مولانا عامر عثمانی : ایک نامور ادیب اور بے باک عالم دین

0
0

 

 

نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب
مولانا عامر عثمانی نہ صرف یہ کہ دیوبند کے ایک عظیم فرزند، ایک بے مثال عالم دین، ایک صاحب طرز ادیب و مزاح نگار، ایک بے باک صحافی اور مشہور قلمکار تھے بلکہ وہ دیوبندی مکتب فکر کے واحد عالم دین تھے جن کو دنیاے اردو ایک ادیب وانشاء پرداز کی حیثیت سے مانتی اور جانتی ہے۔ جن کی کتاب مسجد سے مے خانہ تک میںنے جتنی بار پڑھی اس شخصیت کا گرویدہ ہوتا چلا گیا۔
تم روٹھ چکے دل ٹوٹ چکا اب یاد نہ آو رہنے دو
اس محفل غم میں آنے کی زحمت نہ اٹھاو رہنے دو
لیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاو رہنے دو
جو آگ دبی ہے سینے میں ہونٹوں پر نہ لاو رہنے دو
مگر عامر عثمانی نے اپنی تحریر اورشاعری کے ذریعہ جو ان کے سینے میں آگ دبی تھی ہمیشہ لاتے رہے، کبھی کسی کی طعن وتشنیع کی پرواہ نہیں کی۔
دارالعلوم دیوبند کا یہ ہیرا 1920ء میں ہندوستان کے اترپردیش کے ضلع ہردوئی میں پیدا ہوا۔ اصلی نام امین الرحمن تھا مگر عامر عثمانی سے مشہور ہوئے۔ اپنی پوری تعلیم دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی اور سن 1939ء میں فارغ ہوئے۔ فراغت کے بعد کچھ دنوں تک پتنگیں بناکر بیچتے رہے پھر شیشہ پر لکھنے کی مشق کی اور جلد ہی ایک آرٹسٹ بن گئے۔ چنانچہ دیوبند کے کئی مشہور کتب خانوں نے آپ کی صلاحیت کا فائدہ اٹھایا اور آپ نے بہت سی کتابوں کے ٹائٹل بنائے۔ اس کے بعد ایک پرچون کی دکان کھولی ، بزنس بھی اچھا چلنے لگا ،
مگر آسمانوں میں اڑنے والا یہ شاہین اور خوابوں کی دنیا کو ڈھونڈنے والا یہ نوجوان پرچون کی دکان پر کہاں صبر کرتا ، وہ اپنے خوابوں کی تلاش میں سپنوں کے شہر ممبئی نکل گیا۔ اور وہاں فلمی دنیا سے جڑ گیا۔ کہانیاں لکھنی شروع کیں اور گیت لکھنے کا آغاز کیا۔ مگر سرشت میں تو نیکی رچی بسی تھی، والد نے فلمی دنیا چھوڑنے کا حکم دیا تو پھر دیوبند واپس آگیا۔
اب اس نوجوان نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود ایک میگزین نکالنے کا فیصلہ کیا۔ جس کا نام تھا تجلی۔ تجلی کا اجراء 1949ء میں ہوا۔ دوستوں اور مخلصین نے مالی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے ایک اسلامی مجلہ نکالنے اور اسی پرمالی انحصار کرنے سے منع کیا ، مگر یہ نوجوان بضد تھا، بہرحال جب تجلی شائع ہونے لگا تو اس نے سارے اسلامی مجلات کو پیچھے چھوڑدیا ، لوگ تجلی کا اتنظار کیا کرتے، اس میں مولانا عامر عثمانی کے مضامین جو عادلانہ تجزیہ، تحقیق اور منصفانہ تبصروں پر مشتمل ہوتے لوگوں کو بے حد پسند آتے، وہ اپنی تحریروں میں قدامت پرستی کے خلاف جنگ بھی لڑتے اور تجدد پرستی کے خلاف مسلمانوں کو متنبہ بھی کرتے۔ اس زمانہ کے روایتی علماء کے برخلاف آپ کی آواز نے پورے برصغیر ہند وپاک میں ایک کثیر تعداد کو آپ کا گرویدہ بنادیا۔ چنانچہ اگلے پچیس سالوں تک یہ مجلہ نکلتا رہا اور لوگ اسے ذوق وشوق سے پڑھتے رہے۔
یہ سچ ہے کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیں
یہ سچ کے بھڑکتے شعلوں سے دامن کو بچانا کھیل نہیں
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا عامر عثمانی نے اہل دیوبند کے شعلوں سے اپنے دامن کو بچانے کی بھرپور کوشش کی جو جماعت اسلامی اور علامہ مودودی کے خلاف شب وروز تقریر وتحریر اور فتووں میں ظاہر ہورہے تھے۔ آپ نے گرچہ دیوبند میں تعلیم حاصل کی، اور انھیں کے بیچ رہ اپنا علمی سفر جاری رکھا مگر دیوبند کے علماء کرام کے موقف کے برخلاف جماعت اسلامی کو سپورٹ کیا اورعلامہ مودودی کے خلاف علماء کرام کے اعتراضات کا بھرپور علمی جواب دیا ۔ جب قدامت پرست علماء کرام نے علامہ مودودی کے خلاف کفر کا فتوی صادر کیا تو آپ نے بغیر کسی کے ڈر اور دباو کے نہ صرف یہ اس کی مخالفت کی بلکہ اپنے علمی مقالات اور تحقیقی نوادرات کے ذریعہ جماعت اسلامی کے خلاف اٹھنے والے سبھی فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ چنانچہ تجلی کا خلافت وملوکیت نمبر آپ کی جماعت اسلامی کے تئیں محبت اور حق کا ساتھ دینے اور مخالفین کا منھ توڑ جواب دینے کی ایک ایسی مثال ہے جو اہل دیوبند کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
جہاں تک مولانا عامر عثمانی کی تصنیفات کا تعلق ہے تو آپ کی مشہور کتابیں ہیں۔ ، شاہنامہ اسلام ، مسجد سے مے خانے تک ، ، تین طلاق ، تجلیات صحابہ ، حضرت عثمان ذوالنورین ، رسول اللہ کا سایہ ، تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں ، مسلم پرسنل لاء پر اعتراضات اور اس کے جوابات وغیرہ۔ جہاں تک آپ کی شاعری کا تعلق ہے تو یہ قدم قدم بلائیں آپ کا شعری مجموعہ ہے ۔ عامر عثمانی کی شاعری میں آپ کو اسلام پسندی اور حقانیت کے ساتھ ساتھ رومانیت بھی نظر آئیگی۔ آپ کی شاعری آج بھی دلوں میں حرارت پیدا کرتی ہے۔
مولانا عامر عثمانی کو دل کا عارضہ ہوگیا تھا، ڈاکڑوں نے نہ صرف یہ کہ سفر کرنے بلکہ بات چیت کرنے بھی سخت منع کررکھا تھا، اس کے باوجود آپ نے پونے کے ایک مشاعرہ میں شرکت کی ضد کی اور اس میں شریک ہوئے۔ مشاعرہ اپنے شباب پر تھا ، عامر عثمانی نے اپنی نظم کہی :
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی ، شراب ڈھونڈتا ہوں میں
مجھے نمک کی کان میں مٹھاس کی تلاش ہے
برہنگی کے شہر میں لباس کی تلاش ہے
میرے سفر کے ساتھیو! تمہیں سے پوچھتا ہوں میں
بتاو کیا صنم ملے ، بتاو کیا خدا ملا
جواب چاہیے مجھے جواب ڈھونڈتا ہوں میں
جنھیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں
کسے پتہ تھا کہ یہ دلوں کو جھنجھوڑ دینے والی نظم علامہ عامر عثمانی کی آخری نظم ثابت ہوگی۔ چنانچہ اس مشاعرہ میں یہ نظم پڑھنے کے صرف دس منٹ بعد آپ اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ اور اس طرح دیوبند کا یہ انوکھا اور چمکتا دمکتا ستارہ 12 اپریل 1975کو ہمیشہ ہمیش کے لئے آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا