ممتا کا مارچ، بیہودگی، بے شرمی کا مارچ: بی جے پی

0
0

نئی دہلی، 19 اگست (یو این آئی) بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مغربی بنگال میں آر جی میڈیکل کالج کی طالبہ کے ساتھ ہونے والے بربریت کے معاملے میں آج وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے مارچ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ذمہ داری میں ناکام رہی ہیں۔ محترمہ بنرجی نے ‘بے حیائی اور بے شرمی کا مارچ’ نکالا ہے۔
بی جے پی کے قومی ترجمان گورو بھاٹیہ نے یہاں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی سربراہ اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی حکومت میں مغربی بنگال میں خواتین، ڈاکٹرز اور عام لوگ غیر محفوظ ہیں، جو کہ بہت تشویشناک بات ہے۔ . مغربی بنگال پولیس نے ایک خاتون ڈاکٹر کے اجتماعی عصمت دری اور وحشیانہ قتل کے معاملے کی تفتیش نہیں کی کیونکہ دیگر گرفتاریاں ہونی تھیں اور ممتا بنرجی حکومت عصمت دری کرنے والوں کو گرفتار نہیں کرنا چاہتی تھیں ۔ اس کے باوجود ممتا بنرجی بے حیائی اور بے شرمی کے ساتھ احتجاجی مارچ نکالتی ہیں۔ اگر وہ مارچ کر رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ناکامی کا خود ہی اعتراف کر رہی ہیں ۔
مسٹر بھاٹیہ نے کہا کہ ایک طرف جہاں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی ) میڈیکل کالج کے پرنسپل سے آر جی کر میڈیکل کالج میں ہوئے گھناؤنے جرم کے معاملے میں پوچھ گچھ کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف محترمہ ممتا بنرجی کے بے رحمانہ طرز عمل پر پورے ملک میں غم و غصہ ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے پاس وزارت داخلہ اور محکمہ صحت کا چارج بھی ہے۔ اس پریس کانفرنس کا مقصد انصاف، استعفیٰ اور اقبال ہے۔ جس خاتون ڈاکٹر کے ساتھ گھناؤنا جرم کیا گیا ان کے اہل خانہ کو انصاف ملنا چاہیے۔ ممتا بنرجی کو استعفیٰ دے دینا چاہیے، کیونکہ مغربی بنگال سمیت پورے ملک کی خواتین، ڈاکٹر اور وکلاء ناراض اور مشتعل ہیں۔
بی جے پی کے ترجمان نے کہا ’’ایک طرف ممتا بنرجی ہیں، جنہیں ’’بے رحم بنرجی‘‘ کہا جانا چاہئے کیونکہ وہ مجرموں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ممتا بنرجی نے ایسے پرنسپل کو عزت دی جس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ ممتا بنرجی آئین اور قانون کی پیروی نہیں کر رہی ہیں۔ کولکتہ کے ڈاکٹر ریپ اور قتل کیس میں ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا بلکہ خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور وحشیانہ قتل کیس میں اہم شواہد کو بھی تباہ کر دیا۔ جس بیٹی کے ساتھ یہ گھناؤنا جرم کیا گیا وہ بہادر تھی، اس نے اپنی شناخت بچانے کی جدوجہد کی، لیکن ممتا بنرجی کا قانون غائب تھا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ممتا بنرجی سے سوال کرتی ہے کہ آج ممتا بنرجی کو ‘ڈیسٹرائر آف ایویڈینس’ کیوں کہا جا رہا ہے۔ جب کوئی جرم ہوتا ہے تو پہلے 48 گھنٹے سب سے اہم ہوتے ہیں، کیونکہ پولیس شواہد اکٹھا کرتی ہے۔ ممتا بنرجی نے اس معاملے میں تحقیقات کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
ممتا بنرجی کا بیان تھا کہ یہ کیس سی بی آئی کو ‘اگر’ منتقل کیا جائے گا۔ یہ ‘اگر، لیکن’ کیوں کیا گیا؟ ممتا بنرجی نے فوری ایکشن کیوں نہیں لیا اور اس کیس کو سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو کیوں منتقل نہیں کیا؟ کولکتہ ہائی کورٹ کے حکم پر جانچ سی بی آئی کو سونپی گئی تھی۔ ممتا بنرجی کے کہنے پر مغربی بنگال پولیس نے متوفی کے اہل خانہ سے جھوٹ کیوں بولا؟
مسٹر بھاٹیہ نے کہا کہ متاثرہ کی ماں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ‘پہلی کال میں کہا گیا تھا کہ آپ کی بیٹی بیمار ہے۔ دوسری کال کی گئی تو بتایا گیا کہ آپ کی بیٹی نے خودکشی کر لی ہے۔ جب ہم اسپتال پہنچے تو تقریباً 3-4 گھنٹے انتظار کرنے کے بعد بھی ہمیں اپنی بیٹی کی لاش دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
مسٹر بھاٹیہ نے کہا کہ مقتولہ کی والدہ کا پورا بیان نہیں پڑھا جا سکتا کیونکہ یہ سفاکیت کا ثبوت ہے۔ اس واقعے میں پرنسپل، جنہیں فوری طور پر معطل کیا جانا چاہیے تھا، کو واقعہ کے 12 گھنٹے کے اندر کولکتہ میں دوبارہ پوسٹنگ دیدی گئی، جس کے لیے کولکتہ ہائی کورٹ نے ممتا حکومت کی سرزنش کی ہے۔ مقتولہ ڈاکٹر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ ظلم کسی ایک شخص نے نہیں کیا، اس میں بہت سے لوگ ملوث ہیں۔ لیکن جب تک یہ کیس بنگال پولیس کے پاس تھا، انہوں نے اس کیس کی گینگ ریپ کے طور پر تفتیش نہیں کی۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ دوسرے مجرموں کو گرفتار کر نہ کرنا پڑے ، کیونکہ ممتا بنرجی حکومت کسی کو گرفتار نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ عصمت دری کے بعد قتل کے معاملے میں پوسٹ مارٹم بہت اہم ثبوت ہوتا ہے لیکن کسی اور اسپتال میں کرانے کے بجائے آر جی اسپتال میں ہی جلد بازی میں پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ جبکہ اس وقت میڈیکل کالج کا پرنسپل وہی شخص تھا، جس نے اس واقعہ کی ایف آئی آر تک درج نہیں کروائی اور واقعہ کو قدرتی موت قرار دے کر اسی شخص کی نگرانی میں پوسٹ مارٹم کروایا گیا ۔
مسٹر بھاٹیہ نے کہا کہ متوفی خاتون ڈاکٹر کے جسم پر چوٹوں کے 15 نشانات پائے گئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اجتماعی عصمت دری کا امکان ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ متاثرہ کے جسم سے 150 ملی گرام منی بھی ملی ہے جس سے اجتماعی زیادتی کے امکان کو مزید تقویت ملتی ہے۔ اس کے باوجود ممتا بنرجی نے آئین کو سبوتاژ کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا اور اس کے بجائے ثبوتوں کو تباہ کر دیا۔ یہ ممتا بنرجی کی بے شرمی اور بے حیائی ہے کہ وہ اس معاملے کے خلاف مارچ نکالتی ہیں۔ انہوں نے یہ مارچ کس کے خلاف نکالا؟ ایک وزیر اعلیٰ جس کی ذمہ داری امن و امان برقرار رکھنا ہے، وہ ڈاکٹر بہن کو نہیں بچا سکیں ، مجرموں کو گرفتار نہیں کرسکیں بلکہ ایک بیہودہ مارچ کر رہی ہیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا