مودی کا سفید جھوٹ- حقیقت پسندی یا پسپائی؟ 

0
0

 

جھوٹا اپنا اعتماد اور عزت کھو بیٹھتا ہے

! عبدالعزیز 9831439068

کہتے ہیں کہ ’’دروغ گو را حافظہ نباشد‘‘یعنی جھوٹے کو یاد نہیں رہتا ، کچھ سے کچھ بولنے لگتا ہے۔ میرے خیال سے مودی جی کو اب یا پہلے بھی جھوٹ بولتے بولتے عادت سی ہوگئی ہے۔ جھوٹ کا بوجھ بہت زیادہ ہوجانے سے جھوٹا اس کو ’سہار‘ نہیں پاتا۔ مسلسل جھوٹ بولنے والا اپنے ہی جال میں پھنس جاتا ہے۔ خصوصاً اس صورت میں جب اس نے مختلف افراد کے سامنے مختلف جھوٹ بولا ہو۔ ایسے شخص کا حافظہ بہت کمزور ہوتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ وہ اس نے اس معاملے کے حوالے سے پہلے کیا کہا تھا اور اسی حوالے سے وہ اب کیا کہہ رہا ہے؟ اس کے بعد صورت حال یہ ہوتی ہے کہ وہ اگر زندگی کے کسی مرحلے پر سچ بھی بول رہا ہو تو اس کی بات کا یقین کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ چرواہے کی کہانی مشہور ہے۔ جھوٹ کئی بار بولنے کی وجہ سے وہ گاؤں والوں میں بے اعتبار ہوگیا تھا۔ جب سچ بول کر مدد کا خواہشمند ہوا تو اس کی کوئی مدد نہیں کرسکا۔ جھوٹ خود جھوٹ بولنے والے کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو عادتاً جھوٹ بولتے ہیں اور دوسرے وہ جو ضرورتاً جھوٹ بولتے ہیں۔ مودی جی عادتاً بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ضرورتاً تو بہت جھوٹ بولتے ہیں۔ 2014ء کے بعد وہ اس قدر جھوٹ بولے ہیں کہ جس کو ریکارڈ توڑ جھوٹ کہا جاسکتا ہے۔ اور ایسے آدمی کا ’گینز بک آف ریکارڈس‘ (Genius Book of Records)میں آنا چاہئے مگر گینز بک والوں کی ہمارے محبوب وزیر اعظم پر شاید کسی وجہ سے نظر نہیں پڑی۔ تقریروں میں موصوف اس قدر جھوٹ بولے ہیں اور اس قدر جھوٹے وعدے کئے ہیں کہ اس کیلئے الگ سے مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ خواہ پندرہ لاکھ دینے کی بات ہو، روزگار کی بات ہو، سب کا ساتھ سب کے وکاس کی بات ہو یا وسواس کی بات ہو ، اس طرح کے بہت سے جھوٹ اگر لکھے جائیں تو اس کیلئے ایک فہرست کی ضرورت ہوگی۔  نوٹ بندی : ’نوٹ بندی‘ کے سلسلے میں جو کچھ شروع سے لے کر آخر بلکہ آج تک جو جھوٹ بولا ہے یا جھوٹ بولتے آرہے ہیں اسے جھوٹوں کو پلندہ کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہا تھا کہ ’اس سے کالا دھن واپس آئے گا‘ جبکہ ایک پیسہ بھی واپس نہیں آیا۔ یہ بھی کہا تھا کہ ’’دو تین مہینے میں حالات اگر معمول پر نہیں آئے تو مجھے کسی چوراہے پر کھڑے ہوکر جتنے جوتے مارنا ہے آپ مار سکتے ہیں‘‘۔ حالات کی بات یہ ہے کہ حالات آج تک بھی معمول پر نہیں آئے۔ منگل 8 نومبر 2016ء کو نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا۔ آج 26 دسمبر 2019ء ہے ۔ تین سال سے زائد ہوگئے نوٹ بندی کے برے اثرات آج تک ہندستان کی معیشت پر حاوی ہیں۔ معاشی بحران کی ایک وجہ نوٹ بندی بھی ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ پیاز جیسی چیز کی قیمت 160 سے 200 روپئے تک پہنچ چکی ہے۔ چھوٹے بڑے تاجر سب پریشان ہیں۔ 45 سال میں بھی ایسی بے روزگاری نہیں ہوئی جو آج ہے۔ کسانوں کی خود کشی کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ ان سب کے باوجود نہ مودی جی نے کوئی چوراہا بتایا جہاں پر ان کی جوتوں سے خبر لی جائے اور نہ وہ جگہ بتائی جہاں وہ کھڑے ہوکر لوگوں کو اپنی باتوں کو یاد دلائیں۔ ان کی انتخابی جیت ان سب پر لگتا ہے جھاڑو پھیر دیتی ہے۔  این آر سی کا جھوٹ: ’این آر سی‘ کے سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی اتنا بڑا جھوٹ بول کر دنیا کی نگاہوں میں اور اپنے ملک کے عوام کی نظروں میں گر گئے ہیں۔ وہ اپنی دروغ گوئی کو یاد نہیں رکھ سکے اور نہ اپنے دست راست کے بیانات کو این آر سی پر حالیہ بیان دیتے ہوئے یاد  کرسکے۔ یہ بھی بھول گئے کہ ان کے رفیق کار، حاشیہ بردار اور زعفرانیوں کے سردار امیت شاہ این آر سی کے بارے میں تقریباً بیس بار کہا ہے کہ ’’پورے ملک میں نافذ ہوگا‘‘۔ صرف مغربی بنگال میں متعدد بار کہا ہے کہ این آر سی لاگو ہوگا ، ایک ایک گھس پیٹھیے کو چن چن کر ملک بدر کیا جائے گا یا حراست کیمپ میں بھیج دیا جائے گا۔ لوک سبھا میں امیت شاہ نے لوک سبھا کے ممبران اور کیمرے کے سامنے این آر سی کے نفاذ کے سلسلے میں کہا کہ پہلے این آر سی نافذ ہوگا پھر سی اے بی نافذ ہوگا۔ اس وقت شہریت ترمیمی بل ایوان میں زیر بحث تھا۔ صدر جمہوریہ ہند نے بھی اپنی تقریر میں این آر سی کے سلسلے میں تحریری بیان دیا۔ صدر کی تقریر کا ایک ایک جملہ حکومت کی کابینہ میں طے کیا جاتا ہے، جس میں مودی جی صدارت کرتے ہیں اور سب سے زیادہ جو چیز ان کی شخصیت کو مجروح کرتی ہے اور ان کے چھوٹے پن کو اجاگر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ یہ بھی بھول گئے کہ امیت شاہ کی این آر سی کے سلسلے میں ساری تقریریں ٹی وی کیمرے اور ویڈیو میں قید ہیں۔ اسی طرح صدر جمہوریہ کی تقریر بھی ایوان کی ریکارڈنگ میں ہے اور وہ تحریر بھی محفوظ ہے۔ اگر کوئی ہوشمند ہو اور سوجھ بوجھ رکھتا ہو تو میرے خیال سے مودی جی نے جو جھوٹ سر عام، سر مجلس بھری بزم میں بولا ہے وہ نہیں بول سکتا۔ ان کا یہ کہنا کہ جب سے وہ اقتدار میں آئے این آر سی پر کوئی بات نہیں ہوئی ، کوئی چرچا ہی نہیں ہوا۔ اب ٹی وی میں اسکرین پر ایک طرف امیت شاہ کے این آر سی پر بیانات روز دکھائے جارہے ہیں اور دوسری طرف مودی جی کا جھوٹا بیان چیختے اور چنگھاڑتے دکھایا جارہا ہے۔ میرے خیال سے دونوں کے بیانات دونوں دیکھ رہے ہوں گے اور سن رہے ہوں گے۔ سب سے عجیب و غریب بات جو دیکھنے میں آرہی ہے کہ ان دونوں کی باتیں اور بیانات ٹی وی اسکرین پر پورا سنگھ پریوار دیکھ رہا ہوگا۔ مگر پستی اور بے شرمی کا حال یہ ہے کہ مودی کی پوجا اور پرستش میں سنگھ پریوار والے کوئی کمی نہیں کر رہے ہیں۔ وہ شاید اس لئے مودی کو دیوتا سمان سمجھ رہے ہیں کہ ابھی تک اسی دیوتا سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ لیکن جھار کھنڈ میں جس طرح ہارے ہیں مودی، شاہ اور یوگی ، اسی طرح اگر اور ریاستوں میں ہارتے گئے تو ان دیوتاؤں کی پوجا اور پرستش میرے خیال سے کم ہوتی چلی جائے گی۔ کہتے ہیں کہ’’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے / صرف /پاؤں ہی نہیں / کوئی بھی عضو نہیں ہوتا / سوائے زبان کے / جو بڑی ڈھٹائی / بے شرمی اور بے حیائی سے / چلتی ہے / ایوان بالا کے اندر اور باہر / منچوں میں / یا ٹی وی کے مذاکروں /اخبار کی سرخیوں اور / انٹرویوؤں میں / تاکہ معصوم / امن پسند / سادہ لوح انسانوں کو / ورغلا کر / ہلاکت میں ڈال دیا جائے!‘‘ لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟  ایک جھوٹ سو جھوٹ کو جنم دیتا ہے۔ جو شخص جھوٹ بولتا ہے وہ اپنے اس جھوٹ کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ جھوٹ سفید نہیں صرف سیاہ ہوتاہے۔ جسے ہم سفید جھوٹ کہتے ہیں در اصل وہ سب سے زیادہ سیاہ ہوتا ہے۔ ٹالسٹائی کے بقول جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے سے ہر چیز بہتر ہے۔ ایک چینی مفکر کاکہنا ہے کہ جب سچائی کے سلسلے میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے اس وقت در اصل خاموش رہنا جھوٹ بولنے ہی کے مترادف ہوتا ہے۔ نپولین بونا پارٹ تحریر شدہ تاریخ کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ در اصل تاریخ ان جھوٹوں کا مجموعہ ہے جنھیں ہم سچ تسلیم کرچکے ہیں۔ ایک مغربی مفکر چیری بگس ہمارے اس جھوٹ کو زیادہ خطرناک قرار دیتا ہے جس کا ہم خود ادراک نہیں کرپاتے۔ یہ جھوٹ در اصل ہمارے خود پر واضح ہوجانے والے جھوٹوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہماری خودہمتی، ہماری طاقت اور ہماری ذات کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ نینس فارمر کہتی ہے کہ جھوٹ بولنا سب سے بڑی بزدلی ہے۔ نٹشے کہتا ہے کہ ایک مدبر تو خود سے جھوٹ بولتا ہے، لیکن ایک جھوٹا انسان دوسروں سے جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے برعکس خاتون دانشور ایس ای ہنٹن کہتی ہیں میں نے ہمیشہ اپنے آپ سے جھوٹ بولا ہے لیکن میں نے خود پر کبھی یقین نہیں کیا۔ الفریڈ ٹینی سن کے بقول آدھا سچ سب جھوٹوں سے بدترین جھوٹ ہے۔ امریکی جنگ آزادی کے ہیرو اور پہلے صدر جارج واشنگٹن کے بقول لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک جھوٹا انسان جس سے جھوٹ بولتا ہے وہ اس پر کامیابی حاصل کرلیتا ہے لیکن جو میں نے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اپنی ذات کی نفی کرتا ہے۔ اس طرح ایک جھوٹ بولنے والا شخص جس سے جھوٹ بولتا ہے اس کے سامنے اپنی حقیقت کھو بیٹھتا ہے۔ اس شخص کو اپنا آقا بنالیتا ہے، پھر وہ اس حرکت کی وجہ سے اپنی مذمت کرنے لگتا ہے۔ جھوٹ سے حقیقت کو دھندلانے کی وجہ سے حقائق کے متعلق اس کے نظریات دھندلے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرے امریکی صدر ابراہیم لنکن کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کی یاد داشت اتنی اچھی نہیں ہوتی کہ وہ ایک کامیاب جھوٹا بن سکے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ مشہور امریکی مصنف مارک ٹوین نے شاید لنکن کے جواب میں یہ کہا کہ اگر آپ سچ بولیں تو پھر آپ کو کچھ بھی یاد رکھنے کی ضرورت نہیں۔ فریڈرک نٹشے نے کہاکہ مجھ سے جھوٹ بولا، بلکہ مجھے پریشانی یہ ہے کہ اب سے میں آپ پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ جارج کارٹن کہتا ہے کہ میری خود کلامی کی وجہ یہ ہے کہ میں وہ واحد آدمی ہوں، جس کے جواب میں تسلیم کرتا ہوں۔  بعض لوگ اپنے جھوٹ کو چھوٹا موٹا جھوٹ قرار دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں جبکہ جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے، کوئی بھی جھوٹ چھوٹا نہیں ہوتا۔ ایک جھوٹ ہماری لاکھوں سچائیوں کو برباد کرسکتا ہے، یعنی ایک جھوٹ سے ہماری برسوں میں بنائی گئی ساکھ اور وقار تباہ ہوسکتا ہے۔ سچ کڑوا ہوتا ہے لیکن نقصان دہ نہیں۔ جھوٹ بعض اوقات ہمیں وقتی طور پر خوش کرسکتا ہے لیکن دائمی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ برائیاں ایک کمرے میں بند ہیں اور اس کمرے کی کنجی جھوٹ ہے۔ اسلام نے جھوٹ بولنے والے کو اپنے دائرہ سے خارج قرار دیا ہے۔جھوٹ بولنے والا سب کچھ ہوسکتا ہے مگر صاحب ایمان نہیں ہوسکتا۔  میرے خیال سے مودی کو جھوٹ اس لئے بولنا پڑا کہ پورے ملک میں این آر سی کے خلاف جو مظاہرے ہورہے ہیں وہ اتنے بڑے پیمانے پر ہورہے ہیں کہ پورا ملک ایسا لگتا ہے جیسے جاگ اٹھا ہے۔ عوام کی بیداری کی یہ لہر اتنی زبردست ہے کہ نریندر مودی پہلی بار جھوٹ بول کر اپنی پسپائی کا اعلان کر رہے ہیں اور مدافعت میں آگئے ہیں۔ ایک جارح اور آمر شخص مدافعت بڑی مجبوری سے کرتا ہے۔ میرے خیال سے اپنی مجبوری کو چھپانے کیلئے اور آر ایس ایس کے دباؤ میں آکر رام لیلا میدان میں جھوٹ بولنے کے بعد ہی کابینہ میں ’این پی آر‘ (قومی شہریت رجسٹر) کی منظوری موصوف کی صدارت میں کی گئی۔ اس کے خلاف بھی لوگ اسی طرح ہوگئے ہیں جس طرح این آر سی کے خلاف، کیونکہ این پی آر این آر سی کی پہلی منزل ہے۔ چور دروازے سے این آر سی لاگو کرنے کی بہت بڑی سازش اور کوشش ہے۔ پسپائی کے بعد غالباً منہ چھپانے کیلئے یا دلیری دکھانے کیلئے این پی آر کی منظوری حکومت کی طرف سے دی گئی۔ اور دوسرے ہی روز مودی کے حاشیہ بردار امیت شاہ نے صفائی دی کہ این پی آر سے این آر سی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے جیسے کوئی کہے کہ ماں کے دو بیٹوں میں کوئی رشتہ اور تعلق نہیں ہے۔ یہ جھوٹ مودی کے جھوٹ سے کم بڑا نہیں ہے۔ مخالفین اسے بھی ہضم نہیں کرسکیں گے۔ ایک نہ ایک دن جھوٹوں کی پسپائی ان کا مقدر بن جائے گی۔ اور یہ بات سچ ہوگی کہ جھوٹ سفید نہیں ہوتا بلکہ سیاہ ہی نہیں سیاہ ترین ہوتا ہے۔
"شہری ترمیمی بل ۔ 2019 ملکی حالات کے آئنے میں”شیبا کوثر، آرہ (بہار) ۱۹۴۷؁ء میں مذہب کی بنیاد پر ہندوستان تقسیم ہوا ۔ اور ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آیا۔ پاکستان دو قومی نظریہ کی سوچ کا نتیجہ تھا۔ ۱۹۷۱؁ء میں جو پاکستان مذہب کی بنیاد پر بنا تھا وہ لسانی بنیاد پر پھر تقسیم ہو گیا۔ اور بنگلہ دیش وجود میں آ یا۔ یہ بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا۔ بنگلہ دیش بنانے میں ہندوستان کا  کلیدی رول رہا ہے۔ اگر ہندستان مدد نہیں کرتا تو بنگلہ دیش وجود میں آنا ممکن نہیں تھا۔ بنگلہ دیش بنے کے بعد ہندوستان سے اسکے اچھے تعلقات ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تو پھر بنگالی دراندازوں کا رونا کیوں رویا جا رہا ہے۔۔۔۔۔؟ درانداز کشیر تعداد میں ہندو بنگالی ہیں۔ مذہب کے بنیاد پر آسامیوں کو انہں گلے لگا لینا چاہیے تھا۔ لکن ایسا ہوا نہیں یہاں ہندو کارڈ ناکام ہو گیا۔ ہندو کارڈ کا ناکام ہونا بھاجپا آیڈیا لوجی کا ناکام ہونا تصورکیا جائیگا۔ آسام میںNRCتیار کرنے کے لئے حکومت کے ذریعہ بنائی گئی ٹریبونل کے سامنے ۱۹لاکھ لوگ کاغذات نہیں پیش کر سکے جس سے یہ سابت ہو کے وہ ہندوستان کے شہری ہیں۔ ان میں ۶ٍ۱ لاکھ کے قریب غیر مسلم ہیں اور ان میں ۳ لاکھ کے قریب مسلم ہیں۔ حکومت ان ۱۶ لاکھ کو شہریت دینا چاہتی تھی اس لئے 1985 کے شہریت قانون میں ترمیم کے لئے شہریت ترمیم بل (CAB ) لوک سبھا میں پیش ہوا اور پھر پاس ہوا۔ پھر راجیہ سبھا  سیکولر کہلانے والی پارٹیوں کی مدد سے راجیہ سبھا سے بھی پاس کرا لیا گیا۔ اور اس کے بعد صدر محترم سے مہرلگواکر حتمی قانونی  شکل دے دی گئی۔ سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ مدکزی حکومت نے اس قانون کا نوٹیفیکیشن ابھی تک نہیں کرایا ہے۔ بہ این وجہ یہ قانون ابھی نافد نہیں ہوا ہے۔ اس شہری ترمیمی قانون (CAA) سے لوگوں میں کافی بیچینی ہے۔ انہیں اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ یہ قانون شیطان کی تلوار ہے۔ جو ان پر لٹک رہی ہے۔ اورکسی بھی  وقت انہیں تباہ و برباد کر دیگی۔ اس ترمیمی قانون میں افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہندوں، سکھوں، عسائیوں، بودھیدٹوں، جینیوں اور پارسیوں کو ستایے جانے کی بات کہتے ہوئے بھارت کی شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کے جو لوگ بھارت میں  پہلے سے آکر رہ رہے ہیں۔ ان کے پاس کاغذی سبوت عدم موجودگی میں بھارت کی شہریت  دی جائیگی ۔ ایسی بات اس قانون میں کہی گئی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو اسکی سہولت سے بلکل الگ رکھا گیا ہے۔ ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے لوک سبھا میں اپنے بیان میں ساف لفظوں میں کہا ہے کہ شہری ر ترمیمی  قانون کے نافذ ہونو بعد پورے ملک میں NRC کی کاروئی شروع کی جائیگی۔ اگر ایسا ہوا تو ہندوستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے شہریت سابت کرنا مشکل ہی نہیں مشکل  ترین ہو جائیگا۔ حکومت کی ساری کاروائی جو ہویی ہے۔ وہ آئین کی آرٹیکل 16 اور 21کی کھلی خلاف ورذی کے ذمرے میں آتی ہے۔ ہندوستان کا آئن ایک سیکولر آئن ہے۔ اس آین  میں مذہب کی بنیاد پر قانون بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارا ملک سیکولر جمہوری ملک ہے۔ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ حکومت کے لئے سبھی مذاہب  برابر ہیں۔ آئن کسی کے ساتھ بھید بھاو کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اس لئے اس طرح کا شہری قانون جس میں ملک کی سبسے بڑی اقلیت کی اندیکھی ہو ایک سنگینی آئنی جرم ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ شہری ترمیمی بل 2019 کو لوک سبھا کی جانچ کمیٹی کو پیش کیئے بغیر اور عوام کو  اعتماد میں لیئے بغیر جلد بازی میں پارلیامینٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس کرایا گیا۔ اور صدر کی مہر لگواکر حتمی شکل دے دی گئی۔۔۔۔۔؟  کیا یہ بل ہندوستان میں رہنے والے 25 کروڑ  مسلمانوں کو ۲ نمبر کا شہری بنانے کی تیاری ہے۔۔۔۔ـ؟ یا مسلمان دلیتوں اور کمزور  طبقہ کے غیر مسلیموں کواعلی جات کے لوگوں کا غلام بنانا ہے۔۔۔۔۔؟َ کچھ تو ہے۔ جس کی پردا داری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب پورے ملک میں NRC نافذ کیا جائیگا تو اس کے برے اثرات مسلیموں کو ساتھ ساتھ غیر مسلیموں کے کمزور محنت کش طبقے پر بھی پڑیگا۔ NRC سے آج جو حالت آسام کے لوگوں کی ہوئی ہے وہی حالت سبھی صوبوں کی ہونے والی ہے۔ یہ بہت ہی سنگین مسلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آذادی کے بعدCAAکا NRC کو ختم کرانے کے لئے ملک گیر پیمانے پر ہر طبقہ کے لوگوں کا احتجاج پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔آندولن ہندو مسلم پوری یک جہتی کے ساتھ جاری ہے۔ لوگ گولیاں کھا رہے ہیں، لاٹھیاں برس رہی ہیں۔ پولس کی بربرتا بھی اپنے شباب پر ہے۔ جامعیہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی، دہلی یونیورسیٹی، جواہر لال نہرو یونیورسیٹی، ہندو یونیورسیٹی، عثمانیہ یونیورسیٹی، بنارس ہندو یونیورسیٹی قریب قریب ہندوستان کے سبھی یونیورسیٹییوں کے طلبہ کے احتجاجی جلوس نکالتے دیکھے جا رہے ہیں۔ اب تک ۱۵ سے زیادہ لوگوں کی جانیں پولس کی گولیوں کی بھینٹ چڑھ چوکی ہیں۔  پولس کی بربرتا اتنی بڑھ چکی ہے کہ جامیہ ملیہ اسلامیہ میں گھس کر ہوسٹل، لائبریری کے بچوّں کو کھینچ کھینچ کر لاٹھیوں سے پیٹا جا رہا ہے۔ لڑکیوں کو ان کے کمرے سے کھینچ کھینچ کر ان پر بھی لاٹھیاں برسائی جا رہیں ہیں۔ زبر دستی انہیں تھانے میں بند کیا جا رہا ہے۔ لکین اتنا ہونے کے باوجود طالب علموں میں جوش و خروش قائم ہے۔ اور اپنی آئنی حق کے لئے آندولن پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ سب سے بری حالت کولکاتہ، آسام، میوزرم، اُتر پردیش کے دہلی، لکھنو، کانپور اور بہار کے پھلواڑی شریف کی ہے۔ اس احتجاجی آندولن کو دیکھتے ہوئے حکومت کے وزیر داخلہ بار بار کہتے نظر آرہے ہیں۔ اس قانون سے مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ قانون کسی کے بھی خلاف میں نہیں ہے۔ انکا یہ بیان سراسر جھوٹ ہے، دھوکا ہے، فریب ہے، اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پر امن احتجاجی آندولن اس وقت تک جاری رہنا چاہیئے جب تک CAAاور اس کے مجوزعہ NRC کو حکومت واپس نہیں لیتی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا