۰۰۰
محمد نعیم خان
۰۰۰
میاں بیوی کی اپس میں تلخ کلامی، گالی گلوچ، اور تو تو میں میں سے اولاد کے معصوم دماغ پر برا اثر پڈتا ہے۔ تین سے نو سال کا بچہ ماں باپ کے جھگڑے کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور احتجاج کے طور پر رونا دھونا شروع کرتا ہے۔ لیکن جب بچہ دس گیارہ سال کا ہوتا ہے، وہ رونا دھونا بے عزتی سمجھتا ہیاور اس تناو یا بیچینی کا ازالہ کرنے کے لیے بر آمدے، ورنڈا پر آکر کچھ دیر سکون اور آرام حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو اسے نہیں ملتا ہے۔
آخر کار وہ گھر سے باہر نکل کر ان جگہوں کی تلاش کرتا ہے جہاں اسے ہم مرتبہ ساتھیوں کی صحبت حاصل ہو، پہلے پہل وہ ہلکا نشہ (بیڈی، سگریت وعیرہ)کرکے تناو، بیچینی میں کمی اور آرام و سکون محسوس کرتا ہے۔ دھیرے دھیرے نشہ اسکی تفریح اور بعد میں ضرورت و مقصد حیات بن جاتا ہے ماں باپ کی آپس میں تلخ کلامی، لعن طعن، گالی گلوچ سے اولاد کے دل و دماغ پر برا اثر پڈتا ہے، اس تناو سے بچنے کی خاطروہ منشیات کا اس قدر عادی ہو جاتا کہ اس بری عادت سے جان چھڈانا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن بن جاتا ہے۔ چار پانچ سال کے بعد جب والدین کو پتہ چلتا ہے تب بات بگڈ چکی ہوتی ے۔ اب بری صحبت اور منشیات (مدھر زہر) سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ منشیات کا عادی اس درد کرب سے لمحہ لمحہ مرتا رہتا ہیوالدین کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں اور کسی اور کو مورد الزام ٹھرانے کے بجائے خود کی ملامت کرنی چاہیے کہ کہیں انکی اولاد کے برباد ہونے (مستقبل تاریک ہونے) میں سب سے زیادہ عمل دخل والدین کا ہی تو نہیںکسی بھی ملک کا سب سے عظیم قومی سرمایہ نیی نسل ہوا کرتی ہے ہنرمند افرادی قوت ملک کی ترقی کا ضامن ہے۔ ترقی یافتہ اقوام سب سے زیادہ توجہ نوجوان نسل پر مرکوز کرتے ہیں۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ملک کو ترقی کے راستے پر استوار کرنے میں سب سے اہم رول نوجوان نسل کا ہے
تعلیمی، معاشی، اقتصادی اور سماجی فلاح و بہبود وترقی میں نیی نسل کا کردار ناگزیر ہے۔ مہزب اور متمدن معاشرے کی تشکیل کا مقدر بھی نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہے۔ جوانی قدرت کی وہ عظیم نعمت ہے جس میں انسان اپنے حوصلے اور ہمت سے بڈے چلینجوں کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت اور قوت رکھتا ہے۔ گویا نئی نسل ملک کے مستقبل کی ہمہ گیر ترقی میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا نئی نسل کے ہاتھوں میں خدا کے احکام کی تختی اور اس کے لکھنے کا قلم قدرت ہوتا ہے جس سے وہ لکھ سکتے ہیں۔ شومی قسمت نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے نئی نسل بہت تیزی سے منشیات کی لپیٹ میں آرہی ہے، طبعی ماہرین کے مطابق دس سے تیس فیصد اسکول جانے والے طلباء نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا پھر وہ دن دور نہیں ہے جب ہماری نیی نسل کے مستقبل کو تاریک ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا پچھلی تین چار دہاییوں سے وادی میں حالات چونکہ دگرگوں ہیں، نتیجتاً وادی کے عوام کئی لاعلاج اور مہلک امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں، ان بیماریوں کا نام پہلے کبھی سننے میں نہیں آتا تھا۔ نفسیاتی امراض میں حیران کن حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ سیاسی، سماجی مسائل نے نیی نسل کے ذہنوں میں انتشار پیدا کیا ہے۔ بے روزگاری کے مسائل سے تنگ آکر زندگی سے راہ فرار اختیار کرنے کی خاطر ہماری نوجوان نسل میں منشیات اور دیگر نشہ آور ادویات کا استعمال دن بدن زور پکڑتا جارہا ہے اسے پہلے کہ منشیات کا استعمال ہماری نیی نسل کا مستقبل تباہ و برباد کردے، یہ نہ صرف حکومت کی زمہ داری ہے بلکہ طبعی برادری، مزہبی تنظیموں، عالموں، ادیبوں، شاعروں، دانشوروں غرض سماج کے ہر ذی شعور فرد کی زمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے میں اپنا کردار نبھائیں۔ یہ انکی سماجی زمہ داری بھی ہے اور مزہبی فریضہ بھی
وما علینا الالبلاغ