ڈنہ شاہ ستار مےں ےونےورسٹی کا قےام قابلِ ستائش:عوام
اعجاز کوہلی
مےنڈھر //ہمارے یہاں کی سیاست ماشاءاللہ صدا بہار ہے یہاں کام کی فکر کم اور نام کمانے کی فکر زیادہ رہتی ہے اقتدار کی حوس میں لوگ اپنے ایمان اور اخلاقی قدروں کو بھی پامال کر دیتے ہیں اسمبلی حلقہ مینڈھر کا قیام عملاً1977میں وجود میں آیا تھا۔اس وقت سے تا حال یہاں کی عوام کسی نہ کسی کے حق میں اپنی رائے قائم کرتے آئے ہیں غور طلب ہے کہ یہاں ممبر اسمبلی کے علاوہ ایک ہی وقت میں دو دو وزراءاہم قلمدانوں پر فائز رہ چکے ہیں یہاں تک کہ اسمبلی کی ایک ہی نشست میں چار چار رکن قانون سازیہ ایوان میںاسمبلی حلقہ مینڈھر کی نمائندگی کر چکے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کے دور میں اس پسماندہ اور بارڈر علاقہ کی تعمیر و ترقی کے لئے کتنے اہم منصوبے منظور ہوئے ہیں جن کی مدد سے اس سرحدی علاقہ کے عوام آج تک مستفید ہوئے ہیں۔نمائندہ سے گفتگو کررت ہوئے محمد سعید چوہدری نے کہا کہ ہمارے یہاں مینڈھر کی سیاست کا یہ دستور رہا ہے کہ کام جو کوئی بھی کرے لیکن اس کا سہلہ ہر انسان اپنے حق میں چاہتا ہے۔اسی طرح کی دوڑ میں ان دنوں مینڈھر کے ابن وقت سیاتدان مصروف ہیں ۔بظاہر شکست خوردہ سیاست اپنے تاریک مستقبل کے لئے نہائت ہی فکر مند ہے۔اسی لئے بوکلاہٹ میں آ کر کچھ لوگ ان تاریخی منصوبوں کو اپنے نام رقم کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ اسمبلی حلقہ مینڈھر کا شمار ریاست کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا تھا یہاں کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہ ہوئی تھی۔ جب سے ممبر اسمبلی مینڈھرجا وید احمد رانا کو مینڈھر کی عوام کی خدمت کا موقع ملا ہے بفضل خدا مینڈھر کا نقشہ تبدیل ہو چکا ہے۔آج زندگی کے کسی بھی شعبہ کا مشاہدہ کرکے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سال2002کے بعد سے مسلسل اس سرحدی علاقہ کی تعمیر و ترقی میں ایک انقلاب آیا ہے۔آج ہر ایک گاﺅں کو دوسرے گاﺅں حتیٰ کہ ہر ایک شہر کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔آج مینڈھر میں پرائمری سکولوں سے لے کر نہ صرف ڈگری کالج بلکہ یونیورسٹی کی سہولیات باہم پہنچائی جا چکی ہیں۔جن کی مدد سے اس پسماندہ خطہ کے ہمارے نونہال اعلی اور معیاری تعلیم سے آراستہ ہو کر ملک کے دوسرے حصوں کے طلاب کے ساتھ مقابلہ کر سکیں گے۔ان تمام عظیم منصوبوں کا سہرا ممبر اسمبلی مینڈھر جاوید احمد رانا کے سر جاتا ہے کہ جن کی انتھک محنت اور تاریخی جدوجہد کے نتیجہ میں آج یہ تمام منصوبے قوم کے نام وقف ہیں۔ جوں جوں آنے والا الیکشن قریب آ رہا ہے توں توں خطہ پیر پنجال کی سیاست میں گرماہٹ آنا شروع ہو گئی۔یہاں کی سیاست یہ فطرت ابدی چلی آ رہی ہے اسی روایت کو قائم رکھتے ہوئے حالیہ دنوں میں مینڈھر کی سیاست گرما چکی ہے۔کس نے کیا گیا یا کیا نہیں کیا یہ ایک الگ قصہ ہے لیکن کریڈیٹ لینے کی دوڑ میں درجنوں چہرے ایک دوسرے پر شفیت کوشش میں مصروف ہیں۔نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے حاجی محمد رشیدنے کہا کہ ممبر اسمبلی مینڈھرنے آپنے دور اقتدار میں اسمبلی حلقہ مینڈھر کے اندرجو تاریخی کام انجام دئیے ہیں ان کی مثال شاید ہی کسی دوسرے اسمبلی حلقہ میں ملتی ہو۔انھوں نے کہا کہ2002سے قبل اس اسمبلی حلقہ کا شمار ریاست کے پسماندہ ترین حلقہ میں ہوتا تھا زندگی کے کسی بھی شعبہ میں کوئی ترقی نہ تھی۔ یہاں کی پسماندگی آسمان کو چھوتی تھی۔ یہاں تک زمین پر ایک بھی منصوبہ کسی شعبہ میں زیر تعمیر نہ تھا۔آج پوری اسمبلی حلقہ کے اندر یکساں ترقی کے بیشتر منصوبے پا تکمیل ہیں اور بعض پر شدو مد سے کام جاری ہے۔انھوں نے کہاکہ جاوید احمد رانا نے شعبہ تعلیم کو ہمیشہ آپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔اس کی واضح مثال یہ ہے2002سے قبل مینڈھر میں اعلےٰ تعلیم کا کوئی مناسب بندو بست نہ تھا ان کی محنت اور لگن کی بدولت آج مینڈھر میں ایک ڈگری کالج موجود ہے جس میں ہر سال اس پسماندہ علاقہ کے سینکڑوں طلاب عزت ووقار سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رانا کی بیباک قیادت کی بدولت آج اسمبلی حلقہ میں مینڈھر قریب دو درجن ہائی سکول موجود ہیں۔ اور اسطرح ہر ایک گاﺅں میں مڈل اور پرائمری سکولوں کا جھال بچھاا ہوا ہے۔ماضی قریب ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے اس سرحدی اسمبلی حلقہ کے نونہالوں کے تابناک مستقبل کو دھیان میں رکھتے ہوئے ایک اکلاویہ ماڈل ریزیڈینشل سکول بھیرہ منظور کروایا گیا ہے جس میں بیک وقت بلترتیب240طلبہ و طالبات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ طعام و قیام کا بھی مناسب بندو بست ہو گا۔ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جس کی مثل مستقبل قریب میں بھی ملنا محال ہو گی۔ دو دن قبل ممبر اسمبلی مینڈھر ایک اور کار ہائے نمایاں انجام دیتے ہوئے ضلع پونچھ کے روح افزاءمقام ڈنہ شاہ ستار میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لانا طے پایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جاوید احمد رانا کا تعلق ایک علمی گہرانے سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ شعبہ تعلیم ہمیشہ ان کی ترجیحات میں شامل رہتا ہے۔میاں فارو ق احمد نے کہا کہ آج جبکہ ایم ایل اے مینڈھر کی کاوشوں کی بدولت یونیورسٹی کیلئے مطلوبہ زمین کو سرکار کی جانب حتمی منظوری حاصل ہو چکی سابقہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے کچھ شکست خوردہ عناصر اس عظیم منصوبے کا کریڈٹ حاصل کرنے کی دوڑ میں شریک ہو چکے ہیں۔ حالانکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کل جو لوگ یونیورسٹی کیلئے ڈنہ شاہ ستار کی زمین کو مختلف طریقوں سے الجھانے کی ناپاک سازش میں مصروف تھے آج وہی چہرے یہاں کی عوام خصوصاًنوجوان نسل کے خیر خواہ بننے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ یہاں کے عوام بہتر جانتے ہیں کہ ا س ضمن میں کس کا کیا کردار رہا ہے۔