نئی دہلی، // کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینیت نے ہفتہ کو کہا کہ اس ملک کی خواتین کے لئے ریزرویشن کی جدوجہد بہت طویل رہی ہے اور ہر بار انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس بار جب خواتین ریزرویشن بل آیا تو بااختیار بنانے اور سیاسی شراکت داری کی امید ایک بار پھر جاگی، لیکن آج ملک کی آدھی آبادی اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے منہ تک آیا لقمہ ہی چھین لیاگیا ہے۔
محترمہ سرینیت نے یہاں ایک بیان میں کہا کہ عجلت میں لائے گئے اس بل کے ذریعے خواتین کو آخر کب ریزرویشن ملے گا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ 2029 سے پہلے یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ مردم شماری اور حد بندی سے خواتین کے ریزرویشن کو جوڑ کر، خواتین کو بتایا گیا ہے – انتظار ابھی طویل ہے۔
حکومتی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ نے آئین کے آرٹیکل 82 اور 81 (3) کا حوالہ دیا، جس کے مطابق 2026 کی حد بندی اس کے بعد والی مردم شماری یعنی 2031 کی مردم شماری پرہی ممکن ہے، یعنی خواتین ریزرویشن شاید 2039 تک ہی ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ آخر 2024 میں یہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر واقعی قوت ارادی ہے تو جس طرح نوٹ بندی، تین کالے قوانین، لاک ڈاؤن، آرٹیکل 370 کو ہٹانے جیسے فیصلے دو منٹ کے اندر لیے گئے تھے، ویسے ہی اب بھی فیصلے ہونے چاہئیں۔ اگر اس قانون میں خواتین کو واقعی بااختیار بنانے اورشراکت داری دینے کا ارادہ ہے تو دیر کس بات کی؟ ورنہ یہ جھنجھنا نہیں تواور کیا ہے؟
کانگریس لیڈر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ریاستوں میں اپنی شکست سے بوکھلا کر انڈیا اتحاد کی طاقت دیکھ کر وزیر اعظم نریندر مودی پریشان ہوگئے اور صنعتکار گوتم اڈانی کے اوپر آنچ نہ آئے، اس لئے پہلے انڈیا بمقابلہ بھارت کا شگوفہ چھیڑا گیا اور پھر جب اس سے غصہ نظر آیا تو خواتین ریزرویشن بل لے کر آئے، یہ قانون شاید اب سے 10 سال بعد ہی لاگو ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تو کچھ کسانوں کی آمدنی دوگنی، ہر سال دو کروڑ روزگار، ہر ایک کے بینک کھاتوں میں 15 لاکھ روپے، 100 اسمارٹ شہر، روپے ڈالر کی برابر قیمت، پٹرول 40 روپے فی لیٹر اور چین کولال انکھیں دکھانے والے جملوں جیسا ثابت ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔