۰۰۰
نگینہ ناز منصور ساکھرکر
نوی ممبئی ـ9769600126
۰۰۰
دلاور ذرا باہر اؤ "! امی نے آواز لگائی
جی امّی ابھی آیا! کہہ کے دلاور دوڑ کے امّی کے پاس آیا۔۔۔۔ جی امّی کیا بات ہے ذرا آؤ تو بازار ہو آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ جی امّی اتنا کہ کے دلاور امّی کے ساتھ گھر سے باہر چلایاایا۔۔۔۔۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے جلدی جلدی بازار کی طرف بڑھی شام کو کچھ "مہمان آرہے ہیں تھوڑا سودا لے لوں” امّی منہ ہی منہ میں بڑبڑائی شاید دلاور سے ہی کہہ رہی تھی بازار نزدیک ہی تھا مگرامّی اکثر اسے ساتھ لے جاتیں آتے ہوئے راستے میں ترنم آنٹی نے آواز لگائی توہم رک گئے ارے بھابھی دو منٹ اندر آجاؤ ہمیشہ مصروف ہی رہتی ہو ! آپ کبھی ہمارے غریب خانے پر بھی تشریف لائیں ہمیں خوشی ہوگی اتنا کی کے انہوں نے امّی کا ہاتھ پکڑا اور اندر لے گئ دلاور بھی پیچھے پیچھےتھیلا ہاتوں میں لیےگیٹ کے اندر داخل ہوا۔
. . . . چھوٹے سے گیٹ کے اندر دیوار سے لگی مہندی کی باڑ۔۔۔۔ باڑ کے قریب گل چھڑی کے پھولوں کی لمبی لمبی کیاریاں، ایک کونے میں مولسری اور گلاب کے پودے تو دوسری طرف موگرے کا منڈوا چاروں طرف پھول ہی پھول اور خوشبو ہی خوشبو اندر آتے ہی ایسا لگا مانو کسی فلم کا سیٹ ہو جہاں کشمیر کا کوئی باغیچہ بنایا گیا ہو۔۔۔۔ دلاور کو تو پھوھوکی شادی یاد آگئی۔۔۔۔۔ جب وہ دلہن بنی تھی مہندی اور سہر ےکی خوشبو سے گھر ایسے ہی مہک رہا تھا
اپ نے چھوٹی سی جگہ میں بڑا خوبصورت گارڈن بنا لیا ہے ترنم بھابھی”! امی نے ستائشی نظر ان پر ڈالی۔۔۔۔ وہ مسکرا کر بولی یہ سب میری بیٹی نادرہ کے ہاتھوں کا جادو ہے بھابھی اسی کو بڑا شوق ہے گارڈنیگ کا ۔۔۔
اوہ! بہت اچھے امّی نے طاریف میں سرہلایاتبھی نادرا نے سلام کرتے ہوئے دلاور کے ہاتھوں سے شاپنگ بیگ لیے اور ٹیبل پر رکھ دیے آرام سے بیٹھو دلاور بیگ بعد میں لے لینا وہ بھی امی کے ساتھ صوفے پربیٹھ گیا آنٹی اور امّی دونوں باتوں میں مصروف ہوگئی مگر دلاور کی نظریں گارڈن میں لگی تھی اس نے اتنا پیارا آنگن کسی کا نہ دیکھا تھا نادرا نے شربت کا گلاس سامنے رکھا تو امّی نے پوچھا کیا کرتی ہوں نادرا؟
جی بس ابھی بی اے پاس کیا ہے۔۔۔ اس نے دھیرے سے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔ تو آنٹی نےبھی پوچھ لیا ” دلاورکون سی کلاس میں ہیے؟
بڑے ہو گئے ہیں اور پیارے بھی لگنے لگے ہیں دلاور جھنپ سنا گیا جی ابھی ساتویں کلاس میں ہوں۔۔۔۔ اس نے جواب دیا
تھوڑی دیر میں وہ گھر واپس لوٹ آئے پر آتے ہوئے ا مہندی اورمولسری کی مہک اپنے اندر بسا لائے۔۔۔۔
کئی دن گزر گئے تھے اسکول آتے جاتے دلاور ایک نظر نادرہ باجی کے آنگن میں ڈال ہی دیتا کبھی باجی تو کبھی ان کی امّی نظر آتی آج دلار کا رزلٹ آیا تھا اور امی بڑی غصے میں تھی سارے مضامین میں فیل غصے میں دو تھپڑ بھی جڑدیے اکلوتے بیٹے کا نتیجہ دیکھ امّی کا غصہ ساتویے آسمان پر تھا شام کو ابو آئے توسارا گھر گرج اٹھا۔۔۔۔ ” آگے کی پڑھائی ابھی اور مشکل آنے والی ہے۔۔۔۔۔۔ صاحبزادے کے ابھی یہ حال ہیں تو آگے کیا ہوگا ابا نے لتاڑ لگائیں ۔۔۔۔ دلاور سہم کرکمرے میں بند ہوگئے
لاکھ سمجھنے کی کوشش کرتے کسی ٹیچر کا ایک لفظ ان کے پلے نہیں پڑتا وہ بھی کیا کرتے تھک کر جو آیا لکھ آئے تھے اس بار ابا نے امی سے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا” اگر سالانہ امتحان میں کامیاب نہ ہوئے تو ہوسٹل بھجوا دینگے”!!!!
امی کا لاڈلا ہاسٹل جائے وہ کب برداشت کرسکتی تھی زور و شور سے ٹیوشن ٹیچر کی تلاش شروع ہوئی باتوں باتوں میں ترنم آنٹی نے نادرا کے پاس بھیجو وہ پڑھا دیگی کہہ دیا امّی کی بانچھیں کھل گئی جھٹ کاندھے پر بیگ لٹکایا دلاور کا ہاتھ پکڑا اور پہنچ گئی نادرہ کےگھر ۔۔۔۔۔” اری بٹیا ! آج سے دلاور تمہارے حوالے۔۔۔۔ کچھ ایسا کرو کہ اس کا من پڑھائی میں لگ جائے ” ورنہ اگلے سال اس کے ابّو تو ہوسٹل میں ہی ڈلوادیگے
نادرہ نے دلاور کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی” ان کی فکر نہ کرے میں پوری کوشش کروں گی کہ دلاور اچھے نمبروں سے کامیاب ہوجائے”
اب روزانہ دلاور بستہ اٹھائے نادرا باجی کی گھر ٹھیک پانچ بجے پہنچ جاتے نادر اپنے گھر کے باہری حصے میں چٹائی بچھا کر اسے بڑی محنت سے پڑھاتی۔۔۔۔۔۔۔ دلاور کی مانو دلی مراد بر آئی تھی خوبصورت ماحول پھولوں کی خوشبو دماغ میں تروتازگی بھر دیتی وہ اسکول کی تھکان بھول جاتا دھیرے دھیرے دلاور کلاس میں سوالوں کے جواب دینے لگا تھا پڑھائی میں من لگ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ نادرہ باجی سے اسکی بننے لگی تھی وہ بہت پیار سے پڑھاتی ان کی میٹھی آواز اور دلنشیں انداز دلاور کو بہت پسند آنے لگا تھا ۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ کڑکتی گرمی کا موسم لو ہر طرف اپنی من مانی کر رہی تھی مگر نادرہ کے آنگن میں آتے ہی دلاور کے اندر سکون سا اتر آتا ۔۔۔۔۔گرمی کا احساس تو رہتا مگر اتنا نہیں آج صبح سے ہی گرمی عروج پر تھی شام ہوتے ہوتے وہ تھک سا گیا تھا امتحان ختم ہوگئے تھے امّی کے کہنے پر وہ نادر ہ باجی کی گھر کھیر لیکر پہنچا۔۔۔۔ آج امّی نے کھیر بنائی تھی۔۔۔۔ اندھیرا چھانے لگا تھا شاید موسم کے بدلنے کا اشارہ تھا دلاور نے آنٹی کے ہاتھ میں ڈبہ دیا اور باجی سے بات کرتے ہوئے واپس ہونے ہی والا تھا کہ بارش کی رم جھم شروع ہوگی۔۔۔۔۔ پہلی بارش اور سوندھی مٹی کی خوشبو اس میں ملی پھولوں کی مہک ۔۔۔۔۔۔ماحول رومانی ہوگیا تھا ۔۔۔۔تینوں باہر اتر آئے ۔۔۔۔۔۔۔ نادرہ نےدوپٹہ سر سے ہٹایا اور بارش کا مزہ لینے لگی دلاور نے باجی کو اس طرح کبھی نہیں دیکھا تھا لمبے گھنے خوبصورت بال کمر سے نیچے کی طرف آ رہے تھے دودھ سے ریشمی جسم پر پانی کی بوندیں رک نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔۔ بھیگی پلکوں میں خوشی کی چمک بجلی کو بھی ماند کر رہی تھی
۔ ۔ ۔ دلاور نے بادل کی گرج سے ڈر کر آنکھیں بند کر لیں پر نادرا نے پکڑ کر اسے بارش میں کھینچ لیا اس کے گرم ہاتھوں کو نادرہ کے بارش سے بھیگے تھنڈے ہاتھوں کا لمس گُدگُدا گیا۔۔۔۔۔ اندر ہی اندر شرما گیا وہ پر نادرا پر اس کا اثر نہیں تھا ا مسکراکر بارش کا مزہ لے رہی تھی بھیگتے ببھیگتے دلاور اپنے گھر واپس ہوئے کپڑے بدلے اور کمرے میں خود کو بند کر لیا ان کے ہاتھوں میں جیسے مقناطیسی کشش ابھر آئی تھی۔۔۔۔۔۔ دل میں گُدگُدی ہونے لگی تھی باجی کے ٹھنڈے ہاتھوں کا لمس انھیں مدہوش کر رہا تھا۔۔۔۔ وہ خود نہیں جانتے تھے کہ انہیں کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔
دن بیت گئے رزلٹ آگیا اچھے نمبروں سے ملی کامیابی نے دلاور کو ہاسٹل نا جانے دیا۔۔۔۔ اس سال پھر نادر ہ باجی کا وہ انگن کتابیں اور میٹھی اواز میں انکا سمجھانا دلاور کے لیے کسی جادوئی ماحول سا اثر کرجاتا اور وہ اس سحر میں کھو سے جاتے پڑھائی کرنا ان کا مقصد خاص ہوگیا تھا۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے قدرت کو دلاور کی یہ خوشی برداشت نہیں ہوئی اور نادرہ کی شادی کی بات چل نکلی صرف ایک ہی مہینے میں چٹ منگنی پٹ بیاہ ۔۔۔ دلاور کو مانو سانپ سونگھ گیا ہو ۔۔۔۔۔۔ شادی ہال میں دولہا بھائی کے ساتھ بیٹھی باجی پر یوں سی حسین لگ رہی تھی…. دولہا بھائی بھی اچھے ہی تھے مگر نہ جانے کیوں دلاور کو لگ رہا تھا جائیں اور انھیں ان کے پاس سے دھکا دے کر ہٹا دیں۔۔۔۔۔ لال رنگ کے کپڑوں میں بندیا لگاے باجی کی خوبصورتی اس کے آنکھوں میں بس گئی اس نے اتنی پیاری دلہن آج تک نہیں دیکھی تھی۔۔۔۔۔۔۔ باجی کیا گئ جیسے سارے جہاں کا سکون چلا گیا ۔۔۔۔۔۔ چپکے چپکے رو دھو کر دلاور میاں نے جیسے تیسے صبر کر لیا۔۔۔۔۔۔ ابھی نہم کے امتحان چل رہے تھے کے محلےمیں جیسے طوفان آگیا۔۔۔۔۔۔ دلاور کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا آج کل امّی بھی زیادہ گھر میں نہیں ملتی تھی۔۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ اج اتوار تھا دلاور نے اخر پوچھ ہی لیا کیا بات ہے امّی؟
آج کل آپ گھر میں نہیں ہوتی ہیں کہاں رہتی ہیں؟ امّی نے اداسی بھری آواز میں جواب دیا تمہاری نادرہ باجی آئی ہیں نا وہی رہتی ہوں
اچھا! دلاور کی آواز میں خوشی تھی تو آپ اتنی اداس کیوں ہیں ؟ یہ تو اچھی بات ہے
ہنم! ۔۔۔۔۔ امّی نے ہامی بھری۔۔۔۔۔ پر وہ جیسے لوٹی ہے اس سے سارے محلے میں اداسی ہیں امی نے تھکی ہوئی آواز میں جواب دیا……..
کیوں کیا ہوا؟ دلاور نے تیزی سے پوچھا۔۔۔۔
نادرہ کے شوہر ایکسیڈنٹ میں چل بسے اور سسرال والوں نے اسے گھر سے نکال دیا!!!
کیا؟ دلاور کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔
کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے اس میں باجی کی کیا غلطی؟ اس نے دکھ سے سوچا۔۔۔۔
امتیحان ختم ہوئے دسوی کی پڑھائی کا آغاز ہوگیا۔۔۔۔۔ باجی سے ملاقات نہ ہوئی۔۔۔۔۔ پھر ایک دن امّی نے کہا "دلاور کل سے تم نادرہ باجی کے پاس ٹیوشن پڑھنے جایا کرو۔۔۔۔۔ میں نے بات کر لی ہے۔
جی امّی ! دلاور اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے۔۔۔
باجی کو دیکھنے بات کرنے کا موقع پھر ملنے کی خوشی تو تھی ہی مگر ان کی غم کو سنبھالنے کی طاقت نہ تھی۔۔۔۔۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے نادرا کے گھر کے طرف بڑھا باہر سے ہی سلام کرکے وہ بیٹھ گے ۔۔۔۔۔۔ نادرہ باجی باہر آگئ کمزور کملہائے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اورکتاب پلٹنے لگی۔۔۔۔۔دلاور نے ہمت کرکے خیریت پوچھی۔۔۔۔۔ انہوں نے سر ہلا کر ایسے جواب دیا مانو خود نہیں جانتی کہ وہ ٹھیک بھی ہیں کہ نہیں۔۔۔۔
گارڈن کی پودے مرجھانے لگے تھے۔۔۔۔۔۔ اداسی نے ڈیرہ جما لیا تھا۔۔۔۔۔
آنکھوں پر آنسوں ہمیشہ ٹکے ہے ایسا لگتا
پھر دھیرے دھیرے وقت نےاپنا روپ بدلہ اور باجی نارمل ہونے لگی۔۔۔۔ دوستانہ بات چیت میں کبھی کبھی وہ اپنی بیتے یادوں کا درد بیان کرتی تو کبھی خوشی بھری یادوں کی باتیں کرکے مسکرانے لگتی ۔۔۔۔ امتحان سر پر تھے دلاور پڑھائی میں گم ہوگئے۔۔۔۔ پڑھائی ختم ہوئی تو نانی کے گھر چھٹیاں منانے چلے گئے۔۔۔۔
کئی دن سے باجی سے نہ بات نا ملاقات ہوئی تھی۔۔۔۔ آج رزلٹ آنے والا تھا تو اسکول کے باہر بھیڑ لگی تھی دلاور بڑی بےچینی سے ان لاین ریزلٹ کا انتظار کر رہے تھے خدا خدا کرکے رزلٹ آیا اور وہ حیران تھے کتنے اچھے مارکس کی امید بھی نہیں تھی 84% فیصدی پاکر وہ بڑے خوش تھے سیدھے باجی کے پاس جا پہنچے
باجی دیکھئے ہمارا رزلٹ! ہم پاس ہوگئے
ارے واہ! اتنا کہہ کر باجی نہیں انہیں اپنے قریب کھینچا اور ماتھے کو چوم لیا پھر شکر کھلائی۔۔۔۔ "ساری خوشی ایک طرف اور باجی کا ماتھا چومنا ایک طرف”!!!!!
دل میں میٹھے پانی کے جھرنے پھوٹ پڑے۔۔۔۔ لگا جیسے سارے جہاں کی خوشیاں مل گئی ہو
. . . . . کالج شروع ہوگئے تھے نیا ماحول خوش لباس لڑکیاں۔۔۔۔ اسٹائیل باز لڑکوں کی گروپ بندی۔۔۔۔۔ نادرہ سے ملاقات کا وقت ہی نہیں ہوتا سارے کالج میں مستی کا ماحول رہتا ایسے میں نادرا کم ہی یاد آتی۔۔۔۔۔ موسم بدلا اور بارشیں پھر اترائی ساری لڑکیاں اور لڑکے بارش کا مزہ لینے لگے مگر ان حسیناوں میں نادرہ باجی سا حسن کسی میں نظر نہ آیا۔۔۔۔ انکےتھنڈے ہاتھوں کا وہ لمس دلاور کے ہاتھوں میں پھر اتر آیا۔۔۔۔۔
” اُف! یہ کیسا احساس ہے۔۔۔
دلاور نے اپنی دھڑکنوں پر قابو کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔
گھر لوٹےاور اپنے کمرے میں بند ہوگئے کمبل میں گھس کر جسم میں ہونے والی اینٹھن کو کم کرنے کی ناکام کوشش کی۔۔۔۔ باجی سے اپنی عمر کا حساب کیا۔۔۔۔ اور اپنی غلط سوچ پر نادم ہوتے۔۔ ہوتے کب نیند کی آغوش میں چلے گئے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔
د ن۔ مہینے۔ اور سال بیتتے چلے گئے۔۔۔۔۔ دلاور اپنی پڑھائ میں مگن ہوگئے۔۔۔۔۔ کالج کا ماحول اب انہیں راس آنے لگا تھا۔۔۔۔
نادرا نے بھی ایک کالج میں لیکچرر کی جاب کرلی تھی۔۔۔۔ دوسری شادی کے لیے کئ رشتے آئے۔۔۔۔۔ مگر ناکام لوٹ گئے
دلاور پڑھائی ختم کرکے ایبراڈ چلے گئے وہاں جا کر بھی کبھی کبھی نادرا چپکے سے ان کے خوابوں میں چلی آتی مگر وہ خود ہی خود کو سنبھال لیتے۔۔۔۔۔
پورے دو سال بعد وہ واپس ہندوستان لوٹے تھے۔۔۔۔۔ امّی سے ابو سے مل کر ان کی قدم آپنے اپ نادرہ کی گھر کی طرف اٹھنے لگے۔۔۔
باہر ہی بیٹھی نادرا نے اسے آتا دیکھ کر مسکرا کر اس کا استقبال کیا وہ اب بھی ویسی ہی تھی پیاری سی گوری کھلی کھلی رنگت ۔۔۔ موتیوں سے دانت. ۔۔۔۔ بولتی تو پھول جھڑتے ان کی گھنی پلکیں گلابی گالوں پر جیسے سائہ کئے رہتی۔۔۔۔۔
دلاور کا دل اچھل کر باہر آنے کو تھا پر نادرا کا اندازہ اب کچھ بدل گیا تھا شاید اس لیے کی دلاور اب گھبرو جوان ہوگئے تھے۔۔۔۔۔ بچّے نہیں رہے تھے۔۔۔۔۔۔ تھوڑی بات چیت کے بعد وہ واپس لوٹ آئے۔۔۔
اب امّی ان کی شادی کیلئے لڑکیاں تلاشنے نگی مگر دلاور کی آنکھوں میں کوئی نہ ججتی اور اپنی خواہش ظاہر کرنے کی ہمت نہ تھی اخیر امّی کی پسند کے آگے ہار ماننی پڑی۔۔۔۔۔ اور پھر حسن بانو دلہن بن کر ان کے گھر آ گئی رسم و رواج ختم ہوئے تو دولہن کے گھونگھٹ سے حسنہ بانو کی حسین شکل نکل آئی۔۔۔۔۔ اپنے نام کی طرح حسین تھی وہ۔۔۔۔
پلنگ پر بیٹھنے دلاور نے دھیرے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔۔۔ اس کے ٹھنڈے پڑے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہی دماغ کی نسیں پھول گئی۔۔۔۔ ناک کی لویی پھڑکنے لگی اور نگاہوں میں نادرہ باجی اتر آئی۔۔۔۔۔۔ اف!!!!! آنکھوں سے گرم گرم آنسو نکل کر گالوں پر بہہ آئے۔۔۔۔۔۔۔ اور شرمائی حسن بانو کو سجی سجائی سیج پر چھوڑ کر دلاور چھت پر چلے آئے۔۔۔۔۔۔ حسن بانو کی خوبصورتی نادرہ کی معصومیت کے اگے پھیکی لگنے لگی ساری رات انتظار میں کاٹ کر پگ
پھیرو کے لیے حسنہ بانو اپنے گھر لوٹیں تو دلاور نے واپس لانے سے صاف انکارکر دیا۔۔۔۔۔
گھر میں سبھی لوگ ہکّا بکّا رہ گئے۔۔۔۔ دلاور کا یہ رخ تو کسی نے دیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔
لیکن کیوں؟ امی نے غصے سے پوچھا اور اباّ نے ڈانٹ کر مگردلاور نے جواب میں کچھ نہ کہا مگر حُسنہ کے گھر والے آگ بگولہ ہو اٹھے۔۔۔۔ محلّے کی جماعت بٹھائی گئی۔ ۔۔۔۔ابھی دلاور کا فیصلہ بدل ہی جاتا کہ حسنہ نے بڑی آہستگی سے اپنی بات رکھی ۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” اگر انہیں میرے ساتھ رہنا منظور نہیں تھا تو پہلے ہی نکاح نہیں کرتے مگر انہوں نے ایسا کیا۔۔!!
پر مجھے چھوا نہیں مجھے داغدار کر کے نہیں چھوڑا اس لئے میں خود ان سے اپنا رشتہ ختم کرتی ہوں دکھ تو بہت ہے پر شاید ان کی زندگی میں میرا رول بس اتنا ہی تھا ۔۔۔۔۔ جس دل میں میری عزت اور محبت نہیں اس دل میں مجھے بھی رہنا گوارا نہیں مگر اس میں میری عزت کے ساتھ ساتھ ابّو کی محنت کی کمائی داوْ پر لگ گئی یہ سارا خرچہ دگنا کر کے دیں اور اپنے گھر لوٹ جائیں”
۔ ۔ ۔ سارے کے سارا مجمع دم سادھے بیٹھا اس کی بات سن رہا تھا اور سبھی نے اس کی تائید کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلاور نے بھی چیک بُک منگوائی اور دگنی رقم کی ادائیگی ایک مشت کردی اور سر اٹھایے ایسے نکل گئےجیسے جنگ جیت لی ہو۔۔۔۔
وہ سیدھے نادرہ کے گھر جا پہنچے۔۔۔۔ نادرہ باجی اپنے لمبے گھنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی انہیں اس وقت اس طرح آتا دیکھ حیران ہوگئی ابھی وہ سیدھی کھڑی بھی نہیں ہو پائی تھی کہ دلاور جاکر انکے قدموں میں جُھک گئے۔ ۔۔
نادرہ باجی۔ ۔۔۔۔۔ نادرہ باجی ۔۔۔!!! وہ اتنا ہی کہتے رہے —
” ارے آگے بھی کچھ بولو گے؟” نادرہ اوراس کی امی حیران تھی۔۔۔
وہ !وہ! باجی” میں آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں
بن موسم بادل گرجے ، بجلی چمکی اور حیرانگی کا پہاڑ دونوں ماں بیٹی پر ٹوٹ پڑا۔۔۔۔۔۔
"یہ کیا بک رہے ہو”؟
کچھ ہوش بھی ہے تمہیں؟
نادرہ نے وہی کنگی اس کے پیٹھ پر جڑ دی ۔۔۔۔
ہاں میں سچ کہہ رہا ہوں…..
میں نے اپ کے علاوہ کبھی کسی کوسوچا ہی نہیں……
پاگل مت بنو دس سال بڑی ہوں تم سے۔۔۔
اور تم نے شادی کرلی ہے یہ پاگل پن بند کرو اور گھر لوٹ جاؤ۔۔۔۔
آنٹی نے بھی خوب دانٹ لگائیں اور دلاور کو گھر سے نکال باہر کر دیا۔۔۔۔
اب نادرہ۔۔۔۔دلاورکا جنون بن چُکی تھی۔۔۔
اس مہکتے آنگن کی مٹی اسے کھینچتی اور وہ دوڑے چلے جاتے۔۔، روزانہ اپنی محبت کی بھیک مانگتے ہیں۔۔۔۔۔
گھر میں بھی کہہ دیا کے نادیر کے علاوہ اور کسی کو بہو کے روپ میں نہ سوچا جائے ورنہ وہ ابراڈ چلے جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ کبھی نہ لوٹ کے آنے کے لئے
دو سال کے بعد لوٹے بیٹے کو امّی کسی بھی حال میں واپس جانے نہیں دینا چاہتی تھی ابّو بھی تھک گئے تھے بیٹے کا سہارا ٹوٹتے دیکھ ہاں میں ہاں ملادی ۔۔۔۔
اب رشتے کی بات چلانی ہی پڑیگی یہ سوچ کر امّی دو جوڑی کپڑے اور انگوٹھی لے کر نادرہ کے گھر جا پہنچی پر نادرہ نے حامی نہ بھری
” انٹی اپنی زندگی کے تلخ تجربے سے گزر کر کبھی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے میں نے۔۔۔ اوردلاورتو بہت چھوٹے ہیں آپ ان کے ہوش کی دوا کریں اور مجھے شرمندہ نہ کریں آئندہ آپ اس طرح کا کوئی بھی مشورہ لیکر نا ائیں۔ ۔ ” یہ کہہ کر نادرہ اندر چلی گئی
ادھر دلاور بیچینی سے امّی کا انتظار کر رہے تھے مگر ان کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی جب نادرہ کا فیصلہ سنا۔۔۔۔۔۔ قدموں میں جان نہ رہی اور لڑکھڑا کر وہیں صوفے پر گر گئے۔ ۔۔۔
نہ جانے کب تک جب ہوش آیا تو بستر پر تھے طبیعت نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔
کہیں جانا آنا بند کر دیا۔۔۔۔
بخار ہر دم رہتا کئی ماہ بیت گئے۔ ۔۔ بے ہوشی کے عالم میں بھی نادرہ باجی نادرہ باجی پکارے جا رہے تھے
امّی سے راہا نہ گیا تو سیدھے نادر ہ کے گھر جا پہنچی” نادرہ میراخالی دامن بھر دے ایک بار چل کر دلاور کو دیکھ لے ورنہ میرے گھر کا چراغ بجھ جائے گا” امّی کی التجا پر نادرہ ساتھ چل پڑی۔۔۔۔
اس کی نگاہوں میں بھولے بھالے دلاور کی بے تکی باتیں اور کانپتا جسم گھومنے لگا سارا وقت باجی باجی کرتا
اورآب یہ نیا شوشہ۔۔۔ ۔
گھر آ گیا تھا بہت سارے پڑوسی جمع تھے۔۔۔
یاالله ! نادرا گھبرا گئی۔ ۔ ۔ کہیں دلاور کو کچھ ہو تو نہیں گیا؟۔۔۔۔۔ وہ دوڑ کر اس کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔۔ لمبی لمبی سانسوں کے بیچ۔۔۔۔ وہ نادر ہ باجی ۔۔۔۔نادرہ باجی بولے جا رہا تھا آواز دھیمی تھی پر سمجھ آرہی تھی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ہنسے یا روئے ادھر باجی کہہ رہے ہو اور نکاح بھی کرنا چاہتے ہو۔۔۔۔ پاگل پن ہیے یا حد سے بڑھی دیوانگی۔۔۔۔ بخار میں تپتے دلاور کے گرم ہاتوں کو اپنے ٹھنڈے پڑے ہاتھوں میں لیکر نادرا نے ہلکے سے آواز دی
دلاور !دلاور!
دلاور کی سانسیں جیسے تھم گئی آواز بند ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ وہ پہلی بارش۔۔۔۔۔۔ بھیگے ٹھنڈے ہاتھوں کا وہ لمس۔۔۔۔ دلاور کے جسم کو شرابور کر گیا۔۔۔۔۔ وہی ہاتھ۔۔۔۔ وہی لمس اس کے اندر تک ٹھنڈک اترائی اور انکھوں سے بارش برس پڑی۔۔۔۔۔ اس نے نادرا کے ہاتھوں کو کس کے پکڑ لیا” باجی مجھے چھوڑ کر نہ جانا پلیز”
نادرہ اور سبھی ایک ساتھ ہنس پڑے۔۔۔۔۔ دیوانگی کا عالم کے اب بھی باجی کہہ رہےہو؟
کیا شادی کے بعد بھی باجی کہو گے ؟ امّی نے ہنس کے پوچھا۔۔۔
دونوں شرما گئے تھے۔۔۔ ۔ ۔
سالوں بیت گئے ہیں
وہ آنگن مہندی اور پھولوں کی مہک سے اب بھی مہکتا ہے۔۔۔۔۔
۰۰۰