ملک کے حالات پر پربھاکر کا فکر انگیز تجزیہ

0
0

 

 

محمد اعظم شاہد
مرکز میںموجود مودی حکومت کی ناقص ، نااہل اور بصیرت سے محروم کار کردگی پر سیاسیات اور معاشیات کے کئی ماہرین اپنے مشاہدات کی روشنی میں مدلل تجزیات پیش کرتے آرہے ہیں، پراکالا پربھاکر انہی ماہرین سیاسیات اور معاشیات میں ایک اہم نام ہے ۔ گزشتہ چند برسوں سے وہ اپنے برملا، برمحل اور بے لاگ و بے خوف تجزیات کے لیے سرخیوں میں رہے ہیں، حکومت آندھرا پردیش میں سال 2014 تا 2018 وہ کابینہ درجے کے مشیر برائے مواصلات رہ چکے ہیں، مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتا رامن کے شوہر پربھاکر مودی حکومت کی عوام مخالف معاشی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے رہے ہیں، ملک کی معیشت ، حکومت کی بدنظمی کا شکار ہے، جس کے باعث ملک تشویشناک حد تک غریبی کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے اور بے روزگاری مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ پربھاکر کے اس تبصرے اور تجزیے سے بھلے ہی مودی کی بی جے پی حکومت نالاں ہو، مگر وہ ملک کے مایوس کن حالات اور جمہوریت کو لاحق خطروں پر بے باکی سے اپنا مطمح نظر پیش کرنے اور عوام میں شعور بیدار کرنے کے مشن میں جٹے ہوئے ہیں، حال ہی میں ملک کے موجودہ حالات پر ان کی تجزیاتی کتاب Crooked Timber of New India: Essays on Republic in Crisis ( نئے ہندوستان کی ٹیڑھی قسمت ، جمہوریت کو لاحق مسائل پر مضامین ) منظر عام پر آئی ہے ، ملک بھر میں اس کتاب پر بحث و مباحث ہو رہے ہیں، جو اہل نظر ملک کی وراثت ، جمہوری نظام ، دستور ، کثرت میں وحدت ، رواداری اور بقائے باہمی کے رہنما اصول سے ذہنی و عملی مطابقت رکھتے ہیں وہ حالات کو سمجھنے اور اپنا احتساب کرنے کی آگہی کے حامل نظر آرہے ہیں۔ پربھاکر دو ٹوک لہجے میں مودی حکومت کی کارکردگی کو اپنی تحریروں سے عوام کو روبرو کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جمہوریت تمام باشندوں ( شہریوں ) کی باہمی ذمہ داری Shared Responsibility ہے ۔ اسی لیے بالآخر حکومت کی کارکردگی کا الزام ملک میں بسنے والے عوام پر ہی ہوتا ہے ۔ عوام کو جمہوریت کی سلامتی کے لیے باخبر رہتے ہوئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہے جو ان کی ذمہ داری ہے ۔
Political Economist پربھاکر کہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے ساتھ حکومت کھلواڑ کر رہی ہے ۔ سیکولرزم کو سنگین نوعیت کے خطرے لاحق ہیں، معیشت لڑکھڑا رہی ہے ، ہمارا سماجی نظام درہم برہم ہے ۔ مرکزی حکومت کے ریاستوں کے ساتھ تعلقات غیر جمہوری ہوتے جا رہے ہیں، ہمارے دستور میں بیان کردہ تکثیریت ، آزاد خیالی، اجتماعیت ، مذہبی آزادی جیسے بے مثل اصولوں سے حکومت وقت علاحدگی اختیار کر رہی ہے ۔ پارلیمان میں مجوزہ قوانین کے مسودے ( بلس ) بغیر مباحث کے منظور کرلئے جاتے ہیں، ایوان میں اپنی اکثریت کے غرور میںجمہوری اصولوں کو نظر انداز کیا جانے لگا ہے ۔ زرعی قوانین صرف دس منٹ میں پارلیمنٹ میں منظور کر لیے جاتے ہیں اور پھر پنجاب میں اسمبلی انتخابات سے پہلے ان قوانین کو واپس لے لیا جاتا ہے ۔ ان قوانین کی منظوری اور منسوخی کی وجوہات پر نہ کوئی بحث ہوتی ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے کوئی وضاحت کی جاتی ہے ۔ محض ایک طرفہ فیصلے ہوتے رہے ہیں، جو ملک کے مفادات کے خلاف ثابت ہو رہے ہیں۔
معیشت کے حال پر پربھاکر کا کہنا ہے کہ گزشتہ چھے سات سالوں میں ایک سو کروڑ روپے کا افزود قرض حکومت نے لیا ہے ، جو بڑا بوجھ ہے ۔ بے روزگاری کی شرح 23 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ اس طرح ہمارا ملک لبنان اور سوڈان جیسے پسماندہ ممالک کی صف میں شمار ہونے لگا ہے ۔ 84 فیصد لوگوں کی آمدنی میں شدید گراوٹ آئی ہے ۔ غربت و افلاس کی شرح میں شرمناک اضافہ ہو رہا ہے ۔ جبکہ ارب پتیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔ پہلے ارب پتی 125 تھے، اب بڑھ کر ان کی تعداد 145 ہوگئی ہے ۔ حکومت کی نظر میں ان امیروں کی بڑھتی تعداد گو کہ ایک کارنامہ اور کامیابی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ مگر 84 فیصد عام لوگوں کی آمدنی میں کمی کا واقع ہونا حکومت کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہے ، کیوںکہ حکومت الیکشن میں ایسے معاشی مسائل کے ساتھ عوام سے کہاں روبرو ہوتی ہے ۔ معاشی اور معاشرتی افلاس یا متعلقہ ناکامیابیوں پر پردہ ڈالنا حکومت کا شیوہ رہا ہے ۔ البتہ الیکشن کے دوران رام مندر کی تعمیر ، کشمیر کی خود مختاری کا آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ذریعہ خاتمہ ، کس طرح کشمیر میں سبق سکھایاگیا ، ایسے معاملات کو ا چھال کر ووٹ مذہب کے نام پر حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ موجودہ مودی حکومت کسی بھی طرح کوئی بھی مسئلہ ہو یا ناکامی ہو ، اپنی کوتاہی اور نااہلی کی ذمہ داری اپنے سر لینا ہی نہیں چاہتی ، کیوںکہ یہ حکومت کسی بھی صورت جوابدہ بننا نہیں چاہتی ، یہی اس کا غیر جمہوری چلن ہے ۔
پربھاکر کی مذکورہ کتاب میں کئی ابواب پر کئی مسائل اور حکومت کی غلط پالیسیوں پر کھل کر بحث کی گئی ہے ۔ ایک اہم نکتہ جس کی نشاندہی مدلل طورپر کی گئی ہے ، وہ یہ کہ موجودہ حکومت معمولات کو غیر معمولی کارنامہ اور انتہائی تشویشناک اور قابل توجہ مسائل کو نظر انداز کرنے کی مہارت کی حامل بن گئی ہے ، اس نکتہ کی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں پربھاکر نے وضاحت کرتے ہوئے بتایاکہ جی ٹوئنٹی کی میزبانی ہر سال ایک ممبر ملک کے حصے میں آتی ہے ، جو معمول ہے ، سال 2022 انڈونیشیا نے اس کی میزبانی بالی میں کی، اسی طرح ہندوستان نے اس سال دِ لی میں یہ ذمہ داری نبھائی اور اگلے سال برازیل اس کی میزبانی کرے گا، مگر اس معمول کے کام کو اس طرح پیش کیاگیا گویا عالمی سطح پر ہندوستان کے لیے بڑے اعزاز سے نوازا گیا ہے ۔ فسادات ، لنچنگ ، مہنگائی ، بے روزگاری ، دیہاتوں کے بڑھتے مسائل ، ملک پر قرض کا بوجھ ، عدم رواداری ، اشتعال انگیزی، تعلیمی نصاب میں تبدیلی ان تمام غیر معمولی اور ضروری معاملات پر خاموشی سادھ کر یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ سب عام سے مسائل ہیں، یعنی غیر اہم کو اہم اور اہم کو غیر اہم ثابت کرنے میں مصروف حکومت سے حقیقی مسائل کا حل کہاں ہوسکے گا؟٭٭
[email protected] cell:9986831777

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا