قیصر محمود عراقی
6291697668
دنیا میں بے شمار انسان رہتے بستے ہیں ،ہرایک کا مزاج دوسرے سے جدا ہے ، ہر انسان اپنی پیدائش کے ساتھ کچھ صلا حیتیں لے کر پیدا ہو تا ہے ، ان کو پروان چڑھاتا ہے اور ان کی بنیاد پر انسانوں کی بھیڑ میں اپنی ایک الگ پہچان بناتا ہے ۔ البتہ کچھ لوگ پر یشانیوں کی وجہہ سے اپنی صلاحیتوں کو پر وان چڑھانے میں کا میاب نہیں ہو پا تے ، جس کی وجہہ سے احساس کمتری کا شکار ہو جا تے ہیں اور جب وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے بہتر دیکھتے ہیں تو اس سے استفادہ کر نے کے بجائے اندھی تقلید میں مبتلا ہو جا تے ہیں ۔ یہ عقیدت انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی قوت کو ختم کر دیتی ہے اور وہ ذہنی طور پر غلام بن کر رہ جا تے ہیں ۔ وہ دنیا کی تمام چیزوں پر فیصلہ حق اور باطل ، جھوٹ اور سچ ، اندھیرے اور روشنی کی بنیاد پر نہیں کر تے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا محبوب شخص کس بات کو غلط کہہ رہا ہے اور کس بات کو صحیح؟ اس میں ان کی سوچنے سمجھنے کی ذاتی صلاحیت کا کوئی دخل نہیں ہو تا ۔ پھر ایسے لوگوں کا حال ایک چلتے پھر تے ڈھانچے کی مانند ہو کر رہ جا تا ہے، ظاہر ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے ، اس میں اور دیگر جانداروں میں حد فاصل اور فرق امتیاز ، غور و فکر اور تدبیر ہی تو ہے، اگر یہ بھی اس نے ختم کر دیا تو پھر اس کی انسانیت ہی کہاں باقی رہ جا ئے گی ۔
اگر غور کیا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ انسان اور دیگر چیزوں کے درمیان حد فاصل ’’ عقل‘‘ ہے ۔ یہی اللہ کی طرف سے عطا کر دہ وہ نعمت ہے جو اسے دیگر جانداروں سے ممتاز بناتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ، اسے اشرف المخلوقات بنایا اور اسے غور و فکر کی بیش بہا نعمت عطا فر مائی ۔ قرآن مجید میں اندھی پیروی سے منع کیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں تد برو تفکر پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ موجودہ دور میں شخصیت پر ستی اور مسلک پر ستی کافی زور و شور سے ہو رہا ہے کیونکہ لوگ یہ نہیں جا نتے کہ شخصیت پر ستی کیا ہے ؟ جبکہ ہر کسی کو جاننا چاہیئے کہ شخصیت پر ستی بنیادی طور پر ایک منفی طرز عمل ہے ، جس میں انسان حق و انصاف اور عقل و فکر کے تمام پہلوئوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں فیصلہ کسی شخصیت کی تقلید اور اس کی اندھی پیروی کی بنیاد پر کر تا ہے ۔ زندگی کے کسی بھی معاملے کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے ، آنکھوں پر پٹی چڑھا کر کسی کی پیروی کر نا ہی شخصیت پر ستی کہلاتا ہے ۔ دینی مسائل میں قرآن و سنت کو چھوڑ کر شخصیتوں کے اقوال کو اختیار کر نا اور ان کو قرآن و سنت کی میزان پر نہ تولنا انسان کے عمال کو تباہ و بر باد کر دیتا ہے ۔ جب لوگ شخصیت پر ستی میں مبتلا ہو جا تے ہیں تب وہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں ، پھر وہ ویسا ہی سوچتے ہیں اور ویسا ہی دیکھتے ہیں جیسا وہ ان کو دکھاتا ہے ۔ شخصیت پر ستی کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ ہم ایک طرح سے دوسروں کو خود سے بہتر قرار دیتے ہیں اور اپنی کا میابیوں اور ناکامیوں کو دوسروں کے ساتھ مشروط کر لیتے ہیں ، اپنی سوچ اور سمجھ کو بالائے طاق رکھ کر ہم دوسروں کی مر ضی و احکام کے مطابق چلتے ہیں ۔
شخصیت پر ستی حقیقت میں ’’ شرک ‘‘ کی ابتدائی سیڑھی ہے ۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو تا ہے کہ شرک کی ابتدا شخصیت پر ستی سے ہو ئی ہے ۔ گذشتہ اقوام میں جب کوئی نبی یا کوئی معزز شخص دنیا سے کوچ کر جا تا تھا تو ان کے پیرو کار اس کی یاد میں تصوریں اور مجسمے بناتے تھے اور دھیرے دھیرے ان کی تعلیمات کو بھلا کر صرف ان ہی کی مجسموں کی پر ستش کر نے لگتے تھے ۔ قرآن مجید میں سورہ نوح میں قوم نوح کے جن معبودوں کی تذکرہ آیا ہے ، یعود ، سواع ، یغوث ، یعوق ، نسر و غیرہ ۔ شخصیت پر ستی کی ایک بڑی وجہہ ’’ غلو‘‘ ہے ۔ اسے اسلام میں سخت ناپسند یدہ قرار دیا گیا ہے ۔ کسی شخص کی اتنی تعریف کر نا یا اس کی اتنی مذمت کر نا ، جس کی وہ مستحق نہ ہو ’’ غلو‘‘ کہلا تا ہے ۔ مثلا ً نصرانیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے معاملے اتنا غلو کیا کہ انہیں اللہ کا بیٹا قرار دے دیا ۔ شخصیت پر ستی کی ایک دوسری بڑی وجہہ دین سے عدم واقفیت ہے ۔ ہمارے سماج میں خاص طور پر مسلمانوں میںدین کی بہت سرسری معلومات ہو تی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے قرآن و سنت سے براہ راست ، استفا دہ ممکن نہیں ہے،چنانچہ وہ کسی شخصیت کی اپنا مقتدیٰ بنا لیتے ہیں،لیکن عموما ً ایسا ہو تا ہے کہ وہ اس شخصیت سے استفادہ کے بجائے اس کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں اور پھر یہ تقلید دھیرے دھیرے دین کی تقلید کے بجاے شخصیت کی تقلید اور دین تبلیغ کے بجائے شخصیت اور اس کی ترویج و اشاعت میں تبدیل ہو جا تی ہے ۔
اللہ کے رسول ﷺ کی حیات طیبہ کا جب ہم مطالعہ کر تے ہیں تو وہاں ہمیں یہ بات صاف طور پر دیکھنے کو ملتی ہے کہ آپﷺنے دین کے معاملے میں ہمیشہ اعتدال کی راہ کو اختیار کیا اور اپنے صحابہؓ کو بھی افراط و تفریق اور دین میں غلو کر نے سے منع فرمایا ہے ۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا بیا ن ہے کہ انہوں نے حضرت عمر فاروق ؓ کو منبر پر کہتے ہو ئے سنا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہو ئے سنا ہے ’’ تم لوگ میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کر نا جس طرح نصرانیوں نے عیسیٰ ؑ کے ساتھ کیا ۔ میں فقط اللہ کا بندہ ہوں ، مجھے اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول کہو ( بخاری شریف) ‘‘ ۔ اسلام ایک معتدل دین ہے ، اسلام کا یہ امتیازی وصف اس کے تمام گوشوںمیں پا یا جا تا ہے ۔ خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے ، اخلا قیات سے ہو یا سماجیات سے ْ۔ معاشیات سے ہو یا کسی اور شعبئہ حیات سے ہر جگہ اعتدال و تواز ن نمایاں ہے ۔ تقلید کے تعلق سے عوام ہی نہیں بلکہ ایک بڑی تعداد خواص کی بھی ایسی ہی ہے، جو غلو میں مبتلا ہے ۔ ایسے لوگ اپنے مسلک کی اس حد تک وکالت کر تے ہیں کہ کتاب و سنت کی بھی تاولیں کرنے سے گریز نہیں کر تے ۔
قرون اولیٰ میں مسلمانوں کا یہ عمل رہا ہے کہ وہ مسالک کے تعصبات سے پاک تھے ۔ جب انہیں کوئی بات معلوم نہیں ہو تی تھی تو وہ اہل علم سے رجوع کر تے تھے ، جن مسائل کے بارے میں انہیں علم نہیں ہو تا تھا ، انہیں کسی مستند عالمِ دین سے پوچھ لیتے تھے ، یہ جا نے بغیر کہ اس کا تعلق کس مسلک سے ہے لیکن آج لوگ مسلک کے معاملے میں تعصب سے کام لینے لگے ۔ خود کو اس بات کا مکلف بنا لیا جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں مکلف نہیں بنایا تھا ۔ مسلک کی اتباع میں انہوں نے اس حد تک غلو کیا کہ اپنے اماموں اور فقہا کو رسول کا درجہ دے دیا اور کتاب و سنت کی اتباع کو بالا ئے طاق رکھ دیا اور اس تعصب کی وجہہ سے آج کے لوگ حق سے کوسوں دور ہو تے جا رہے ہیں ۔ بلا شبہہ کسی متعین مسلک کی اتباع غلط نہیں ہے ، ،غلط یہ ہے کہ صرف اپنے ہی مسلک کو حق سمجھا جا ئے اور دوسرے مسالک کو غلط اور باطل ٹھہرایا جا ئے ۔ بات دراصل یہ ہے کہ آج اسلام کے پیرو کار دوسروں کے ہاتھوں یر غمال ہو کر اسلامی تعلیمات سے غافل ہو چکے ہیں ۔
آج موجودہ دور میں پوری دنیا میں جو مسلمانوں کے حالات ہیں ،ان حالات کو دیکھتے ہو ئے امت کے علما کرام، مذہبی رہنمائوںسمیت ہر فرد کی ذمہداری ہے کہ وہ شخصیت پر ستی کو چھوڑ کر اللہ اور اللہ کے رسول کے فرامین کے مطابق آپس میں متحد ہو کر اسلام کے دشمنوں ، تخریب کاروں پر کڑی نظر رکھیں اور اپنے اتحاد و اتفاق سے ان کے عزائم خاک میں ملا دیں ۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ علما اور ذاکر ین کسی بھی مذہبی اجتماعات میں تمام مسالک کے عقائد و نظریات کا احترام کریں اور اس زریں اصول کہ ’’ اپنے مسلک کو چھوڑ و نہ اور کسی کے مسلک کو چھیڑو نہ ‘‘ پر عمل پیرا ہوں۔ ملک میں امن کے فروغ کے لئے ہمیں چاہیئے کہ تمام اختلافات کو چھوڑ کر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور لوگوں تک اسلام کا صحیح پیغام پہنچا ئیں جس کا قرآن و حدیث ہمیں درس دیتا ہے ، جو نبی اکرام ﷺ کی ذات اقدس اور صحابہ کرام و اہلبیت اطہار سے ہمیں ملتا ہے موجودہ حالات میں اتحاد امت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ، اتحاد امت کے حوالے سے اہم کر دار تمام مسالک کو ادا کر نا ہو گا کیونکہ اس نازک گھڑی میں اختلافات سے دور رہنے کی اشد ضرورت ہے ۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر فاروق، ؓ امام حسین ؓ اور دیگر شہدائے اسلام نے امت مسلمہ کو ایک ہی پیغام دیا ہے کہ دین حق کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کی ضرورت پڑے تو دریغ نہ کر نا اور دشمن کے مقابلے کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنا ۔
قارئین محترم ! اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تم میںسے بہتر ین وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا محفوظ رہے ۔ اس پیغام نبوی پر اگر آج ہر مسلمان اور ہر مسلک کا فرد عمل شروع کر دے تو مسلم معاشرے میں امن بھی ہو گا اور فرقہ و اریت کی آگ بھی نہیں چل سکتی ۔ کیونکہ اختلافات کا آغاز زبان کی سختی اور غلط انداز میں استعمال کر نے سے ہو تا ہے ، اسی طرح ہاتھ کا غلط استعمال اور ہاتھ میں پکڑے قلم کے غلط استعمال سے بھی فرقہ واریت کو فروغ ملتا ہے ۔ لہذا اس نازک گھڑی میں اتحاد امت کے لئے اگر ہر منبر و محراب سے صدا بلند ہو تو یہ وقت کا اہم ضرورت ہے ۔ شخصیت پر ست لوگ اور مسلکی علما پر لازم ہے کہ وہ مسلک کے نام پر فتنہ و فساد بر پا کر نے ، نفرتیں اور انتہا پسندی پھیلا نے کی بجائے امن سلامتی ، اخوت و محبت اور بھائی چارگی کی فضا کو قائم رکھنے میں اپنا مثبت اور موثر کر دار ادا کر یں ۔ اتحاد امت اور ملی یکجہتی کا مظاہرہ کر تے ہو ئے ہر قسم کی فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیں جن کی وجہہ سے آج مسلمان آئے دن کمزور سے کمزور تر ہو تا جا رہا ہے ۔
٭٭٭