’’معاصر اردو شاعری‘‘

0
0
نام کتاب: سہ ماہی ادب سلسلہ(اردو زبان وادب کا عالمی سلسلہ)
مدیر: محمد سلیم (علیگ)
سن اشاعت: جولائی تا دسمبر2022
صفحات:540
 قیمت:500
ناشر: جی۔ این۔کے پبلی کیشنز،نئی دہلی
مبصر: ڈاکٹر خان محمد رضوان
اس رسالے میں درجنوں مضامین معاصر اردو شاعری اور معاصر اردو غزل ہیئت و تجربے کے عنوان سے ہیں اور کئی مضامین معاصر اردو نظم اور موضوعاتی تنوع پر ہیں۔اسی طرح معاصر اردو فارسی کے عنوان سے بھی ایک مضمون ڈاکٹر صالحہ رشید صاحبہ کا ہے جو کہ بے حد اہم اور معلوماتی ہے۔ معاصرین میں اسعد بدایونی، کوثر مظہری،اطہر نیازی،دل تاج محلی،اخلاق آہن،کبیر اجمل، زبیر صدیقی،زبیر الحسن غافل،نسیم سید،عبید اعظم اعظمی اور خالد جمال قابل ذکر ہیں۔اس طرح یہ رسالہ معاصر اردو شاعری پر ایک خوبصورت دستاویز کی حیثیت رکھتاہے۔
ہم سب کے مشاہدے میں ہے کہ اردو رسائل وجرائد اور ماہنا موں کی اشاعت میں کچھ برسوں سے ایسا زوال واقع ہوا ہے کہ جس پر اگر وقت رہتے قابو نہیں پایا گیا تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اردو زبان و ادب جڑیں مزید کمزور ہوں گی۔ کیوں کہ زبان و ادب کی نشر و اشاعت کے نقیب کا اولین مقصد اس کی تبلیغ ہوتا ہے اگر رسائل اور ماہنا موں کو ہم پڑھنا اور خریدنا ہی بند کر دیں گے تو پھر کس طرح زبان کی حفاظت ممکن ہوسکے گی۔ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ جامعات سے وابستہ استاذہ و طلبہ اور اردو سے محبت کرنے والیاور اردو کو چاہنے والوں کے اندر رسائل سے دلچسپی بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ رسائل وافر تعداد میں خاطر خواہ خریدے نہیں جا رہے ہیں۔جس کی وجہ سے کئی رسائل بند ہوگئے اور اگر یہی صورت حال رہی تو جو جریدے شائع ہو رہے ہیں وہ بھی ہماری عدم دلچسپی کے باعث بند ہو جائیں گے۔جب کہ اس بات کا تجربہ و مشاہدہ تقریباً لوگوں کو بخوبی ہے مگر ہم اپنی سرد مہری سے اجتناب نہیں کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ پروفیسر کوثر مظہری صاحب نے ایک ملاقات میں چشم کشا انکشاف کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے ریسرچ اسکالر کی کلاس لیتے ہوئے ان سے جاننا چاہا کہ کتنے اسکا لرس رسائل کو خریدتے ہیں،تب معلوم ہوا کہ ایک بھی اسکالر ایسا نہیں ہے جو رسائل خریدتا ہو۔کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں فلاں رسالہ خریدتا ہوں،سب کا جواب منفی میں تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر جامعات کے اسکالرس، بی اے۔ ایم اے کے طلبا سرد مہری سے کام لیں گے تب نئی نسل میں اردو کے تعلق سے بیداری کیسے پیدا ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر اردو والا یہ طے کرے کہ ہم ہر ماہ ایک ماہنامہ، سہ ماہی یا سالنامہ ضرور خریدیں گے۔ اگر ہم اس جذبے سے کام کریں گے تب توقع ہے کہ اردو پر چھایا ہوا زوال کا یہ بادل بہت تیزی سے چھٹ جائے گا۔ ان شائاللہ۔
ادب سلسلہ کی خصوصی پیشکش بعنوان”معاصر اردو شاعری” اپنے موضوع پر بے حد اہم اور معلوماتی ہے۔ اس خصوصی شمارے میں معاصر اردو شاعری پر درجنوں اہم اور گراں قدر مضامین شامل ہیں۔ یہ ایک دستاویزی رسالہ ہے جس کی موجودگی سے کتب خانے کا نہ صرف وقار بلند ہوگا بلکہ اس کی قدر و قیمت میں بھی اضافہ ہو گا۔ لہذا اس خصوصی پیشکش کا ذاتی لائبریری،کتب خانے اور مطالعہ گاہ میں ہونا ضروری ہے۔بالخصوص اسکالرس کے لیے یہ نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔اردو رسائل کی تاریخ میں یہ اپنے موضوع پر منفرد رسالہ ہے۔جس کا مطالعہ ہر کس و ناکس لیے غیر یقینی مسرت و انبساط کا سبب ہوگا۔
میں مدیر محمد سلیم علیگ کے جنون کی تعریف کرتا ہوں کہ وہ بڑی پاندی کے ساتھ سہ ماہی نکال رہے ہیں اور تواتر کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھارہے ہیں۔ سچ ہے کہ اگر ہم اردو زبان وادب کا تحفظ چاہتے ہیں تو سلیم علیگ کی طرح دیوانہ وار کام کرنا ہوگا۔ جب تک ہم جنوں کی حد تک کام نہیں کریں گے کامیابی نہیں مل سکتی۔ یہ بھی سچ ہے کہ اردو صرف اور صرف ہماری ذاتی کوششوں سے ہی بچ سکتی ہے۔
جناب محمد سلیم علیگ بحیثیت مدیر اور ڈاکٹر تنویر فریدی علیگ بحیثیت مدیر اعلیٰ اردو زبان و ادب کے فروغ اور اس کی اشاعت کے لیے ایک عرصہ سے کوشاں ہیں۔ فی زمانہ اردو کا رسالہ جاری کرنا یا اردو کی کتابیں شائع کرنا ذوق کی تسکین کا باعث اور شوق کی آبرومندی کا سب تو ہوسکتا ہے مگر معاشی اعتبار سے اپنی ذات کو خود کفیل بنانے اور تجارتی فائیدہ حاصل کرنے کی فکر بے سود ہے۔ کیوں کہ آج زبانیں تمام تر خصوصیات کے باوجود تعصب اور کم نگہی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے بالخصوص اردو زبان زوال آمادگی کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے۔ ایسے پر آشوب اور پر فتن دور میں جہاں زبان وکلچر کے ساتھ مذہبی منافرت کو بڑھاوا دیا جارہا ہو کوئی اپنی زبان کی تحفظ اور اس کی بقا کے ساتھ اس کے فروغ کے لیے تن من دھن سے کوشاں ہو یہ کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں بلکہ بے حد اہم اور بڑی بات ہے۔
یہ تو سچ ہے کہ بظاہر اردو زبان زوال آمادگی کا شکار ہے مگر ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کا وجود محفوظ ہے۔ کیوں کہ کسی بھی زبان کی بقا یا اس کا وجود سطحی بنیادوں پر قائم نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا وجود ملک،قوم اور تہذیبی وثقافتی عمود سے پیوست ہوتا ہے۔ اس لیے فی زمانہ اردو زبان اپنے لوگوں کی سرد مہری اور حکومت کے غیر منصفانہ رویے کا شکار ضرور ہے مگر یہ زبان قائم ودائم تھی،ہے اور رہے گی۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم مسلمان لازمی طور پر اور وہ لوگ جو اردو زبان و ادب کو پسند کرتے ہیں خصوصی طور اور وہ لوگ جو اس سے محبت کرتے ہیں اخلاقی طور پر اس کے فروغ کے لیے آگے آئیں۔ اردو رسائل کو خریدیں، خود پڑھیں، اہل خانہ کو پڑھائیں اور اپنے پڑوسیوں کو بھی اس کی ترغیب دیں کہ وہ اردو سیکھیں اور اس زبان کا کھویا ہوا وقار پھر سے مل جل کر بحال کرنے کی کوشش کریں۔ آپ یقین جانیے کہ جس دن ہم بیدار ہوگئے اور اپنی زبان کے تحفظ کی ذمداری قبول کر لی ان شائاللہ وہ وقت دور نہیں کہ پھر سے اردو زبان و ادب کا پورے ملک میں بول بالا ہوگا۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ اپنی زبان کو حکومت کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑیں گے بلکہ اس کی سرپرستی خود کریں گے اور اس کے فروغ کے اسباب کو تلاش کرتے ہوئے اس پر سختی کے ساتھ عمل کریں گے۔توقع ہے کہ ہم سب آج ہی یہ طے کریں گے کہ اردو کا ایک رسالہ ضرور خریدیں گے اور اردو کے فروغ کی تحریک کا حصہ بنیں گے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا