ڈاکٹرمحمدبشیرماگرے
جدید سائنسی علوم کائنات کی سچائیوں سے قدم قدم پر پردہ اٹھا کرنئے انکشافات کے ذریعے دنیا کے ظہور کی تصدیق کررہے ہیں۔اس سے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آفاقی تعلیمات کی خود بخود سائنسی توجیہ ہورہی ہے اور جدید سائنسدان اپنی سائنسی تحقیقات کے حوالے سے قرآن کو ایک الہامی کتاب اور حضور رحمت عالم ﷺ کے فرمودات کو تعصبات کے باوجود اعتراف حقیقت کو سر خم تسلیم و اعتراف کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔عہد رسالت ماب ﷺ میں شاید اس بات کی ضرورت بھی نہ تھی ! مگر آج چودہ سو سال گذر جانے کے بعد معجزات نبوی پر سائنسی حوالوں سے غورو فکرکیا جا رہا ہے۔حضور ﷺ کے پیروکار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایک مثالی ایمان کے مالک تھے۔حضور ﷺ کے خلاف عادت واقعات و معجزات دیکھ کر ان کو کسی فکری تذبذب کا شکار ہوتے کبھی نہیں دیکھا گیا۔یقین کی راہوں پران کے قصر ایمان کی دیواروں پر شگاف پڑتے اور نہ وہ مشروط ثابت قدمی (Commitment) کے لئے حیلے بہانے تراشتے تھے۔ان کے پائے استقلال میں لغزش کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔وجہ یہ تھی کہ ان کے سینے یقین محکم کی دولت سے معمور تھے،شکوک و شبہات کی گرد ان کے آئینہ دل پر ذری سی بھی خراش نہ ڈال سکتی تھی۔
جدید دور کا مسلمان غبار تشکیک میں گم ہے اور اسے معجزات نبوی اور کمالات مصطفوی ﷺ سے بخوبی اگاہ کرنے کے لئے اس کے ساتھ جدید سائنسی تناظر میں بات کرنا ضروری ہے۔اگر مسلم دانشور اس ضمن میں محنت کریں تو نہ صرف یہ کہ نوجوان نسل کا ایمان غارت ہونے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ غیر مسلموں کو بھی عظمت مصطفیٰ ﷺ سے روشناس کراتے ہوئے دعوت و تبلیغ دین کا فریضہ بطریق احسن ادا کیا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں سرورانبیاء ﷺ کے چند معجزات جلیلہ کا جدید سائنسی حوالوں سے بالاختیار ذکر کریں گے تاکہ عقل کے غلام اور مادی سوچ رکھنے والے محققین بھی ربوبیت باری تعالیٰ کو دل و جان سے تسلیم کرکے بارگاہ خداوندی میں سر بسجود ہونے کا اعزاز حاصل کریں گے۔یہاں میں ذیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے چند معجزات نبوی ﷺ کا ذکر اجمالا ہی سپرد قلم کروں گا۔ معراج کمال معجزات مصطفیٰ ﷺ وہ عظیم خارق عادت واقعہ ہے جس نے تسخیر کائینات کے مقفل دروازوں کو کھولنے کی ابتداء کی ہے اور انسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سرانجام دیا۔رات کے بہت ہی مختصر سے وقفے میں جب اللہ رب العزت حضور رحمت عالم ﷺ کو مسجد الحرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوی کائینات (Cosmos) کی بے انت وسعتوں کے اس پار ’’قاب قوسین‘‘ اور ’’او اذنی‘‘ کے مقامات بلند تک لے گیا اور آپ مدتوں وہاں قیام کے بعد اسی قلیل مدتی زمینی ساعت میں اس زمین پر دوبارہ جلوہ افروز بھی ہوگئے۔
آج سے چودہ سو سال قبل علوم انسانی میں آج کی طرح جدید وسعت تھی اور نہ اتنی گیرائی اور گہرائی کہ معجزات رسول ﷺ کا کوئی ادنیٰ جزو ہی ان کے فہم و ادراک میں آجاتا حتیٰ کے اسوقت بہت سے علوم جدیدہ کی مبادیات تک کا بھی دور دور تک کہیں نام و نشاں نہ تھا۔آج عقل انسانی اپنے ارتقاء ، اپنی تحقیق اور جستجو کے بل بوتے پر جن کائیناتی صداقتوں اور سچائیوں کو تسلیم کر رہی ہے، ہزاروں سال قبل قبل ان کی تصدیق و توثیق وحئی الٰحی کے بغیر ممکن نہ تھی۔تاریخ شاہد عادل ہے کہ جمیع مسمانان عالم ایمان بالغیب اور قدرت الہٰیہ کے ظہور پر ایمان رکھنے کی وجہ سے بغیر دلیل معجزات مصطفی ﷺ کے ہمیشہ قائل رہے۔عہد حضور ﷺ، عہد صاحبہ اور بعد میں بھی مسلمانوں کا ایمان قابل رشک اور قابل داد تھا کہ ظہور قدرت الہٰیہ کے ناقابل فہم و ادراک ہونے کے باوجود ان کا ایمان کبھی متزلزل نہیں ہوا، ان کے آئینہ دل پر کبھی بھی شبہات کی گرد اور وسوسوں کی دھول نہیں پڑی، ان کے آئینہ شعور میں بھی کبھی کوئی بل نہیں آیا۔آج سے چودہ سو سال قبل عقلی بنیادوں پر دوران معراج آن کی آن میں ساتوں آسمانوں کی حدود سے گزر کر لا مکاں تک جا پہنچنا اور اسی لمحے میں اس کھربوں نوری سال کی مسافت کو طے کرکے واپس سر زمین مکہ پر تشریف لے آنا تو کجا زمین کی بالائی فضا میں پرواز کا تصور بھی ناقابل یقین محسوس ہوتا ہے اور کیطرف آج کا نسان اللہ رب العزت کی عطا کردہ تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت عالم اسباب کے اندر رہتے ہوئے اپنی کی سی اتباع معجزہ معراج میں کائنات کو مسخر کرنے کا عزم لیکر نکلا ہے۔اگرچہ آج کا انسان صبح و شام فضائے بسیط میں محو پرواز ہیلیکن اگر واقعئہ معراج کو اپنے تمام تر جذئیات کے ساتھ حیطئہ شعور میں لایا جائے تو خلائی سفر کے مخصوص لوازمات کے بغیر کرئہ فضا سے باہر ایتھر(Ather ) میں کروڑوں نوری سال کا سفر طے کرنے کا تصور آج بھی ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
یہاں میں فضائے بالا کی مختلف کیفیات پر زرہ سی نظر دوڑاتا ہوں۔ہماری کرہٗ ارض مختلف گیسوں پر مشتمل ایک ایسے شفاف غلاف میں لپٹا ہوا ہے، جو زمین پر زندگی کو ممکن بھی بناتا ہے اور شہاب ثاقب کی بارش میں اس پر پرورش پانے والے زندگی کو تحفظ کی ردا بھی فراہم کرتا ہے۔آج کے خلائی تحقیقات کے دور میں جب انسان خلاٗ کے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے مرحلے میں اسے سینکڑوں کلو میٹر کی گہرائی پر مشتمل زندگی بخش ہوائوں کے اس سمندر کو عبور کرنا ہوتا ہے۔ہوائی سفر میں زیادہ بلندی پر آکسیجن کی کمی کی صورت میں گیس ماسک (Gas Mask) استعمال کرنا پڑتا ہے۔جہاز کے اندر مصنوعی طور پر ہوا کا دباوٗ(Air Pressur) ھی بنایا جاتا ہے اور اگر کسی ٹکنیکی خرابی کی وجہ سے مکنیف(Air Tight) جہاز میں سوراخ ہو جائے تو جہاز کے اندر کا مصنوعی دبائو تیزی سے گر جاتا ہے، جس سے مسافروں کے اجسام سخت اضمحلال کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض صورتوں میں مسافروں کے منہ، ناک اور کانوں سے خون بھی بہنا شروع ہو جاتا ہے۔اگر فوری طور دوبارہ مصنوعی دباوٗ بنانا ممکن نہ ہوتو پائلٹ تیزی سے جہاز کی بلندی گراتے ہوئے اسے اس مخصوص سطح تک لے آتے ہیں، جہاں ہوا کا مناسب دبائو موجود ہوتا ہے اور مسافر مزید پریشانی یا جانی نقصان سے بچ جاتے ہیں۔
خلائی سفر کی لابدی ضروریات: خلائی سفر پر روانگی کے دوران کرٗہ ہوائی(Atmosphere) سے باہر نکلنے کیلئے کم سے کم ۴۰۰۰۰ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار درکار ہوتی ہے۔چنانچہ خلانوردوں(Astronauts) کو آکسیجن اور مصنوعی دبائو کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص لباس”Pressure Suit”بھی درکار ہوتا ہے جو انہیں درجئہ حرارت کی شدت کے علاوہ برقی مقناطیسی لہروں(Electro Magnetic Radiations) سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔EVA Spacesuitجو ایک انسان کو خلائی سفر کے دوران آکسیجن کی فراہمی ، مناسب حرارت کمیونیکیشن اور خلاء میں قیام کے لئے دیگر ضروری سہولیات فراہم کرنے کے علاوہ (Manned Maneuvering Unit MMU) کی بدولت انسان اس قابل بھی ہوچکا ہے کہ خلائی شٹل سے باہر نکل کر ایک مصنوعی سیارے کی طرح زمین کے مدار میں طویل وقت کیلئے با آسانی چہل قدمی کر سکے۔
تسخیر مہتاب کی صورت میںانسان کا بعید ترین خلائی سفر: بیسوی صدی میں یہ کارنامع سر انجام دیا جا چکا ہے۔خلائی تحقیقات کے امریکی ادارے(National Aeronatic Space NASA Agency)کی طرف سے تسخیر ماہتاب کے لئے شروع کئے گئے دس سالہ اپالو مشن کے تحت جولائی 1969ء میں چاند کا پہلا کامیاب سفر کرنے والےApolo 11کے مسافر امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ(Neil Armstrong) اور ایڈون بز (Edwin Buzz) تاریخ انسانی کے وہ پہلے افراد تھے جو چاند کی سطح پر اترے جب کہ ان کا تیسرا ساتھی کولنز(Collins) اس دوران مصنوعی سیارے کی مانند چاند کے گرد محو گردش رہا۔اس دوران امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم زمینی مرکز(Kannedy Space Center KSC) میں موجود سائنسدان انہیں براہ راست ہدایات دے رہے تھے۔ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے پتھروں کے نمونے وغیرہ لے کر، روانگی کے محض دو دن بعد خلا نوردوں کا یہ مہم جو قافلہ واپس زمین پر آگیا۔اس مہم کے دوران پل پل کی خبر ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعہ زمین کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں تک پہچائی جاتی رہیں۔عالم انسانیت کی ان خلائی فتوحات اور تسخیر ماہتاب کا ذکر چودہ صدیاں قبل صحیفئہ کمال یعنی قرآن مجید میں پوری وضحت کے ساتھ کردیا گیا تھا۔ارشاد خداوندی ہے: والقمر اذا اتسق ،لترکبن طبقا عن طبق، فما لھم لا یومنون۔(الانشقاق، ۸۴: ۱۸تا ۲۰) قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے، تم یقینا طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جائو گے۔ تو انہیں کیا ہوگیا ہے کہ (قرآنی پیشنگوئی کی صداقت دیکھ کر بھی)ایمان نہیں لاتے۔درج بالا آیت مبارکہ میں تسخیر ماہتاب کا جو واضع اشارہ ہے۔بیسوی صدی کے انسان نے اس کی عملی تفسیر آنکھوں سے دیکھی ہے۔گو انسان نے جدید سائنس کے ذریعے مادی ترقی کر لی ہے اسکے باوجود ابھی تک انسان روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کر سکا۔روشنی ۱۸۶۰۰۰ میل(تین لاکھ کلومیٹر) فی سیکنڈ کی رفتار رکھتی ہے اور سائنس کی زبان میں اسقدر رفتار کا حصول مادی شے کیلئے محال ہے۔
روشنی کی رفتار کے حصول میں رکاوٹیں: ممتاز سائنسدان البرٹ آئن سٹائن نے ۱۹۰۵ء میں ’’نظریہ اضافیت مخصوصہ‘‘(Special Theory of Relaivity) پیش کیا۔اس تھیوری میں آئنسٹائن نے وقت اور فاصلہ دونوں کو تغیر پذیر قرار دیتے ہوئے واضع کیا کہ زمان و مکان(Time & Space)کی گتھیاں اس تھیوری کے بغیر نہیں سلجھ سکتیں۔آئن سٹائن نے ثابت کیا ہے کہ مادہ (Matter)توانائی(Energy)کشش(Gravity)زمان(Time)اور مکان(Space)میں ایک خاص ربط اورنسبت پائی جاتی ہے۔(Relativity Theory)کے مطابق مختلف مقامات پر وقت اور فاصلہ کی پیمائش میں کمی پیشی آسکتی ہے اور مادی جسم کیلئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے۔جسم جب دو مختلف رفتاروں سے حرکت کرتا ہے تو اس کا حجم بھی اسی تناسب سے گھٹتا بڑھتا ہے۔برسوں کی تحقیق کے بعد آئن سٹائن نے ثابت کیا کہ روشنی کی ۹۰ فی صد رفتار سے سفر کرنے پر جسم کی کمیت دوگنا ہو جاتی ہے، جب کہ اس کا حجم نصف رہ جاتا ہے اور رفتار بھی نصف رہ جاتی ہے۔مثال کے طور پراگر کوئی راکٹ ۱۶۷۰۰۰ میل فی سیکنڈ (روشنی کی رفتار کا ۹۰ فیصد ) کی رفتار سے ۱۰ سال سفر کرے تو اس میں موجودہ خلانورد کی عمر میں صرف پانچ سال کا اضافہ ہوگا جب کہ زمین پر موجود اس کے جڑواں بھائی پر ۱۰ سال گذرنے پر خلانورد اس سے ۵ سال چھوٹا رہ جائے گا۔آئن سٹائن نے اس کی وجہ انسانی جسم کی اس محیرالعقول رفتار پر نہ صرف دل کی دھڑکن اور دوران خون بلکہ انسان کا نظام انہضام اور تنفس بھی سست پڑ جائے گا۔جس کا نتیجہ عمر میں کمی نکلے گا۔اس نظریہ سے ۹۰ فی صد حاصل ہونے سے وقت کی رفتار نصف رہ جائے گی وہاں جسم کا حجم سکڑ کر نصف رہ جاتا ہے۔ اسی طرح وقت گذرنے میں بھی کمی آجائے گی۔اس نقطہ سے حاصل یہ ہے کہ اگر بغرض محال کوئی مادی جسم روشنی کی رفتار حاصل کرلے تو اس پر وقت کی رفتار بالکل تھم جائے گی۔یہی وہ کسوٹی ہے کہ جس کی بنیاد پر آئن سٹائن اس نتیجے پر پہنچا کہ کسی بھی مادی جسم کیلئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے۔
معجزہ معراج میں براق کا سفر: آئن سٹائن کے نظریہ اضاف(Theory of Relativity) کے مطابق روشنی کی رفتار کا حصول اور اس کے نتیجے میں حرکت پذیر مادی جسم پر وقت کا تھم جانا اور اثر پذیری کھو دینا ناممکن ہے ( کیونکہ اس صورت میں مادی جسم کی کمیت لامحدود ہو جانے کے ساتھ ساتھ اس کا حجم بالکل ختم ہوجائے گا )آئن سٹائن کے رو سے یہی قانون فطرت پورے نظم کائنات میں لاگو ہے۔اب اس قانون کی روشنی میں سفر معراج کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ’’اللہ کی عادت‘‘ کا یہ نظام فطرت اسکی ’’قدرت‘‘ کے مظہر کے طور پر بدل گیا۔وقت بھی تھم گیا ! جسم کی کمئیت بھی لا محدود نہ ہوئی اور وہ فناہ ہونے سے بچا رہا ! اس کا حجم بھی جوں کا توں برقرار رہا ! اور خلائی سفر کی لابدی مقتضیات پورے کئے بغیر سیاح لا مکاں ﷺ نے براق کی رفتار((Multiple Speed of Light سے سفر کیا، بیت المقدس میں تعدیل ارکان کے ساتھ نمازیں بھی ادا کیں، دوران سفر کھایا اور پیا بھی، لامکاں کی سیر بھی کی، اللہ کے برگزیدہ انبیاء کے علاوہ خود رب العزت کا ’’قاب قوسین ‘‘اور’’ ائو ادنیٰ‘‘ کے مقامات رفعت پر جلوہ بھی کیا اور بالآخر سفر معراج کے اختتام پر واپس زمین پر پلٹے تو تھما ہوا وقت آپ ﷺ کی واپسی کا منتظر تھا۔وضو کا پانی بہہ رہا تھا،بستر ہنوز گرم تھا اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی؟ اگرچہ معجزہ معراج کسی مادی توجہیہ کا مہتاج نہیں لیکن اس حقیقت کا ادراک ہمیں ضرور ہونا چاہیے کہ سائنس سفر ارتقاء کے ہر قدم پر معجزات رسول ﷺ کی اتباع میں تسخیر کائنات کرتے ہوئے اسلام کے الہامی مذہب ہونے کے بالواسطہ اعتراف کا اعزاز حاصل کررہی ہے۔نظریئہ اضافیت میں روشنی کی عام رفتار کا حصول بھی ناممکن بنا کر پیش کیا گیا ہے۔جب کہ حضور سرور کائنات ﷺ براق پر سوار ہوکر ہزار ہا روشنیوں کی رفتار سے سفر معراج پر تشریف لے گئے۔براق برق کی جمع ہے، جس کے معنی روشنی کے ہیں۔آج کا انسان اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود روشنی کی رفتار کا حصول اپنے لئے ناممکن تصور کرتا ہے۔یہ احساس محرومی اسے احساس کمتری میں مبتلا کر دیتا ہے۔جب کہ تاجدار
کائنات ﷺ روشنی سے بھی کئی گنا تیز رفتار براق پر سفر معراج پر گامزن ہوئے۔ واقع معراج علم انسانی کیلئے اشارہ ہے کہ اس کائنات رنگ و بو میں موجود عناصر ہی کی باہم کسی انوکھی ترکیب سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ انسان روشنی کی رفتار کو پالے۔اگر ایسا نہ ہوا تو لاکھوں کروڑوں نوری سال(Light Years)کی مسافتوں میں بکھری ہوئی اس کائنات کی تسخیر کا خواب ادھورا رہ جائے گا؟ اقبال علیہ رحمہ نے اسی لئے کہا تھا:
خبر ملی ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
معجزہٗ معراج طئی زمانی اور طی مکانی کی جامعیت کا مظہر(Time & Space Relativity) آج کی جدید سائنس بھی اس کائناتی سچائی تک کچھ حد تک رسائی کرچکی ہے کہ رفتار میں کمی بیشی کے مطابق کسی بھی جسم کا پھیلنا اور سکڑنا، حجم اور فاصلوں کا پھیلنا اور سکڑنا،قانون فطرت اور منشائے خداوندی کے عین موافق ہے۔رب کائنات نے قرآن مجید فرقان حمید میں طئی زمانی و طئی مکانی کے واخع اشارے دیکرانسانوں پر اعلان کر دیا کہ انسان تو بیسوی اور اکیسوی صدی میں اپنی عقل کے بل بوتے پر وقت اور جگہ(Time & Space)کے اضافی تصورات(Relativity) کو اپنے حیتہٗ ادراک میں لانے میں کامیاب ہوگا۔لیکن ہم ساتویں صدی عیسوی کے اوئل ہی میں اپنی وحی کے ذریعہ اپنے محبوب ﷺ پر ان کائناتی سچائیوں کو منکشف کر رہے ہیں۔
یہاں طئی مکانی اور طئی زمانی کا ذکر کردینا لازمی بنتا ہے۔اصطلا حا طئی مکانی اس عمل کو کہتے ہیں۔جس میں کروڑوں کلومیٹرز کا سفر ایک جنبش قدم میں سمٹ جاتا ہے اور صدیوں پر محیط وقت جب سمٹ کر چند لمحوں میں آجائے اسے طئی زمانی کہا جاتا ہے۔اللہ جل شانہ اپنے برگزیدہ اور محبوب بندوں کومعجزہ و کرامات کے طورپر طئی مکانی یا طئی زمانی کے کمالات عطا کرتا ہے مگر حضور نبی رحمت ﷺ کو اللہ نے یہ دونوں کمالات عطا کئے تھے۔یہ دونوں صورتیں قرآن حکیم و احادیث سے ثابت ہیں۔طعی مکانی ذکر کلام اللہ میں اسطرح ہے: قال یا ایھا الملا ایکم یاتینی بعر شھا قبل ان یاتونی مسلیمین۔(النمل،۲۷:۳۸) فرمایا: اے دربار والو ! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے،قبل اس کہ کے وہ لوگ فرما بردار ہو کرمیرے پاس آجائیں۔ملکہ بلقیس کا تخت دربار سلیمان علیہ سلام سے ۹۰۰ میؒ کے فاصلے پر تھا۔پھر قرآن میں آیا کہ: قال عفریت من الجن انا آتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک و انی علیک لقوی آمین۔(النمل،۲۷:۳۹) ایک قوٰ ہیکل جن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اسکے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بے شک میں اس(کے لانے) پر طاقتور (اور)امانتدار ہوں۔ ان دو قرآن آیات کریمہ سے ثابت ہے کہ طئی مکانی اور طئی زمانی (Time & Space) کا حیتہ ادراک میں لانا اللہ پاک کیلئے ممکن اور سہل ہے۔پلک جھپکنے میں ایک صحابی نے تخت بلقیس کو اپنے نبی کے قدموں میں حاضر کردیا ۔اگر طئی مکانی و طئی زمانی کا معاملہ حضرت سلیمان علیہ سلام کے ایک صحابی سے سمٹ سکتا ہے تو اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی آخرالزماں ﷺ کے کمالات کی کیا حدود ہونگی۔حضور ﷺ کے قدم اقدس اٹھانے سے پہلے ہی شرق و غرب کے مقامات زیر پا اقدس آجاتے ہیں! بقول حضرت اقبال علیہ رحمہ :
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کرپہاڑ ان کی ہیت سے رائی
علاوہ ازیں قرآن حکیم اصحاب کیف اور طئی زمانی کے عمل کو تین سونو (۳۰۹) سال کی مدت کو دن کے کچھ حصے یا ایک دن سوتے رہنے کو اس محیر العقولواقہ کو ان آیات میں بیان کرتا ہے: قال قائل منھم کم لبثتم قالو ا لبثنا یوما او بعض یوم۔(الکہف ۱۸:۱۹) ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا ’’تم (یہاں)کتنا عرصہ ٹھہرے ہو‘‘؟ انہوں نے کہا ’’ ہم (یہاں) ایک دن یا اس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص نشانی ہے جس سے ثابت ہے کہ قدرت الٰہیہ کے پیمانے سمٹ گئے تھے۔اللہ نے سورج کے طلوع و غروب کے اصول تک بدل دئے اور اپنے مقربین بندوں کو ظالم بادشاہ کے شر سے ۳۰۹ سال تک محفوظ رکھا۔ذلک تقدیر العزیز العلیم کی رو سے ایک معین فلکیات نظام کو تبدیل کردیا اور ضابتوں کو بدل دیا۔
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں مگر گھڑیوں کی جدائی کی گذرتی ہیں مہینوں میں
اسی طرح حضرت عزیر علیہ سلام کا قصہ قرآن میں موجود ہے جن کو ایک سو سال کیلئے موت طاری کردی تھی اور پھر ازاں قدرتے خداوندی ہی سے وہ ذندہ ہوئے قرآن کہتا ہے: فا ماتہ اللہ مئۃ عام ثم بعثہ قال کم لبثت۔(البکرہ،۲:۲۵۹) سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اسے سو برس تک مردہ رکھا۔پھر اسے ذندہ کیا۔(بعد ازاں) پوچھا : ’’تو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا(ہے)‘‘؟ لبثت یوما او بعض یوم قال بل لبثت مئۃ عام۔ترجمہ۔ ’’میں ایک دن یا ایک دن کا بھی کچھ حصہ ٹھہرا ہوں‘‘ (نہیں) بلکہ تو سو برس پڑا رہا(ہے)‘‘ پھر قرآن فرماتا ہے : فانظر الیٰ طعامک و شرابک لم یتسنہ۔ترجمہ: پس اب تو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ)متغیر(باسی) بھی نہیں ہوئی۔
قدرت خداوندی ہے کہ ایک طرف حضرت عزیر علیہ السلام کے طعام کا تازہ رہنا، پھر دوسری جانب اللہ کے پیغمبر کے گدھے کی ہڈیاں پیوند خاک ہوکر اللہ کے حکم سے گدھا سلامت کھڑا ہونااور دوسرے معجزات جدید سائنسدانوں کومجبور کرگئی ہے اور طئی زمانی کیلئے تصدیق کررہی ہے۔جہاں جدید سائنسدان آج اس امر پر تحقیق کر رہے ہیں کہ کسی لاعلاج بیمار کومصنوعی موت طاری کرکے سرد خانے میں ایک طویل مدت تک محفوظ کرکے مرض کا علاج دریافت ہوجائے پھر اس جسم میں زندگی کی لہر دوڑا دی جائے اور روز مرہ کے معمولات کی ادائیگی کے قابل بنا دیا جائے۔ عین ممکن ہے کہ انسان کایہ خواب بھی پورا ہوجائے۔سائنس اپنے ارتقاء کے ساتھ ساتھ قرآن مجید فرقان حمید میں درج سائنسی حقائق کی توثیق کرتی چلی جا رہی ہے اور مغربی سائنسدان اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود کلام اللہ کو الہامی کتاب تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
معراج مصطفیٰ ﷺ طئی زمانی و طئی مکانی اس بات سے ثابت ہے کہ بنی اسراعیل کے پیغمبر کو اللہ کی زات اپنی قدرت خاص کے کرشمے دکھا سکتی ہے تو اپنے حبیب نبی ﷺ کی خاطر معجزے کیوں نہیں برپا کر سکتی؟ اسلئے یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں کہ شب معراج صاحب لولاک فخر موجودات ﷺ کو زمان و مکان((Time & Spaceکی مسافت طے کروانے کے
بعد اللہ لم یزل نے اپنے قرب و وصال کی بے پایاں نعمیں عطا فرما دیں۔مکام ’’قاب قوسین‘‘ پر اپنی ہمکلامی اور بے حجاب دیدار کا شرف اسطرح ہوا کہ درمیان میں کوئی پردہ حائل نہ تھا۔
بلغ العلیٰ بکمالہ کشف الدجیٰ بجمالہ حسنت جمیع خصالہ صلو اعلیہ و آلہ۔
شب معراج تاجدار کائنات رسول کون و مکاںحضرت محمد ﷺ کو کیا کیا مقامات کی بلندیاں ہوئیں، انہیں عظمت و رفعت کی بلندیوں سے ہمکنار کیا گیا، ارتقاء نسل انسانی کو تسخیر کائنات کے مقفل دروازوں کو دستک کی ترغیب دی گئی،کتنی مسافتیں طے ہوئیں، کتنے زامانے بیت گئے! اس سب کا حال اللہ رب والعزت اور اس کے حبیب ﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا! ہم غلامان پیغمبر ﷺ بس اتنا جانتے ہیں کہ حضور ﷺ کی خاطر پوری خدائی کی طنابیں کھیچ لی گئیں! چرخ نیلوفری دم بخود تھا کہ یہ کون مہمان مکرم لامکاں کی سیر کو نکلا کو نکلا ہے! ستارے حیرت کی تصویر بنے رہگذر مصطفیٰ ﷺ کی گرد کو اپنے ماتھے کا جھومر بنارہے تھے! وقت کی نبضیں تھم گئی تھی !پوری کائنات بے حس و حرکت اور ساکت اپنے روح و رواں کے انتظار میں ایک نقطے پر ٹھہری رہی۔حضور ﷺ کے زمانئہ نبوت میں عقل انسانی نے کرہ ارض پر محیط فضا کے غلاف کو عبور کرتے ہوئے چاند پر پہنچ کرمعجزات معراج نبی ﷺ کے امکان کی نشاندہی تو کردی لیکن اس منزل تک پہچنا معجزہ ہے اور سیارگان فلکی تک پہچنا اس منزل کی تائید اورسفر معراج کی توثیق ہے، فرمان رسول ﷺ کی تصدیق ہے اور یہ تائید و توثیق فقط نشاندہی کی حد تک پہنچ جائے تو پھر نبوت کا معجزہ ہی باقی نہ رہے! اسلئے انسانی سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں جتنی بھی ترقی کرلے آسمان کی حدود کو پھلانگ کر اور مکاں سے لامکاں کی بلندیوں میں داخل نہ ہو سکے گا؟ سفر معراج کے نقوش پا کو چومنا تو سائنس اور انسان کا مقدر بن سکتا ہے، لیکن منزل نبوی ﷺ تک رسائی روز قیامت تک ممکن نہیں ہو سکتی؟ اسی لئے ڈاکٹر اقبال علیہ رحمہ نے فرمایا تھا:
س تو معنی ’’والنجم ‘‘ نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مدو جذر ابھی چاند کا محتاج
٭ڈاکٹر محمد بشیر ماگرے پروفیسر جغرافی اور ریٹائرڈ کالج پرینسیپل ہیں اور راجوری جموں کشمیر کے نواسی ہیں۔