رویوں پر نظر رکھنے اور انہیں بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔ رمضان المبارک کی روحانی برکات سے فیض یابی کا اختتام قریب ہے، ہم اپنے روزوں، نمازوں، اور تلاوتِ قرآن کا جائزہ لیں کہ کہیں کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔ یہ عادتِ خود احتسابی ہمیں سال بھر اپنے اعمال کا جائزہ لینے اور انہیں بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے۔
قرآن مجید میں خود احتسابی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ سور آل عمران کی آیت نمبر 134 میں ارشاد ہے: (پس جو لوگ تم میں سے (اللہ کے عذاب) کو جانتے ہیں انہیں چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور (گناہوں کی) مغفرت طلب کریں اور (لوگوں کو) معاف کریں۔ کیا تم نہیں کر سکتے؟ کیا اللہ نیکی جاننے والا نہیں ہے؟) یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم خود بھی اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اپنی کوتاہیوں کے لیے اللہ سے بخش طلب کریں۔
اسی طرح ایک حدیث میں نبی اکرم نے فرمایا: (سمجھ دار وہ شخص ہے جو اپنا محاسبہ کرے اور اخرت کی بہتری کے لئے نیکیاں کرے اور عاجزوہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ تَعَالٰی سے اخرت کے اِنعام کی امید رکھے۔) ترمذی، کتاب صف القیام، باب: 25, 4/207، حدیث: 2467۔ اس حدیث میں نبی اکرم ہمیں خود محاسبے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہمارا حساب لیں گے، اس سے پہلے کہ وہ دن آئے، ہمیں خود اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی کوتاہیوں کو درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رمضان المبارک میں ہم روزہ رکھ کر اور عبادت میں مشغول ہو کر خود کو اللہ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا خود احتساب ہے، ہم اپنی کمزوریوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو بہتر بنانے کا عہد کرتے ہیں۔ یہ عادتِ خود احتسابی سال بھر ہمارے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس سے ہم ایک بہتر انسان اور ایک سچا مسلمان بن سکتے ہیں۔
چوتھا سبق ہے سخاوت کا۔ رمضان المبارک صدقہ و خیرات کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں غرباء اور مسکینوں کی مدد کا جذبہ ہمیں سال بھر ان کی خدمت اور معاونیت کا جذبہ دلاتا ہے۔ رمضان المبارک صدقہ و خیرات کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں غرباء ، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا ثواب کا باعث بنتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی نعمتوں کا دوسروں کے ساتھ اشتراک کریں اور ان کی غم خواری کریں۔ سخاوت کی اہمیت کا ذکر نہ صرف قرآن مجید میں بلکہ احادیث میں بھی بار بار ملتا ہے۔
سور البقرۃ کی آیت نمبر 177 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (اور جو تم نیک خرچ کرتے ہو تو وہ تمہارے ہی پاس پلٹ کر آتا ہے اور تم ہی بہتر مسلمان ہو، بشرطیکہ تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور جو نیک کام تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے، اور (یہودیوں کو بھی بتاؤ کہ) وہ لوگ نیکی کا حکم دیتے تھے اور برائی سے روکتے تھے اور نیکیوں میں آگے بڑھتے تھے، اور یہی نیک لوگوں کے کاموں میں سے ہے۔) اس آیت میں اللہ تعالیٰ ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم جو بھی نیک کام کرتے ہیں، اس کا اجر ہمیں ضرور ملتا ہے۔ اور سخاوت ان نیک کاموں میں سے ایک ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں نبی اکرم نے فرمایا: (سب سے بہترین صدقہ اپنے رشتے داروں پر کیا جانے والا صدقہ ہے)۔ ہم اپنی سخاوت کو صرف رشتے داروں تک محدود رکھیں، بلکہ ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ رمضان المبارک میں ہم غرباء ، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کر کے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہمیں ایک عادت سکھاتا ہے کہ ہم سال بھر بھی سخاوت کا مظاہرہ کریں۔ اپنی مالی وسعت کے مطابق کسی کی مدد کرنا، کسی بھوکے کا پیٹ بھرنا، یا کسی غمزدہ کا دل دکھانا ایک عظیم نیکی ہے۔ یہ سخاوت ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب کا باعث بنتی ہے اور دنیا و آخرت میں عزت و سربلندی عطا کرتی ہے۔
پانچواں سبق ہے وقت کی اہمیت کا۔ رمضان میں ہم عبادت کے لیے زیادہ وقت نکالتے ہیں۔ یہ ہمیں سال بھر اپنے روز مرہ کے معمولات میں بھی اللہ کی عبادت کے لیے وقت نکالنے کی ترغیب دیتا ہے۔ رمضان المبارک کے مقدس ایام میں ہم اپنی عبادت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ہم سحری و افطاری کے اوقات کا خیال رکھتے ہیں، تراویح کی نماز با جماعت ادا کرتے ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ یہ رمضان کی ایک خاص خوبی ہے جو ہمیں اپنی زندگی میں بھی وقت کی اہمیت کا شعور دیتی ہے۔
قرآن مجید میں وقت کی اہمیت کا ذکر کئی مقامات پر ملتا ہے۔ سور والعصر کی پوری سورت ہی اس بات کی گواہ ہے کہ انسان واضح نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے نیک اعمال کیے اور آپس میں حق اور صبر کی تلقین کی۔
اس سورت کی تفسیر میں مفسرین بتاتے ہیں کہ یہاں ’’عصر‘‘ سے مراد انسان کی عمر یا اسے دیا گیا وقت ہے۔