غالب اکیڈمی کی نشست میں شرکا کا اظہار خیال
گزشتہ روز غالب اکیڈمی ،نئی دہلی میں ایک نثری نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر جی آر کنول نے کی۔ اس موقع پر چشمہ فاروقی نے’’دوستی‘‘ رخشندہ روحی نے تیری خاموشی ہے ابھی‘‘ افسانہ پڑھا۔ ڈاکٹر جی آر کنول نے اپنی صدارتی تقریر میں منوررانا کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار اردو اکادمی کے جشن جمہوریت کے مشاعرے بارش ہونے لگی تو لوگ جانے لگے۔منتظمین نے فوری طور پر نواز دیو بندی اور منور رانا کو دعوت سخن دینے کا اعلان کیا۔منوررانا کی آواز سنتے ہی لوگ جہاں تھے وہیں کھڑے ہوکر سننے لگے۔منور رانا عام آدمی کا عظیم شاعر تھا۔ان کے یہاں صاف گوئی تھی۔اس موقع پر خورشید حیات نے اپنا افسانہ ’’پہاڑ ندی عورت‘‘ سنایا اور کہا کہ منور رانا کی شاعری میں ماں کا استعمال بہت ہوا ہے۔وہ سچ بولنے میں معاہدہ نہیں کرتے تھے۔ وہ ایک بڑے شاعر تھے۔ انہوں نے رخشندہ روحی کے افسانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کہانی دلی اور مڈل ایسٹ کے درمیان پھنس گئی ہے،ان کے یہاں کہانی دو دوچار نہیں ہوتی بلکہ دو دو پانچ ہوتی ہے۔ان کی کہانیوں میںنسوانی آواز ہوتی ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر شاداب تبسم نے’’منور رانا کی زندگی اور شاعری پر ایک مضمون پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ منور رانا نے اپنی شاعری میں ماں اور بیٹی کی عظمت کو بیان کیا ہے۔وہ بہت ذہین اور نڈر انسان تھے۔ان کے یہاں ملکی حمیت خوب گرجتی ہے وہ شاعری میں زندگی کی ناہمواریوں کو بڑی جرأت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔مشاعروں کے اسٹیج پر ہمیشہ ان کا سکہ چلتا رہا۔ان کی موجودگی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔وہ ایک عظیم شاعر تھے وہ سامعین کے دلوں پر راج کرنے والے شاعر تھے۔اس موقع پر ڈاکٹر حناآفرین نے ’’تحریک آزادی کا علمبردار حسرت موہانی‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون پڑھا۔جس میں انہوں نے تحریک آزادی کے حوالے سے حسرت موہانی کی خدمات کی تفصیل پیش کی۔انہوں نے کہا کہ حسرت موہانی کانگریس کے گرم دل کے نظریہ سے متاثر تھے انہوں نے انقلاب زندہ باد کانعرہ دیا۔ اس موقع پر متین امروہوی نے ’’نامورانِ امروہہ ‘‘کتا ب پر ایک مضمون پڑھا۔ ہندی کے ادیب گولڈی نے ’’امراکبر انتھونی‘‘ کے نام سے ایک کہانی پیش کی اور پروین ویاس نے اس پر اظہار خیال کیا۔اس موقع پر سیما کوشک نے بھی کہانی پیش کی۔اس موقع پر ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ منور رانا عظیم شاعر اور بہت اچھے نثر نگار تھے۔ان کے مضامین کا مجموعہ سفید جنگلی کبوتر شائع ہوا ہے جس کی فہرست میں وہ عنوانات کے ساتھ مضامین کا تعارف بھی پیش کرتے ہیں۔14؍ جنوری2024کو ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے سے اردو کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔نشست میں نارنگ ساقی،شوکت مفتی،سید محمد اقبال،شری کانت کوہلی،احترام صدیقی،رضیہ حیدر خاں،محمد خلیل،عزیزہ مرزا، شہلا احمد،سرفراز فرازموجود تھے۔