عارف شجر
حیدرآباد،( تلنگانہ)
8790193834
2014 ہو یا پھر 2019دونوں پارلیمانی الیکشن میں یقیناً مودی لہر دیکھی گئی اور ا س مودی لہر نے جہاں ملک کے قومی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ علاقائی پارٹیوں کے مضبوط قلعے کو منہدم کر دیا تو وہیں اس لہر نے حیدرآباد کی سر زمین پر آتے آتے اپنا دم توڑ گئی۔ حالانکہ مودی لہر نے دکن کی سیاسی پارٹیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش تو کی لیکن یہاں کے مضبوط سیاسی قلعے کو منہدم کرنے میں ناکام رہی خصوصاً آل انڈیا مجلس اتحاد المسملین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی کے مضبوط قلعے کو وہ توڑ نہیں پائی، مودی لہر حیدرآباد پارلیمانی حلقے سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسملین امیدوار اسد الدین اویسی کے مضبوط قلعے کو تو منہدم نہیں کر پائی لیکن ہاں اس نے اسد الدین اویسی کے قدموں پر گر کر انکے قدموں کا بوسہ لینے میں کامیاب ضرور ہو گئی۔ یہ چوتھا موقع ہے جب آل انڈیا مجلس اتحادلمسلمین و رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کی حلقہ لوک سبھا حیدرآباد سے چوتھی بار2,82,186 ووٹوں سے زبر دست کامیابی حاصل ہوئی۔ اس شاندار کامیابی پر مودی لہر نے اسد الدین اویسی کے قدموں کا بوسہ لینا ضروری سمجھا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسملین کے فاتح امیدوار اسد الدین اویسی نے جہاں پریس کانفرنس کرکے جیت کا سہرا عوام کے سر باندھا تو وہیں انہوں نے سیکولر جماعتوں کی ناقص کار کردگی پر بھی سوال اٹھائے یہی نہیں اپنے روایتی انداز میں پی ایم مودی کو ناکام پی ایم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری بنیادی مسئلوں پر لڑائی ہوتی رہے گی ہم پی ایم مودی کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے نوجوانوں کی بے روزگاری، مہنگائی اور معیشت کا جو مسئلہ ہے ان مسائل پر عوام نے ہمیں جو ذمہ داری دی ہے اسے بھر پور نبھائیں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مودی لہر کا اثر حیدر آباد کی سر زمین پر نہیں ہو ایہاں کی عوام خصوصاً مسلمان کافی بیدار نظر آئے انہیں اس بات کا علم ہے کہ اگر کوئی فرقہ پرست قوتوں سے لڑ سکتا ہے یا اسے حقائق جواب دے سکتا ہے تو وہ ہے اسد الدین اویسی، پارلیامنٹ ہو یا ٹی وی ڈبٹ وہ اپنی بات بطور دلیل کے بے باک طور سے رکھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ ملک کے بیشتر مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں خواہ وہ اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن وہ اتنے ذہین ضرور ہیں کہ سوال کرکے مسلمانوں کو ذلیل کرنے والے شخص کو مطمئن بخش جواب دے کر اسکا منھ چپ کرا ہی دیتے ہیںیہی وجہ ہے کہ حیدرآباد کے عوام کی وہ پہلی پسند ہیں۔ اسد الدین اویسی کے والد سلطان صلاح الدین اویسی بھی اپنے بے باک تقریر اور حلقے میں بہترکام کی بنیاد پر جانے اور پہچانے جاتے تھے۔ اسد الدین اویسی کی خوبی یہ بھی ہے کہ عام انسان سے اسی طرح ملتے ہیں جس طرح وہ وی آئی پی سے ملتے ہیں۔ انہوں نے ٹی آر ایس کی موجود ہ حکومت سے بھی اپنے جائز مطالبات کرکے انہیں مسلمانوں کے حق میں کام کرنے کے لئے دباﺅ بنایا۔ سی ایم کے سی آر بھی یہاں کے مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ یکساں سلوک کرکے فلاحی منصوبوں کو زمین پر اتارنے کا کام کیا۔ کے سی آر بھی یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اسد الدین جو بھی مطالبات کرتے ہیں وہ ریاست کے عوام کی فلاح کے لئے ہی ہوتا ہے۔
اسد الدین اویسی نے پی ایم مودی کی تاریخی کامیابی کی انہیں مبارکباد تو دی ضرور لیکن انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کر دیا کہ اتنی بڑی جیت کے پیچھے ای وی ایم کی کوئی ہیرا پھیری نہیں تھی بلکہ ملک کے عوام کے ذہن کی ہیرا پھیری کی گئی تھی انکے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ اقلیتوں سے اکثریت کو خطرہ ہے جو مضحکہ خیز کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اسد الدین اویسی آنے والے خدشات کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں آئین کی دھجیاں اڑائی جائیں گی، ملک کو رام راج بنانے میں کوئی کور کثر باقی نہیں رکھا جائے گا، اور مسلمانوں کی مذہبی ، تعلیمی، سیاسی اور اقتصادیات پرگہری نظر رکھی جائے گی، مسلمانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر جیلوں میں بھرا جائے گا، جیل مسلمانوں سے ہی بھرے پڑے ہونگے۔ بہر حال بیریسٹر اسد الدین اویسی کی خدشات اور بیانات اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس طر ح سے مودی لہر میں بھی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہی کہی جائے گی۔ حیدرآباد لوک سبھا سیٹ سے تو بیرسٹر اسد الدین اویسی کی جیت یقینی تھی لیکن مہاراشٹر کے اورنگ آباد سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار سید امتیاز جلیل کی شاندار جیت نے بھگوا قائدین کو حیرت میں ڈال دیا۔ مجلس کے بڑھتے قدم سے فرقہ پرست قوتیں پریشان دکھائی دے رہی ہیں انہیں اس بات کا ملال ہے کہ مودی لہر میں مجلس کے وکٹ گرنے کے بجائے پیچ پر کھلاڑی اور بھی مضبوطی کے ساتھ جم گئے ہیں۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار سید امتیاز جلیل نے اپنی جیت پر اورنگ آباد کی عوام کو مبارک باد دینے کے ساتھ ہی ساتھ بیرسٹر اسد الدین کی رہنمائی میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کا سہرا عوام اور بطور خاص اسد الدین اویسی کے سر باندھا۔ انہوں نے عوام کو یقین دلائی کہ وہ انکے مسائل حل کرنے میں رات دن محنت کریں گے۔ قابل ذکر ہے کہ چالیس سال بعد اس سیٹ پر کسی مسلم امیدار کو کامیابی ملی ہے اس سے قبل1980 میں سلیم قاضی کامیاب ہوئے تھے، اس طرح سے اورنگ آباد سیٹ سے شاندار کامیابی حاصل کرنے والے امتیاز جلیل دوسرے مسلمان ہیں۔ جنہوں نے مودی لہر میں بھی فتح کا پرچم لہرا دیا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس سے قبل مودی لہر نہیں تھی لیکن آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار اورنگ آباد سیٹ سے کامیاب نہیں ہوئے لیکن مودی لہر وہ بھی زبردست مودی لہر میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ذریعہ اورنگ آباد کی سیٹ نکال لینا اپنے آپ میں ایک تاریخی جیت ہی کہی جائے گی تو یہ بات صاف ہو گئی کہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین پر مودی لہر کوئی کام نہیں آیا۔