مودی کے لئے حکومت میں رہنا واحد متبادل ہے

0
0

۰۰۰
مشرف شمسی
۰۰۰
مودی تیسری بار وزیر اعظم بن گئے ہیں لیکن جس جلد بازی میں وزیر اعظم مودی نظر آ رہے ہیں اس جلد بازی میں اْنکے اتحادی یا این ڈی اے کی دوسری جماعتیں نظر نہیں آ رہی ہیں۔میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ وزیر اعظم بننے کے لئے اتحادی جماعتوں نے جو دستخطی حمایت دء ہے وہ سات جون تک اس میں بہت کچھ رد بدل ہو سکتا ہے لیکن یہ این ڈی اے کی سرکار کتنے دِن اور مہینے تک چلے گی اور حلف برداری کے بعد بھی مودی اپنے پرانے تیور سے سرکار چلائینگے یہ کہنا مشکل ہے۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مودی کے ساتھ کارپوریٹ کے بڑے بڑے مفاد جڑے ہوئے ہیں اسلئے وہ کارپوریٹ کی پونجی اتنی آسانی سے انڈیا اتحاد کو سرکار میں آنے نہیں دے گی۔خاص کر کانگریس کی قیادت میں سرکار بننے نہیں دے گی۔
اب انڈیا اتحاد کیا حکمت عملی بناتی ہے یہ دیکھنے والی بات ہوگی لیکن انڈیا اتحاد میں بھی کئی جماعتیں ایسی ہیں جنہیں کارپوریٹ کے ساتھ چلنے میں کسی طرح کی دقّت نہیں ہے۔ممتا بنرجی اور شرد پوار ان میں اہم ہیں۔لیکن ان دونوں کی سیاست اپنی اپنی ریاستوں میں بی جے پی کے خلاف ہیں اسلئے وہ دونوں اس وقت مودی کے اس این ڈی اے اتحاد میں شامل نہیں ہو سکتے ہیں۔
لیکن نتیش کمار مودی کی قیادت میں این ڈی اے میں بنے رہیں گے یہ کہنا مشکل ہے۔نتیش کمار نے اس وقت پہلی بار این ڈی اے اتحاد سے علیحدہ ہوئے تھے جب مودی کو 2013 میں بی جے پی کا وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بنایا گیا تھا۔2014 کا پارلیمانی الیکشن نتیش بی جے پی سے الگ ہو کر لڑے تھے۔لیکن اْسکے بعد کئی بار بی جے پی کے ساتھ گئے اور پھر الگ ہوئے۔آخری بار نتیش بی جے پی سے علیحدہ ہوئے اور انڈیا اتحاد بنانے کی جانب قدم بڑھائے تو انہوں نے صاف کہا تھا کہ جو 2014 میں وزیر اعظم بنے تھے وہ 2024 میں نہیں بنیں گے اور پھر جب انڈیا اتحاد سے علیحدہ ہوئے تو کہا جاتا ہے کہ وہ لالو یادو سے مل کر الگ ہوئے تھے۔اسلئے اس بار نتیش کمار اور آر جے ڈی میں چناو کے دوران بھی وہ تلخء نہیں تھی جو پہلے ہوا کرتا تھا۔جب نتیش کمار نے اس بار لالو سے الگ ہوئے تو میں نے اس وقت لکھا تھا کہ انڈیا اتحاد میں جتنی جماعتیں ہیں اس میں نتیش کمار کو اتنی سیٹیں نہیں دی جاسکتی ہیں جو اْنکا مطالبہ ہوگا اسلئے بنا کسی دباؤ میں بی جے پی سے جا ملے اور بارہ سیٹیں جیت کر اپنے مقصد میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں۔2014 کے بعد پہلی بار بی جے پی اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے مودی اس کے باوجود وزیر اعظم بننا چاہتے ھیں۔نتیش کمار کی جانب سے سوچیں تو اب اونٹ آیا پہاڑ کے نیچے جیسے محاورہ کو سچ ثابت کرتا ہے۔نتیش کمار مودی کی طرح ہی اپنا کوئی بھی حساب کتاب ادھورا نہیں چھوڑتے ہیں۔وہ این ڈی اے اتحاد میں رکر بھی مودی سرکار کے لئے پریشانی کا سبب بنتے رہیں گے اور جب اْنہیں لگے گا کہ انڈیا اتحاد سے اْنہیں اچھا آفر مل رہا ہے وہ چندر بابو نائیڈو کے ساتھ کبھی بھی پلٹی مار سکتے ہیں۔اسلئے نتیش کمار پر مودی کبھی بھی بھروسہ نہیں کر سکتے ہیں۔
ٹھیک اسی طرح چندر بابونائیڈو آندھرا پردیش میں اکثریت کی سرکار بنائی ہے۔حالانکہ بی جے پی کے ساتھ چناو لڑے تھے لیکن تیلگو دیشم کو آندھرا کی اسمبلی میں واضح اکثریت ہے۔اسلئے اْنہیں بی جے پی کی ضرورت نہیں ہے۔چندر بابو نائیڈو کے مطالبات جب تک مودی سرکار مانتی رہے گی تب تک وہ اْن کے ساتھ ہونگے۔چندر بابو نائیڈو کا جو ریکارڈ رہا ہے کہ وہ اپنی ریاست کے لئے زبردست مول تول کرتے ہیں۔مودی سرکار چندر بابو نائیڈو کے مطالبات پورا کر سکے گی اس میں شک ہے لیکن مودی اور امیت شاہ دوسری جماعتوں کو توڑ کر اکثریت حاصل کرنے کی ضرور کوشش کریں گے اس میں بھی کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے۔کم سے کم ایک ایک دو ایم پی والی جماعتوں کو کب بی جے پی میں ملا لیں گے پتہ نہیں چلے گا۔لیکن خطرہ نتیش اور نائیڈو کی پارٹی کے لئے بھی ہے کیونکہ مودی اور امیت شاہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔دیکھتے ہیں شہ اور مات کا کھیل مودی سرکار بنتی ہے تو چلتا رہے گا۔عوام کے سامنے مضبوط مودی اپنی سرکار بچانے کے لئے کس حد تک سمجھوتہ کرتے ہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا۔کیونکہ مودی کے لئے حکومت میں بنے رہنا واحد متبادل ہے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا روڈ ،ممبئی

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا