ملک ہندوستان کی عظیم شخصیت مولانا محمد علی جوہر

0
0

فہیم حیدر ندوی

ادارہ ادب اسلامی ہندبتیا کی جانب سے ایک ا دبی و شعری نشست مورخہ ۳۱؍۱۲؍۲۰۲۳بروز اتوار بعد نماز مغرب تا عشاء مرزااسد اللہ خاں غالب و مولانا محمد علی جوہر کے نام سے منعقد ہو ا‘اس تقریب کی صدارت بزرگ اور کہنہ مشق شاعر ابو الخیر نشتر نے کی اور نظامت کا فریضہ ادارہ کے صدر جناب محمد قمر الز ماں قمر صاحب نے ادا کیا‘سال کے آخراور نہایت سرد رات کے باوجود کثیر تعداد میں شائقین شعر و ادب اور اردو سے دلچسپی رکھنے والوں نے تقریب کو کامیاب اور یاد گار بنا دیاجو کہ اردو کے روشن مستقبل کیلئے ضامن بن گئی‘ اس تقریب میں مولانا محمد علی جوہر کے عنوان سے مقالہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں مقالہ نگار کے طور پر بحیثیت سکریٹری ادارہ ادب اسلامی ہند بتیا میںنے مولانا محمد علی جوہر کے عنوان پر اپنامقالہ پیش کرتے ہوئے آپ کی شخصیت سے متعارف ہواکہ مولانا محمد علی جوہر صرف ایک فرد نہیں بلکہ ا پنے آپ میں ایک ا نجمن تھے ملک ہندوستان کی عظیم شخصیت کے حامل تھے مسلمانوں کے ایسے قائد و رہنما تھے جن کے اندر تما م وہ صفت موجود تھی جو ایک عظیم رہنما و قائد کے لئے ضروری ہو تی ہے مولانا محمد علی جوہر کی پیدائش 10 دسمبر 1878کو رامپور میں ہوئی آپ آزادی کے بے باک سپاہی تھے آپ کے اندر کسی قسم کا کوئی ڈر و خوف نہیں تھا آپ آزادی کے متلاشی تھے آپ کی شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کے تذکرہ کے بغیر آزادئی ہند اور اردو ادب دونوں کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی مگر افسوس صد افسوس کہ آزادی کے بعد ہمارے اس بے مثال اور ہمہ صفت قائد وعظیم رہنما کو ملک نے بھی فراموش کیاا و رقوم و ملت نے بھی آپ کی شخصیت کو پہچاننے میںغفلت سے کام لیا اور فراموش کر نے کا کام کیا حتی کہ آزادی کے عنوان پر جو کتابیں مرتب کی گئی ان میں بھی اس عظیم حب الوطن ادیب وشاعرا ور رہنما کو نظر انداز کر دیا گیا جبکہ ’’ تحریک ترک موالات ‘‘ میں آپ گاندھی جی کے برابر شریک تھے آزادی کے وقت مولانا محمد علی جوہر کا نام بچہ بچہ کی زبان پر تھا مولانا محمد علی جوہر لکھتے ہیں کہ ان کی والدہ ایک سیدھی سادھی خاتون تھی جو سادہ لباس پہننا پسند کر تی تھی لیکن اولاد کو قیمتی لباس پہنا تی تھی اخلاقی و تربیتی لباس پہنا نے میں کسی طرح کی کو ئی کسر نہیں چھوڑ تی تھی انہوں نے اپنی اولاد کے اندر ملک ہندوستان سے اتنی محبت پیدا کر دی تھی کہ ان کی اولاد کے اندر ملک ہندوستان کے لئے جان و مال قر بان کر نے کا جذبہ پیدا کر دیا‘ آ پ ایسے عظیم قائد تھے جن کی رہبری میں خلقت بھائی بھائی جاتی ہے آپ آزادی کے ایسے سپاہی تھے جن کی شجاعت سے دشمنوں کے دل دہل جاتے تھے ہندوستان کی سیاست میںآپ کی والدہ انگریزوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنے والی پہلی خاتون تھی
مزید یہ کہ اپنی اولاد کو ملک ہندوستان کے لئے وقف تک کر دیا تھا آپ عظیم شاعر بھی تھے اسلامی شاعر تھے آپ کی شاعری میں قوم و ملت کے لئے درد اور اسلا م کا پیغام تھا آپ کے اشعار پڑھنے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اشعار لکھے ہیں آپ کے اشعار کے چند مصرعے ۔۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں یہ کہہ دیں
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
آپ مسلمانوں کے بے حس جسم و تن اور منجمد دل وماغ کو حرکت و مہمیز لگانے و گہری نیند سے بیدار کرنے کی صلاحیت کے مالک تھے آپ کی ہی کو ششوں کا نتیجہ آج ممتاز جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شکل میں مسلمانوں کا ایک یونیورسٹی نئی دہلی میں ہے آپ کی شاعری روح کو تڑپا دینے والی ہے آپ نظم کے ساتھ غزل گو اور نثر نگار بھی تھے ہندو مسلم اتحادہو کی جب بھی ضرورت پڑتی تھی آپ کا نام سر فہر ست ہوتا تھا قوم پر ستی ہوتو قو م کی فکر آپ کا مشغلہ بن جاتااور آزادی کا مطالبہ ہو توآپ نے پہلے ہی اپنی زندگی ملک کے لئے وقف کر دیتھی آپ کی والدہ کا مزاج مذہبی ہونے کی وجہ سے آپ کا مزاج بھی اسلامی و مذہبی تھا آزادی کی جد و جہد کا سر گرم حصہ ہونے کی وجہ سے زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں گزرا ۔آپ کو اردو شعر و ادب سے دلی شغف تھا بے شمار غزلیں و نظمیں لکھیں جو مجاہدانہ رنگ سے بھر پور ہیں۔آپ کا انتقال 10 جنوری 1931 کو لندن میں ہوا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا