قیصر محمود عراقی
6291697668
دنیا میں ایسے لاکھوں لوگ آئے اور چلے گئے جنہوں نے خوب نام کمایا ، ان میں کچھ دولت و ثروت کے مالک ہو ئے ، کچھ تاج و کلا ہ کے وارث ہو ئے ، بعض کا اقتدار کے ایوانوں میں خوب چرچا رہا ، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نام و نشاں مٹتے چلے گئے اور کسی نے ان کو یاد رکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی ، مگر جن لوگوں نے ایمان ، عمل صالحہ ، احکام خدا وندی کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کی خدمت اور ہدایت کا فریضہ سر انجام دیا ان کے کچے آنگن میں ہمیشہ بہار کا سماں رہا ۔مقام حیرت ہے کہ شاہی خاندان اور جاگیردار بے نام و نشاں ہو کر رہ گئے اور اپنے پیچھے عبرت کی داستانیں چھوڑتے چلے گئے لیکن جب اللہ کے نیک بندوں پر نظر پڑتی ہے تو ان کا چہرہ روشن نظر آتا ہے ، یہ بند گان خدا اپنے ، پیچھے قلعے اور محلات چھوڑ کر نہیں گئے بلکہ مثبت رویئے چھوڑ کر گئے ہیں ، ان کی وارثت درھم و دنیار نہیں بلکہ حسن اخلاق و کر دار ہے ، ایسی ہی ایک نیک اور پاکیزہ کر دار شخصیت کا نام مولانا زین الدین شمسی ؒ ہے جن کو اس جہانِ فانی سے کوچ کئے ہو ئے تین برس بیت چکے ہیں ۔
آپ جیسے خورشید صفحہ ہستی پر روز روز نہیں اُبھرتے ، ایسے اہل فکر و نظر کے لئے تاریخ کو بر سہا برس انتظار کی اذیت سے دوچار ہو نا پڑتا ہے ، گر دش دوراں سالہا سال دیر و حر م کے گر د طواف کر تی ہے تب کہیں جا کے ایسے لوگ پیدا ہو تے ہیں جو وقت کے سانچوں میں ڈھل نہیں جا تے بلکہ عظمت کا معیار قرار پا تے ہیں ۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ ان کے اوصاف کو قلم بند کر سکوں ، بس اتنا کہ آ پ ایک ہمہ جہت اور مثالی شخصیت کے حامل ایسے شخص تھے جن کی ذات سچائی اور کر دار کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھی ۔ آپ ایک بلند پایہ اور سحر بیاں خطیب تھے اور غوثیہ اصلاحی مسجد کمرہٹی کے امام بھی تھے ۔ آپ کی تقریروں میں محبت رسول ﷺاور ناموس رسالتﷺ کا درس بھی نمایاں نظر آ تا ہے ، اتحاد امت آپ کا مشن تھا اسی لئے تمام مکتب فکر کے لوگ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اتحاد اُمت اور اصلاح اُمت کی کوششوں کو سراہتے تھے ۔ آپ نے سماجی برائیوں کے خلاف اپنی تمام تو انیاں صرف کیں ، حلقہ مصلیان میں بھی آپ کو نمایا مقام حاصل تھا، شائستہ انداز میں گفتگو ، سنجیدگی آپ کو شخصیت کے حس میں اضافہ کر دیتا ، آج بھی حلقہ مصلیان ان کا ذکرکر کے افسردہ ہو جا تے ہیں ۔
قارئین حضرات! مولانا زین الدین شمسیؒ بے حد صابر و شاکر انسان تھے اور ایسے صابر و شاکر تھے کہ جب اسپتال میں ان کا آپریشن کیا جا نے لگا تو آپریشن کے تکلیف دہ عمل سے گذر کر بھی مایوسی کا ایک لفظ آپ کی زبان پر نہ آیا ۔ آپ کے اندر تواضع وا نکساری ، استغفاو بے نیاری ، قناعت ، غیرت و خودداری ،شہرت سے نفرت و بیزاری جیسی اعلیٰ صفات اور کامل تر ین خوبیاں کو ٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھیں ، موصوف نہایت سادگی پسند عالم دین تھے ، بہت معمولی لباس زیب تن کر تے وہ بھی سفید لباس ، حتیٰ کہ سادگی کو بھی ان پر تر س آ تا ، نہ کوئی کروفر ، نہ ہی رعب و دبدبہ اور نہ ہی شان و شوکت حتیٰ کہ ایک عام آدمی کے لئے ان کے ظاہر کو دیکھکر شناخت کر نا اور ان کا علمی و انتظامی مقام پہچاننا اور ان کی حیثیت و اہمیت کا اندازہ کر نا کوئی آسان کام نہ تھا ۔
مولانا شمسی ؒ صاحب کی ایک اہم خصوصیت آپ کی ذہانت و معاملہ فہمی تھی ، آپ بلا کے ذہین تھے ، معاملہ کی تہہ تک فوراً پہنچ جا تے تھے ۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی محبت کا گہرا نقش آج بھی دلوں پر مثبت ہے ، جسے بھلا یا نہیں جا سکتا ۔ آج ان کو ہم سے جدا ہو ئے تین بر س ہو گئے ، مورخہ ۳۰؍ ستمبر بروز سنیچر بعد نماز عشاء ان کا عرش پاک غوثیہ اصلاحی مسجد کے صحن میں نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا جس میں مقامی و بیرونی خطیب و امام اور مداح رسول ﷺ کی تشریف آوری ہو ئی ۔
آخر میں میں ان کی چند باتوں کو قارئین حضرات کے گوش گزار کر نا چاہتا ہوں جو اپنی حیات مبارکہ میں ایک موقع پر انہوں نے لوگوں کے سامنے خطاب کیا تھا ۔ آپ فر ماتے ہیں قرآن مجید کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق بدایات موجود ہیں ۔ ایک مر تبہ ایک شخص مجھ سے مخاطب ہوا اور دریافت کیا کہ وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہو نے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار کی گئی ہے ؟ وہ کون سا لنگر ہے ، جس سے اس اُمت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ تو میں نے بر جستہ جواب دیا وہ بندھن ، وہ رشتہ ، وہ چٹان اور وہ لنگر خدا کی کتاب عظیم قرآن مجید ہے، مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم قران مجید کو پڑھتے ہو ئے آگے بڑھتے جا ئینگے ۔ہم میں زیادہ سے زیادہ وحدت پیدا ہو تی جا ئے گی۔ کیونکہ ہم مسلمان ہیں ، اسلام نے ہمیں سبق دیا ہے کہ آپ کہیں بھی ہوں کچھ بھی ہوں اول و آخر مسلمان ہیں ۔
بہر حال انتقال تو کسی نہ کسی کا کہیں نہ کہیں ہو تا ہی رہتا ہے ، ہمارے مولانا شمسی ؒ کا بھی ہو گیا ، لیکن جنازہ آپ کا جس شان سے اُٹھا وہ ضرور لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ۔ نماز جنازہ میں شریک ہو نے اور عقیدت و محبت سے کاندھا دینے والے اگر صرف طلبہ ہی ہو تے اور مصلیانِ مسجد ہو تے تو تعجب کی کوئی بات نہ تھی لیکن اہلِ شہر کا اتنا بڑا مجمع ، ہر سطح کا آدمی ، ہر طبقہ کا آدمی ، ہر مزاج کا آدمی ، ہر حلقہ کا آدمی اور وہ بھی ایام کرونا وائرس میں ، یہ ضرور چونکا دینے والی بات تھی ۔ مولانا زین الدین شمسی ؒ صاحب ایک شیخ ہو تے ، ایک پیر ہو تے ، ایک بڑے عامل ہو تے ، شعلہ بیان مقررہو تے ، مشہور و معروف مصنف ہو تے ، نامور صحافی ہو تے ، سماجی کارکن کی حیثیت سے لوگوں میں متعارف ہو تے ، کسی خاص نسبت کے حامل ہو تے ، شہر کے رئیس ہو تے یا کسی رئیس بیٹے کے باپ ہو تے تو اہلِ شہرکا یہ مجمع سمجھ میں آسکتا تھا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خطائوں کو ، لغزشوں کو در گذر کر ے اور درجات بلند کر تے ہو ئے جنت الفردوس میں جگہ فراہم کرے اور دیگر لواحقین کو صبر و جمیل عطا فر مائے ۔