مہاتما گاندھی: بھارت کے سنت

0
0

ڈاکٹر غضنفراقبال

پیارے بچو ! آپ مہاتما گاندھی سے اچھی طرح سے واقف ہیں۔ وہ سفید نگری کہے جانے والے گجرات کے مشہور شہر پوربندر میں 2/اکتوبر 1869 کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان ذات کے اعتبار سے بنیا خاندان تھا۔ ان کے والد کرم چند کی ایک دوکان تھی۔ کرم چند کے والد اور مہاتما گاندھی کے دادا اُتم چند گاندھی کے انتقال کے بعد کرم چند پوربندر ریاست کے دیوان بنائے گئے تھے۔ اس عہدے پر وہ تیس برس تک فائز تھے۔ کرم چند نے اپنے بیٹے کا نام موہن داس رکھا تھا۔ موہن داس کو گھر میں موہینا کہا جاتا اوروہ دنیا میں گاندھی جی کے نام سے مشہور ہوئے اور بابائے قوم کہلائے۔ گاندھی جی کی والدہ کا نام پتلی بائی تھا۔ پتلی بائی کرم چند عرف کابا گاندھی کی چوتھی بیوی تھیں۔ گاندھی جی اپنی ماں سے بہت متاثر تھے۔ وہ بڑے خلوص سے ہر کام کرتے تھے۔ برت اور عبادت کا رجحان رکھتے تھے۔ ان پر ماں کا نہ صرف تعمیری اثر پڑا یعنی نیک کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوا بلکہ برے کاموں سے پرہیز کرنے کی عادت بھی ان ہی سے ملی مگر اسی کے ساتھ ساتھ موہن میں اندھا عقیدہ نہیں پایا جاتا تھا، جیسا ان کی ماں میں تھا اور وہ چھوت چھات اورذات پات کی قائل تھیں لیکن گاندھی جی کو ان باتوں سے نفرت تھی۔
گاندھی جی سات برس کی عمر میں پرائمری اسکول میں جانے لگے ۔ اسکول گھر سے دور نہیں تھا۔ انھوںنے پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد راج کوٹ کے ایک انگریزی اسکول میں داخلہ لیا۔ وہ بچپن ہی سے دیانت دار تھے وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے اس لیے دوسرے لڑکے انھیں اپنی شرارتوں میں شریک نہ کرتے اور نہ وہ خود شریک ہونا چاہتے۔ وہ کبھی ایسا کام نہیں کرتے جس میں کمینہ پن شامل ہو۔ اسکول کے زمانے کا ایک واقعہ ہے گاندھی جی اپنے اساتذہ کی بات کبھی نہیں ٹالتے تھے لیکن ایک بار ایسا ہوا کہ معائنے کے وقت ان کے اُستاد نے پیر کی ٹھوکر مار کر گاندھی جی کو اشارہ کیا کہ وہ پاس بیٹھے ہوئے لڑکے کی کاپی دیکھ کر اپنے لکھے ہوئے لفظ کے ہجے درست کرلے تاکہ اُستاد کے درجے میں املے کا ریکارڈ خراب نہ ہو مگر گاندھی جی نے اُستاد کی یہ بات نہیں مانی اور نقل کرنے سے انکار کردیا۔
1887 میں گاندھی جی نے سامل داس کالج بھائو نگرمیں داخلہ لیا۔ کالج میں پڑھائی انگریزی میں ہوتی تھی۔ ان کی مادری زبان گجراتی تھی لیکن انھوںنے انگریزی بھی سیکھ لی۔ گاندھی جی اپنی برادری کے پرانے خیال کے لوگوں کی مخالفت کے باوجود قانون کی ڈگری کے لیے انگلینڈ گئے ۔ وہ وہاں تین برس رہ کر وکالت کی تعلیم حاصل کی ۔ بھارت واپس ہونے پروہ وکالت شروع کرنے کے خیال سے بمبئی گئے۔ وکالت شروع کرنے کے بعد انھیں محسوس ہوا کہ انھوںنے لندن میں برطانوی قانون کے متعلق تو بہت کچھ پڑھا لیکن بھارتی قانون میں انھوںنے کچھ بھی نہیں پڑا ہے اسی لیے گاندھی جی نے ہندو اور مسلم قانون پڑھنا شروع کردیا۔
گاندھی جی بمبئی کی عدالت میں پہلا مقدمہ مالی بائی ایک بیوہ غریب کا کیا۔ اس میں انھیں افسوس ناک تجربہ ہوا جب وہ موکل کی طرف سے عدالت میں بولنے کے لیے کھڑے ہوئے تو جیسے ان کی زبان ہی بند ہوگئی اور وہ بالکل بول نہ سکے۔ انھوںنے بیوہ کو تیس روپے واپس کردیے جو انھیں بہ طور فیس ملے تھے۔ گاندھی جی کو اس واقعہ سے اتنی نااُمیدی ہوئی کہ انھوں نے راج کوٹ واپس جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں دستاویزات لکھ کر تیس روپے ماہانہ کمانے لگے لیکن برابر انھیں احساس ستانے لگا کہ وہ بالکل ناکام ہوگئے جس کی وجہ سے وہ کافی رنجیدہ رہنے لگے اورسوچنے لگے کہ وہ وکالت کریں یا یہ پیشہ چھوڑ کر معلم بن جائیں۔
گاندھی جی نے جنوبی افریقہ کا رخ کیا ۔ وہ وہاں ایک قانون داں کی حیثیت سے ایک بھارتی کے مقدمہ کی پیروی کے لیے گئے تھے۔ وہاں جاکر انھوںنے نسلی امتیاز اور وہاں کے اصلی باشندوں کے ساتھ ساتھ بھارتی باشندوں کے ساتھ بھی انگریزوں کے جانوروں جیسے برتائو اورسلوک کا مشاہدہ کیا تو انسانی قدروں کی یہ تذلیل ان سے نہ دیکھی گئی۔ انھوںنے قانون اور مقدمہ کی پیروی کو بھول کر ،اس امتیازی سلوک کے خلاف جدو جہد کا آغاز کردیا۔ جنوبی افریقہ کی گوری حکومت کے نزدیک ان کا یہ رویہ حیرت انگیز تھا۔ گاندھی جی جنوبی افریقہ سے ایک ایسے سیاسی قائد بن کر واپس آئے کہ ان کی شخصیت، ایک سورج کی مانند ہوگئی تھی۔
گاندھی جی کے سیاسی اور سماجی گرو گوپال کرشن گوکھلے تھے۔ گوکھلے کی انسانی دوستی کی ایک گہری چھاپ گاندھی جی کے دل ودماغ پر پڑگئی تھی۔ گروجی کی حب الوطنی نے گاندھی جی کو اپنا غلام بنالیا۔ اچھوتوں کو سماج میں کوئی مقام نہ دینا اور اُن سے نفرت کا اظہار کرنا گوکھلے کے درد مند دل کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ اس لیے وہ بار بار لوگوں سے پس ماندہ اقوام کی مدد کرنے اوران کو انسان سمجھنے کی اپیل کرتے رہے۔ گاندھی نے تو ایک قدم اورآگے بڑھ کر اچھوتوں کو ’’ہری جن‘‘ (ایشور کے بیٹے) کہہ کر اونچی ذات والے ہندوئوں کو ان کی علاحدگی پسند رجحانات کے لیے ایک سبق دیا۔
گاندھی جی کی شادی تیرہ برس میں پور بندر کے مشہور تاجر گوکل داس مکنجی کی بیٹی کستور با مکنجی سے ہوئی تھی۔ ان کے چار لڑکے، ہیرالال، منی لال، رام داس اور دیو داس تھے۔ کستور با گاندھی ،گاندھی جی کی تحریک آزادی میں ساتھ ساتھ تھیں۔ پونا مہاراشٹر میں قید وبند کے دوران ان کا انتقال ہوا تھا۔
گاندھی جی نے پوری زندگی جدوجہد میں گذری۔ انھوںنے یہ جدو جہد اس لیے کی کہ ظلم اوربے انصافی کاخاتمہ بھارت سے ہوجائے۔ انھوںنے ’’ستیہ گرہ‘‘ کی تحریک چلائی۔ گھر گھر چرخا چلانے کو عام کیا ۔گاندھی جی نے بھارتی عوام کو اہنسا یا عدم تشدد کا فلسفہ دیا۔ وہ سچائی،عدم تشدد اورآزادی کے راستے پر چلتے رہے۔ انھوںنے نہ صرف بھارتی عوام کی بھلائی کی باتیں کیں بلکہ انھوںنے تمام غلام اورپس ماندہ ملکوں کی حمایت کی۔ ساری دنیا کے مظلوم گاندھی جی کو اپنا رہبر ماننے لگے۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے گاندھی جی کو’’مہاتما‘‘ اور سبھاش چندر بوس نے ’’راشٹر پتا‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ بھارتی قوم نے انھیں ’باپو‘ اور’بابائے قوم‘ کہہ کر امر کردیا۔
گاندھی جی نے سابرمتی میں اپنا آشرم قائم کیا۔ اس کے بعد بردھا میں ان کا آشرم قائم ہوا۔ انھوںنے اپنی زندگی میں سنتوں کا سا انداز اختیار کیا۔ آزادی کے بعد بھارت میں فرقہ واریت کی جو آگ بھڑکی اُسے بجھانے کی انھوںنے ہر تدبیر اختیار کی ۔ گاندھی جی نے دیکھا کہ کسانوں کی مصیبت کی جڑ ہے ان کے اندر تعلیم کی کمی۔ اس لیے انھوںنے اپنے خاندان اوردوستوں کی مدد سے چمپارن کے گائوں میں اسکول کھول کر تعلیم دینے کا ایک پروگرام شروع کیا۔ دیہات کے رہنے والوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے ساتھ صحت اور صفائی کے ابتدائی طریقے بھی سکھائے جاتے تھے۔ ان کا قول تھا: زندگی کے ذریعے تعلیم، زندگی کے لیے تعلیم اورتمام زندگی تعلیم۔‘‘ وہ اپنے قول سے بھارت کے عوام میں سدھار لانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے مطابق تعلیم سچی یا صحیح تعلیم وہ ہے جس میں ذہن، جسم اور دل تینوں کی تربیت کا خیال رکھا گیا ہو۔ بچوں کواُن کی مادری زبان میں تعلیم دینا بہتر ہے بہ نسبت دوسری زبان کے ۔ گاندھی جی تمام عمر اس بات کے حامی رہے۔
گاندھی جی نے ’’ینگ انڈیا‘‘ اور ’’ہریجن‘‘ شائع کیے۔ ان اخبارات میں وہ بھارت کے عوام سے ایک جیسا برتائو کرنے کے لیے زور دیتے تھے۔انھوںنے ’’تلاشِ حق‘‘ کے عنوان سے خود نوشت سوانح لکھی۔ یہ گجراتی زبان سے انگریزی زبان میں گاندھی جی کے سیکریٹری مہادیو دیسائی نے ’’The Story of my experiments with truth‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا تھا۔
بچو! گاندھی جی آج ہمارے درمیان نہیں رہے۔ مگر انھوںنے جو پیغام بھارتی عوام کو دیا تھا اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا پیغام تھا کہ سچائی اورعدم تشدد کو فروغ دینا۔ 30/جنوری 1948 کو گاندھی جی گولی کا نشانہ بنا دیے گئے اوراس کی خبر امریکیوںنے ریڈیو پر سنی تو ہر ایک کی زبان سے یہی الفاظ نکلے کہ ابراہم لنکن ثانی کا قتل ہوگیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا