منی پور: اعتماد بحالی کے بغیر آگ بجھانے کا خواب

0
0

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

منی پور میں دو فرقوں کے درمیان 3 مئی سے شروع ہوئے تشدد کو 53 دن سے زیادہ ہو گئے ۔ جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 131 کی موت اور 419 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں ۔ جبکہ کانگریس نے زخمیوں کی تعداد تین ہزار بتائی ہے ۔ منی پور میں آگ زنی کے پانچ ہزار سے زیادہ واقعات اور لگ بھگ چھ ہزار معاملے درج ہوئے ہیں ۔ 144 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ پولس کے مطابق ریاست کے الگ الگ علاقوں سے دو ماہ کے دوران 1100 ہتھیار 13702 گولا بارود اور 250 بم ضبط کئے گئے ہیں ۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہاں 250 کلیسا آگ کے حوالے کئے گئے ۔ جبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق 317 کلیسا جن میں سے 100 صرف امپھال علاقہ میں جلائے گئے ہیں ۔ 41425 لوگوں کے بے گھر ہونے کا تخمینہ ہے ۔ جبکہ پچاس ہزار سے زیادہ لوگ ریلیف کیمپوں میں پناہ گزیں ہیں ۔ 1200 گاؤں کے باشندے مبینہ طور پر گھر بار چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں ۔ میتئی سماج کے ترجمان کے اوتھا بائے کا دعویٰ یے کہ 100 مندروں اور 2000 میتئی گھروں پر حملہ ہوا ہے ۔ پہاڑی علاقوں میں اب ایک بھی مندر نہیں ملے گا ۔ اس تشدد سے مرکزی وزیر اور اراکین اسمبلی تک محفوظ نہیں رہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ایمبولنس کو دو ہزار لوگوں نے حملہ کرکے جلا دیا ۔ جس میں تین لوگ زندہ جل گئے ۔ اس وقت منی پور دوحصوں میں بٹا ہوا دکھائی دیتا ہے ایک حصہ ککی اور دوسرا میتئی کے پاس ہے ۔ گھر برباد ہو گئے، گاؤں کے گاؤں تباہ ہو گئے، لوگ اجڑ گئے ۔ ایسا لگتا ہے کہ لمبے وقت کے لئے دراڑ پڑ چکی ہے ۔ تشدد کے بعد امپھال کا چراچندپور ملک کے باقی حصوں سے کٹ چکا ہے ۔ یہاں ککی سماج نے سبھی راستوں کو بند کر دیا ہے ۔ حالت یہ ہے کہ کسی بھی ککی پہاڑی علاقے میں جانے کے لئے حکومت سے نہیں ککی گارڈوں سے اجازت لینی پڑتی ہے ۔
رک رک کر ہو رہے نسلی تشدد سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا منی پور تصادم کے پرانے دنوں میں لوٹ رہا ہے ۔ بھارت کا حصہ بننے سے پہلے یہاں تشدد ہوتا رہا ہے ۔ دوسری جنگ عظیم میں تو جاپانی افواج نے دو سال تک بمباری کی تھی ۔ ناگاکینڈ، میزورم، آسام اور پڑوسی ملک میانمار سے گھری پہاڑیوں پر بسا منی پور اپنی خوبصورتی کے لئے جانا جاتا ہے ۔ جو شمال مشرق کی دوسری ریاستوں سے کافی الگ ہے ۔ منی پور کے قبائل اس کے کردار کو اور کمپلیکس بناتے ہیں ۔ قانونی طور پر بھلے ہی انہیں درج فہرست قبائل نا بلائیں لیکن وہ خود کو ایس ٹی ہی مانتے ہیں ۔ پھر ان کے اندر بھی کئی ذیلی قبائل ہیں ۔ جن میں آپسی تناؤ رہتا ہے ۔ 1997 میں ککی اور اس کے ذیلی قبیلے پائٹی میں زبردست تشدد ہوا تھا ۔ میانمار سے بھاگ کر یہاں آئے لوگوں کو چن کہا جاتا ہے ۔ ان کے ساتھ بھی چھوٹے موٹے اختلافات رہے ہیں ۔ مگر ان سب نے مل کر منی پور کو دوسری ریاستوں سے مختلف بنایا ۔ اس کی پہچان نیو ریفارمڈ سیف اسٹیٹ یعنی سدھار کی راہ پر آگے بڑھتی محفوظ ریاست کی بنی تھی ۔ جسے حالیہ تشدد نے منٹوں میں ختم کر دیا ۔ اب اسے پر تشدد واقعات کی وجہ سے جانا جا رہا ہے ۔
تنازعہ کی شروعات ہائی کورٹ کے اس فیصلہ سے ہوئی ۔ جس میں اس نے میتئی طبقہ کو درج فہرست قبائل کا درجہ دینے کی ریاستی حکومت سے سفارش کی تھی ۔ میتئی طبقہ کی دلیل تھی کہ جب 1949 میں منی پور بھارت میں شامل ہوا تھا ۔ اس سے قبل انہیں درج فہرست قبائل کا درجہ حاصل تھا ۔ ککی اور ناگا میتئی کو ایس ٹی کا درجہ دیئے جانے کے خلاف ہیں ۔ آل ٹرائبل اسٹوڈنٹ یونین منی پور نے اس کی مخالفت میں متحدہ قبائلی ریلی منعقد کی تھی ۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست کی 60 اسمبلی سیٹوں میں سے 40 پہلے سے ہی میتئ اکثریتی علاقہ امپھال وادی میں ہیں ۔ سیاسی طور اسی کا دبدبہ ہے ایسے میں ایس ٹی کا درجہ ملنے پر ککی اور ناگا کے حق پر بھی ان کا قبضہ ہو جائے گا ۔ جبکہ میتئی کو پہلے ہی ایس سی اور او بی سی زمرے کے تحت ریزرویشن مل رہا ہے ۔ ناگا ککی علاقہ میں صرف 20 اراکین اسمبلی آتے ہیں ۔ منی پور کے 12 وزیراعلیٰ میں سے صرف 2 ایس ٹی طبقہ سے ہوئے ہیں ۔ منی پور کی آبادی 38 لاکھ ہے یہاں تین طبقے خاص ہیں ۔ میتئی، ناگا اور ککی ۔ میتئی زیادہ تر ہندو ہیں ناگا اور ککی عیسائی مذہب کو مانتے ہیں ۔ آزادی کے بعد انہیں ایس ٹی کا درجی حاصل ہوا ۔ دس فیصد حصہ میں پھیلی امپھال وادی میں میتئی کی اکثریت ہے ۔ یہ کل آبادی کا 53 فیصد ہیں جن کے پاس محض دس فیصد زمین ہے ۔ جبکہ 40 فیصد آبادی والے ککی اور ناگا کا ریاست کے 90 فیصد رقبہ پر قبضہ ہے ۔ یہ نابرابری بھی ٹکراؤ کی وجہ بنی ہے ۔ ککی آبادی چار پہاڑی اضلاع میں بسی ہوئی ہے ۔ جہاں میتئی کو زمین خریدنے کا حق نہیں ہے ۔ زمین پر حق کا مسئلہ بھی جھگڑے کی ایک وجہ ہے ۔
میتئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے راجاؤں نے سالوں پہلے ککی کو جنگ لڑنے کے لئے میانمار سے بلایا تھا ۔ اس کے بعد یہ یہاں مستقل بس گئے ۔ یہ لوگوں نے روزگار کے لئے جنگل کاٹے اور افیم کی کھیتی کی ۔ اس سے منی پور ڈرگ تسکری کا ٹرائینگل بن گیا ۔ انہوں نے ناگا لوگوں سے لڑنے کے لئے ارمس گروپ بنایا ۔ 2008 میں مرکزی و ریاستی حکومت اور ان آرگنائزیشنز کے ساتھ شانتی سمجھوتہ ہوا ۔ جسے سسپینشن آف آپریشن (ایس او او) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس کے بعد بھی ان گروپوں نے غیر قانونی ذرائع سے کمائی جاری رکھی ۔سیاسی پارٹیاں ان سے مدد لینے لگیں ۔ جس کی وجہ سے ان کا حوصلہ بڑھ گیا ۔ 11 مارچ 2023 کو بیرین سنگھ حکومت نے اچانک اس معاہدہ کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ حالانکہ مرکزی وزارت داخلہ نے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کے اس قدم کی تردید کی تھی ۔ اس کے باوجود ریاستی حکومت نے سخت قدم اٹھاتے ہوئے افیم کی کھیتی برباد کی اور پہاڑوں سے انہیں بے دخل کیا جانے لگا ۔ اس سے ککی اور ناگا سماج کے لوگ ناراض تھے ۔ ہائی کورٹ کے فیصلے سے یہ ناراضگی آندولن میں بدل گئی ۔ ککی لوگوں کا الزام ہے کہ منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ اکثریت وادی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ انہوں نے بھیڑ کو نہیں روکا جو ککی سماج کے کلیسا، انسانوں، گھروں اور جائیدادوں پر حملہ کر رہے تھے ۔ یہ نسلی تشدد تھا لیکن بھارتیہ ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے چرچوں پر حملے کئے گئے ۔ فادر ہاؤپک تھونگ کھوسے کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے لئے بہت مشکل دور تھا ۔ منی پور کے لوگ کھبی بھی کٹروادی نہیں رہے ۔ ایک دور تھا جب راج شاہی کے وقت ہندو مذہب کو یہاں تھوپا گیا تھا ۔ لیکن وہ لمبے وقت نہیں چل سکا ۔
اس تشدد میں دونوں سماجوں کے لوگ متاثر ہوئے ہیں ۔ دونوں کا بڑے پیمانے پر جانی، مالی نقصان ہوا ہے ۔ لیکن اس کا انتہائی شرمناک پہلو یہ ہے کہ دونوں طبقات کو ان کے حامیوں نے جدید آٹومیٹک ہتھیار فراہم کئے ۔ جدید اسلحہ اور گولا بارود کی آسان دستیابی نے ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی راہ ہموار کی ۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ منی پور میں دو طبقوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو ہتھیار استعمال کئے وہ وردی دھاری حفاظتی دستوں تک کو مہیا نہیں ہیں ۔ ککی کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کے تحفظ میں کچھ ہتھیار بند گروپ ککی سماج کے لوگوں پر حملے کر رہے ہیں ۔ بی جے پی کے ککی اراکین اسمبلی وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ پر ککی مخالف ہونے کا الزام لگا رہے ہیں ۔ وہیں آر ایس ایس سے جڑے لوگوں کا الزام ہے کہ منی پور تشدد کے پیچھے کلیسا کا ہاتھ ہے ۔ ہندو میتئی سماج کو اقلیت بنانے کی سازش چل رہی ہے ۔ اپریل میں شورش پسند میتئی گروپ کے چیف میتئی لیپون نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ جنگل کو کاٹ دو، ندیوں کو خشک کردو، انہیں ختم کردو ۔ آؤ ہم پہاڑیوں پر اپنے روایتی مخالفوں کاصفایہ کریں اور اس کے بعد امن سے رہیں ۔
ریاستی حکومت نے ان کے یا شر پسندوں کو اسلحہ فراہم کرنے والے افسران کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ۔ خود وزیر اعلیٰ نے اپنے فیس بک پیج پر ککی کو جنگلی اور غیر قانونی مہاجر کہا تھا ۔ انہوں نے میتئی لوگوں کو مشتعل کیا لیکن ان کی بھی حفاظت نہیں کر پائے ۔ ان کے اقدامات نے قبائل کو الگ تھلگ کر دیا ۔ ساتھ ہی عوام کو حمایت میں لئے بغیر حکومت نے سخت پالیسیوں کو آگے بڑھایا ۔ سبھی غیر قانونی مہاجروں کو باہر نکالنے کے اعلان سے ناراضگی اور خوف پیدا ہوا ۔ اس کے نتیجہ میں بیرین سنگھ حکومت کو کسی کا بھی بھروسہ حاصل نہیں ہے ۔ تشدد کے دوران اس کے اعلیٰ افسران سین سے غائب رہے ۔ قانون انتظامیہ کی ذمہ داری صلاح کار اور باہر سے بھیجے گئے افسران نے نبھائی ۔ ریاست میں 36 ہزار حفاظتی اہلکار اور 40 آئی پی ایس افسران طیعنات ہیں ۔ خود وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ ان ناپسندیدہ واقعات کو روکنے میں ناکام رہنے کا اعتراف کر چکے ہیں ۔ ایسے میں انہیں وزیر اعلیٰ کے عہدے سے خود دست بردار ہو جانا چاہئے ۔ مرکزی حکومت ان سے استعفیٰ لے یا پھر ان کی حکومت کو برخواست کر صدر راج نافذ کیا جائے ۔
حکومت کی ناکامی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ریاست میں تنازعہ اور عدم اعتماد کی جڑیں گہری ہیں ۔ دوسری جانب مختلف نسلی گروہوں کے درمیان امن کے قیام کے لیے بنائی گئی امن کمیٹی کی تشکیل کے عمل کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات مسئلے کی پیچیدگی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ککی طبقہ کے لوگوں کا اعتماد حاصل کیے بغیر امن کی کوششیں کرنا مشکل ہوگا ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ سرحدی ریاست کئی زاویوں سے بہت حساس ہے ۔ یہاں کی محاذ آرائی کی گرمی پڑوسی ریاستوں میں بھی پھیل سکتی ہے ۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ ککی سماج کے لوگ امن کمیٹی کے پینل میں وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ اور ان کے حامیوں کی موجودگی کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ ککی سماج کے دس ارکان اسمبلی ہیں ان میں سے زیادہ تر بی جے پی کے ممبر ہیں ۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ سے میٹنگ کرنے سے بھی انکار کردیا ہے ۔ ان کا موقف ہے کہ ککی طبقہ کے خلاف مہم چلانے والی تنظیموں کے لوگوں کو ان کی مرضی کے خلاف امن کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے ۔ ککی بیرین سنگھ کی موجودگی میں امن کمیٹی کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہیں ۔ مرکزی حکومت کی طرف سے گورنر کی سربراہی میں بنی کمیٹی کے 51 ارکان کے بارے میں تمام فریقین کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔  دوسری جانب ککی سماج کے لوگوں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت مداخلت کرے اور بات چیت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں مدد کرے ۔ ککی کا مطالبہ ہے کہ آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت الگ انتظامی کونسل بنائی جائے ۔ کئی ریاستوں میں پہلے سے یہ نظام موجود ہے ۔ میگھالیہ میں اسی کے تحت ضلع کونسل بنے ہوئے ہیں ۔ آسام میں دیماہساؤ کاعبی آنگلونگ، مغربی کاربی اور بوڈو علاقائی خطہ کے پہاڑی ضلع بھی کچھ حد تک خود مختار ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں طبقات کا اعتماد بحال کیا جائے ۔ مرکزی حکومت اس مسئلہ پر آل پارٹی میٹنگ کر چکی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ امن قائم کر مسئلہ کا مستقل حل نکالنے کے لئے کیا قدم اٹھاتی ہے ۔ دونوں طبقات سے بات چیت کر اعتماد بحال کرنا ایک اچھا آپشن ہو سکتا ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا