منفی سیاست کے سبب بنتے دو بھارت!

0
0

کلیم الحفیظ، نئی دہلی

بھارت کی عظمت اور اس کا وقار پوری دنیا میں تسلیم شدہ ہے۔ اگر آج کوئی بھارت کی عظمت کو تسلیم کرتا ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ تعجب اور خوشی کی بات یہ ہے کہ چودہ سو سال قبل ہمارے آقانے جو باتیں کہی تھیں اس حوالے سے شاعر اسلام نے بھارت کی عظمت کا قصیدہ گاتے ہوئے کہا
’میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا چمن وہی ہے میرا چمن وہی ہے۔
اتنا عظیم ملک جس کی طرف پوری دنیا کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہوں، جس کی عظمت کی طرف اللہ کے محبوب نے اشارہ کیا ہو،اگر اس پر خزاں کے بادل چھائیں تو سب سے زیادہ ان لوگوں کا بے چین و بے قرار ہونا لازمی ہے جو آقا کے ماننے والے ہیں۔ ہمارے ملک کی جوحالت ہماری سرکاریں دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہیں وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ وہ خود کو راشٹروادی کہتی ہیں۔ بھارت کودنیا کا قائد بنانے کی بات کرتی ہیں، لیکن عمل بالکل اس کے برعکس ہے۔ وہ سماج کے ایک اہم طبقے پر الزامات کی بارش کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ ان کیلئے دو ہی جگہ ہے یا تو قبرستان یا پاکستان، لیکن میری نظر میں ان کا راشٹر واد جھوٹا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی سے بڑے راشٹر وادی یہ ہو ہی نہیں سکتے، جنہوںنے کہاتھا
’تیری اک مشت خاک کے بدلے،
لوں نہ ہرگز اگر بہشت ملے‘۔
ان مسلم بادشاہوں سے بڑے وطن پرست بھی یہ نہیں ہو سکتے جن کے اقتدار میں دنیا کی کل جی ڈی پی میں بھارت کی حصہ داری ۶۲ فیصد سے زیادہ تھی۔ ہاں!اگر یہ کہاجائے کہ یہ راشٹر واد اور مذہبی افیم کی آڑ میں ملک کی دولت کو لوٹ کر چند لوگوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں اور ملک کی عوام کو اس چڑیا کی مانند کرنا چاہتے ہیں جس کے سبھی پنکھ توڑ کر اس کو اپاہج بنا دیا جائے، پھر ظالم اس سے کہے اڑ جا۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ اڑ نہ سکے گی اور اسی ظالم کے آسرے جینے کیلئے مجبور ہوجائے گی۔ جب ظالم اس کو دانہ پانی دے گا تو پھر وہ اس ظالم کا شکر اداکرے گی کہ کم از کم دو وقت کی روٹی تو ملی اور ہمیشہ اسی ظالم کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتی رہے گی۔
ہمارے رہنمائوں کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ پہلے انہوں نے عوام کو اُس ملک سے ڈرایا، جس کا دنیا کے نقشے پر کوئی اہم وجود نہیں ہے۔جو ورلڈ بینک کا پوری طرح سے مقروض ہے۔ اب آپ تصور کیجئے کہ اگر ہمارا بنچ مارک ایسا ملک ہوگا تو ہم ترقی کی دوڑ میں کس قدر آگے بڑھ سکیں گے۔ اگر ہمارا میڈیا یہ پرچار کرے گا کہ پاکستان بھوکھا ہے، پاکستان ننگا ہے، پاکستان میں ٹماٹر ہزار روپیہ کلو ہے۔ ایسے میں اگر ہمیں دو وقت کی روٹی ہی مل جائے گی تو ہم تو یہ کہیں گے ہی کہ ہم پاکستان سے بہتر ہیں۔بدقسمتی اس بات کی ہے کہ جب ہمارے اپوزیشن نے ہی عوام کو یہ نہیں بتایا کہ پاکستان سے ہمارا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔نہ ہی اپوزیشن نے یہ بتایاکہ ہمارا مقابلہ چین، امریکہ اور جاپان جیسے ممالک سے ہے۔ وہ ہمارے بنچ مارک ہیں۔ ہمیں ان کو پچھاڑ کر صوفی سنتوں، رشیوں منیوں اور پیروں پیغمبروں کے اصولوں پر دنیا کی قیادت کرنی ہے۔ ہم سرکار سے اس کی توقع کر ہی نہیں سکتے کہ وہ عوام کو ایسی بات بتائے گی۔ گودی میڈیا کے تو کیا کہنے، وہ تو پوری طرح سے روگ گرست ہے۔
جس تیزی کیساتھ ہمارے یہاں دو بھارت بنتے جارہے ہیں، مذہبی جنون کی آڑ میں وقتی طور سے اس کے خطرات کو کم تو کیا جا سکتا ہے۔اس کو وقتی طور سے کچھ دیر کیلئے ای ڈی، سی بی آئی یا کوئی ڈی دکھا کر دبایا بھی جاسکتا ہے، لیکن ٹالا نہیں جاسکتا ہے، کیونکہ جب بربادی کو ڈھول نگارے کیساتھ دعوت دی جارہی ہو،تو بہر حال وہ آکر رہے گی۔ قدرت بھی انہیں کی حفاظت کرتی ہے جو اپنی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ جو یمنا ندی میں کود کر خود کشی کرنا چاہتے ہیں ان کو بہر حال کسی بھی طرح بچایا نہیں جا سکتا ہے، اس لئے کہتے ہیں کہ ’بانھے بنیا بزار نائی لاگت‘ مطلب بنیا سے زبردستی آپ بازار نہیں لگواسکتے ہیں۔
آج جس طرح سے بے روز گاری گذشتہ چالیس، پینتالیس سالوں میں سب سے خطرناک سطح پر پہونچ گئی ہے، اس سے آپ آنکھ نہیں موند سکتے۔ ہر روز میڈیا میں یہ خبر آرہی ہے کہ ہزاروں کی تعد اد میں پی ایچ ڈی کرنے والوں نے ڈی گروپ کی ملازمت کیلئے درخواست دی ہے اورسرکار ہے کہ اس نوکری کو بھی ختم کرنے کے در پہ ہے۔ میک ان انڈیا کا نعرہ بہت اچھا ہے۔ یہ نعرہ امبانی اور اڈانی کیلئے بہتر بھی ہے، لیکن عام آدمی کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ کہنے میں بہت اچھا لگتا ہے کہ ہم نوکری دینے کی جگہ نوکری دینے والے افراد پیدا کررہے ہیں، لیکن زمینی سچائی بالکل اس کے برعکس ہے۔ ہمیں جملوں سیآگے بڑھنا ہی ہوگا۔ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ کالا دھن لائیں گے، لائے ہیں چیتا۔ یہی اس سرکار کی نا اہلی ہے۔چاہیے راشن، دیں گے بھاشن، چاہئے نوکری، دیں گے نوٹنکی‘۔ اس لئے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اسی لئے شاید پریم چند جی کو برسوں پہلے اس ڈھونگی راشٹر واد کا احساس ہو گیا تھا۔اور انہوںنے ایسے راشٹر واد سے متنبہ بھی کیا تھا۔ خود روٹی اور مذہب کے رشتے کو سوامی وویکا نند جی نے بھی واضح کر دیا ہے۔ راشٹرواد کی آڑ میں ایسا مذہبی افیم پلایا گیا کہ آج ہم گلوبل ہنگر انڈیکس میں دنیا کے ۶۱۱ ممالک کی فہرست میں ۱۰۱مقام پر ہیں۔ بھارت کو ان ممالک کی فہرست میں رکھا گیا ہے جنکی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔گذشتہ سال ۷۰۱ ممالک کی فہرست میں ہم ۴۹ نمبر پر تھے۔مطلب واضح ہے کہ ہر روز معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ آپ تصور کیجئے کہ ہم افغانستان، نائجیریا اور موزمبیق جیسے ممالک کی فہرست میں ہیں۔پھر کیسے ہم دنیا کی قیادت کرسکتے ہیں؟ ہم سے بہت بہتر ان کی صورتحال ہے جن سے ہم کو روز ڈرایا جارہا ہے۔ پاکستان ۲۹ مقام پر ہے۔ وہ ملک جو ہماری مہربانیوں سے وجود میںآیا وہ ۶۷ ویں مقام پر ہے اور جو ہم سے ثالثی کی بات کررہا ہے وہ (نیپال) ۶۷ ویں مقام پر ہے۔ مذکورہ بالا صورتحال قومی سطح پر ہے۔ ابھی ہم نے ماضی میں دیکھا کہ کیسے بچے نے بھات بھات کہتے ہوئے دم توڑ دیا۔
آکسفیم انڈیا کی رپورٹ کہتی ہے کہ امتیاز ی سلوک کا اثر یہ ہیکہ’مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلمان ہر ماہ ۷ہزار زیادہ کماتے ہیں‘اسی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد جیلوں میں آباد ی سے دوگنے سے بھی زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق کووڈ کی بیماری کے دوران سب سے زیادہ مسلمان بے روزگار ہوئے۔ کووڈ کی پہلی سہ ماہی میں مسلمانوں کی بے روزگاری میں ۷۱فیصد کا اضافہ ہوا۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ۹۱۰۲ اور ۰۲۰۲ میں شہری مسلمان باقاعدہ تنخواہ والی ملازمتوں میں ۵۱پوائنٹ پانچ فیصد تھے جبکہ ہندئوں میں یہ ۳۲پوائنٹ تین فیصد تھا۔ یہی صورتحال غیر دلت اور غیرآدیواسیوں کے مقابلے، دلت اور آدیواسیوں کی ہے۔
بار بار ہمیں کہا یہ جارہا ہے کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ اس سے ہندئوں کو ڈرایا جارہا ہے، جبکہ آزادی کے وقت سے ہندئوں کی آبادی تیس کروڑ پچاس لاکھ سے بڑھ کر آج ۲۱۱ کروڑ ہوگئی ہے اور مسلمانوں کی آبادی چار کروڑ سے بڑھ کر ۰۲ کروڑ پر پہونچی ہے اور بھارت کی کل آبادی ۰۴۱کروڑ ہے۔ خود ارجن منڈا صاحب نے یہ بات کہی ہے کہ ہمیں آبادی کو اسٹ کے طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چالیس سال بعد ہماری صورتحال ایسی ہوسکتی ہے کہ ہم یورپ کے کچھ ممالک کی طرح بچہ پیدا کرنے کیلئے انعام کا اعلان کریں۔ ہمارے رہنمائوں نے اسی منفی پروپیگنڈہ کی آڑ میں ہندوستان کو ہنگر انڈیکس میں پاکستان سے بھی خراب بنا دیا اور اپنے متر اڈانی کو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا امیر بنا دیا۔ ان کے قرض کو این پی اے میں بدلا جارہا ہے۔ کسان کے قرض کو اس کی زمین بیچ کر ادا کرنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے۔ ان کے ارادے اتنے خطر ناک ہیں کہ ملک میں خودکشی کی شرح 1967کے بعدآج سب سے زیادہ ہے۔ توازن اس حدتک بگڑ چکا ہے کہ ملک کے ۳۳ فیصد ویلتھ پر ایک فیصد لوگوں کا قبضہ ہے، جبکہ دس فیصد لوگوں کا ۰۶ فیصد سے زیادہ ویلتھ پر قبضہ ہے۔ نیچے کے پچاس فیصد لوگوں کے پاس چھ فیصد بھی ویلتھ نہیں ہے۔ اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جاگیں اور سرکار وں کو مجبور کریں کہ وہ عام آدمی کی فلاح کے پروجیکٹ چلائیں اور ملک سے غریبی بے روزگاری اور بھکمری کا خاتمہ کریں، تاکہ مجاہدین آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو اور یہی اصلی راشٹر واد ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا