مظلوموں کے مسیحا : بابا صاحب ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر

0
0

پروفیسر نسرین بیگم علیگ

رام جی سکپال اور بھیما بائی کے گھر ان کی چودہویں اولاد پیدا ہوئی ۔وہ دن ۱۴ اپریل ۱۸۹۱ ء ؁ کا تھا ۔ وہ ماہر خندان سے تعلق رکھتے تھے ۔اس بچے کو سب پیار سے بھیما کہتے تھے ۔بھیما کے والد رام جی سکپال مہو ،مدھیہ پردیش کی چھاونی میں انگریزی فوج کے صوبیدار تھے ۔بھیما نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں تو اس وقت بڑا متضاد تھا ۔ہندوستان کے ہندوئوں میں کچھ لوگ نیچ ذاتوں کے جانے جاتے تھے ۔ ا ن لوگوں کی زندگی نرک سے بدتر تھی ۔ان سے نہ کوئی محبت کرتا تھا اور نہ ہی کسی طرح کی ہمدردی رکھتا تھا ۔ اونچی ذات کے ہندو ان سے نفرت کرتے تھے ۔اور ان کو اچھوت کہتے تھے ۔
یہ اچھوت لوگ بڑی ذات کے لوگوں کے کنوئوں کے پانی کو ہاتھ نہیں لگا سکتے تھے ۔یہاں تک کہ ان بڑے ہندو ذات کے لوگوں کے مندر بھی نہیں جا سکتے تھے ۔بھگوان پر بھی انہیں کا قبضہ تھا ۔ اس کے علاوہ انہیں تعلیم سے بھی محروم رکھا جاتا تھا ۔ اونچی ذات کے رحم و کرم پر ان کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ سڑکوں ،گلیوں میںجھاڑو لگاتے ،جوتے بناتے اور ان کی مرمت کرتے تھے ۔بید کے ٹوکرے بنانا اور مردہ جانوروں کی کھال اتارنا ان لوگوں کا کام تھا جنہیں اچھوت کہا جاتا تھا ۔
بڑے ذات کے لوگوں کا ماننا تھا کہ یہ لوگ گندگی اٹھانے اور غلاظت ڈھونے کے لئے ہی پیدا ہو ئے ہیں ۔
ہندوستان کے ہزاروں سال پرانے کلچر میں انسانوں کو پیدائشی طور پر چار خانوں میں بانٹ دیا گیا تھا ۔پہلے نمبر پر برہمن ، دوسرے پر چھتریہ، تیسرے نمبر پر ویش اور چوتھے نمبر پر شودر کہلانے والی قوم ہوا کرتی تھی ۔یہی چوتھے نمبر کا طبقہ یعنی شودر ا علی ذاتوں کی خدمت کے لئے جیسے پیدا ہوا تھا ۔اور اسی وجہ سے انہیں کسی قسم کے انسانی اور سماجی حقوق حاصل نہیں تھے ۔اگر وہ کسی اونچی ذات والے کو چھو لے تو سزا کا مستحق ہوتا تھا ۔انہیں شہروں میں رہنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔یعنی جہاں اعلی ذات کے لوگ رہتے تھے یہ لوگ وہاں نہیں رہ سکتے تھے ۔اگر ہم ورق گردانی کریں تو معلوم ہوگا کہ سیکڑوں سالوں تک یہ اچھوت تکلیفوں کی زندگی جیتے رہے ۔
ان حالات میں معصوم بچے بھیم کو اس بات کا پتہ چلنے لگا کہ وہ بھی ایک اچھوت ہے ۔انہوں نے یہ دیکھا کہ سامان خریدنے پر دکاندار سامان کے پیکٹ ان کی ماں کے ہاتھوں میں پھینک دیا کرتے تھے تاکہ وہ اس کی ماں کو چھو نہ لیں ۔یہی نہیں اسکول میں بھیم کو فرش پر ایک کونے میں بٹھایا جاتا تھا اور بیٹھنے کے لئے انہیں ایک بوری کاٹکڑا گھر سے لے جانا پڑتا تھا ۔اور ماسٹر ان کی کاپی کتاب کو چھوتے نہیں تھے ۔اور انہیں اسکول میں پانی بھی نہیں پینے دیا جاتا تھا ۔یہ حالات تو گھر سے باہر کے تھے ۔جسے وہ دیکھ اور سمجھ رہے تھے ۔یہی نہیں بلکہ حجام ان کے بال کاٹنے کو تیار نہیں تھا ۔اس طرح کے بے شمار مسائل جن کا انہیں ہر روز سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔
ہم اگر غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک معصوم بچے کے دل و دماغ پر ان باتوں کا کیا اثر ہو رہا ہوگا ۔وہ نفسیاتی طور پر کیسا محسوس کرتا ہوگا ۔ان باتوں سے و ہ بہت چھوٹی عمر میں یہ سمجھ گئے کہ جنہیں اچھوت کہا گیا وہ اسی طرح صدیوں سے اونچی ذات والوں کے حاتھوں بے عزت اور ذلیل ہوتے چلے آئے ہیں ۔بھیم خاموشی سے ان حالات کو دیکھ رہے تھے اور خاموش رہ کر یہ سب کچھ برداشت کر رہے تھے ۔اور ان حالات میں بھی ا نہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی ۔
بھیم کے والد کا انتقال ۲ فروری ۱۹۱۳ ء؁ کو ہو گیا ۔والد کے انتقال کے بعد ساری ذمہ داری بھیم رائو پر آپڑی ۔پیسوں کی کمی کی وجہ سے آگے پڑھنا مشکل تھا مگر مہا راجہ بڑودہ سیاجی رائو نے انہیں وظیفہ دیا جس کی وجہ سے انہوں نے بی اے پاس کیا ۔سیاجی رائو نے اعلی تعلیم کے لئے بھیم رائو کا انتخاب کیا ۔اور بھیم اعلی تعلیم کے لئے امریکہ چلے گئے ۔جولائی ۱۹۱۳ ء؁ میں بھیم رائو نیو یارک پہنچے ۔انہوں نے ـ ِ ـ ’’ قدیم ہندوستان میں تجارتــــ‘‘کے عنوان پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ۱۹۱۵ ء؁ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ان کا دوسرا تحقیقی مقالہ ’’ہندوستان کا قومی بیوپاری منافع‘‘( نیشنل ڈیوڈینڈفار انڈیا )ایک تاریخی تجزیاتی مطالعہ جسے۱۹۱۶ء؁ میں کولمبیا یونیورسٹی نے منظور کیا اور آٹھ سال بعد وہ چھپا تو یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری دی ۔
بھیم رائو کو یہ محسوس ہوا کہ بھید بھائو اور اچھوت کہنے سے انسان کے دماغ پر کتنا زبردست اثر ہوتا ہے ۔انہوں نے امریکہ میں رہ کر یہ محسوس کیا کہ برابری کیا ہوتی ہے ۔انسان ذہنی طور پر آزاد ہوتا ہے تو اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کچھ الگ ہی ہوتی ہے ورنہ جب وہ اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتا تو اس کا اثر اس کے دل و دماغ پر کس طرح ہوتا ہے اور وہ اپنے کو بے بس اور لاچار پاتا ہے ۔جبکہ بھگوان نے ہر انسان کو ایک جیسا پیدا کیا پھر یہ ذات پات کا بٹوارہ کیسا ؟
انسان کو اچھوت اور گندگی اٹھانے والا کہ کر انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو ختم کر دینے کا کام کیا جاتا ہے ۔اورایسی سوچ ہمارے ملک میں عام بات ہے ۔ان سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں شودر یعنی چوتھے نمبر پر رکھا گیا ۔انسانوں کا بٹوارہ تو یہیں سے کر دیا گیا ۔
بھیم رائو نے یہ محسوس کیا کہ اگر ہمیں اچھوت کے بدنما داغ کو مٹانا ہے تو تعلیم ضروری ہے ۔امریکہ سے وہ سیاست اور اکنامکس کی تعلیم کے لئے لندن چلے گئے ۔مگر بڑودہ ریاست کے وظیفہ بند کر دئے جانے کی وجہ سے بھیم رائو واپس ہندوستان آگئے ۔ہندوستان آکر انہیں اسی چھوا چھوت کا سامنا کرنا پڑا ۔اس وجہ سے وہ بہت غمزدہ ہوئے ۔وہ کس کس کا سامنا کرتے کوئی پینے کا پانی نہ دیتا توکوئی اپنے قریب نہ آنے دیتا ۔وہ ان حالات سے جوجھ رہے تھے ۔ایسے میں ان کی زندگی ہی مکمل طور پر مصیبت بن گئی تھی ۔
بھیم رائو نے یہ طئے کیا کہ ہمیں اس چھوا چھوت کی دیوار کو ہی گرانا ہوگا اور ان بیڑیوں کو توڑنا ہوگا۔یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ جب ہندوستان میں علماء صوفیا ء کرام ،تاجر اور سوداگر آنا شروع ہوئے اور پسماندہ ذاتوں کی بستیوں میں ہی رہنے لگے تو دیکھا یہ گیا کہ یہاں سے ہی تبدیلی شروع ہونے لگی ۔
بھیم رائو نے جولائی ۱۹۲۴ء؁ میں ’’ بہشکرت ہتکاری سبھا ‘‘ بنائی ۔اس سبھا کا مقصد ان کے نزدیک یہ تھا کہ ہندوئوں میں ذات پات کے نظام کو پوری طرح ختم کر دینا تھا ۔مگر اس چھوا چھوت کی جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی تھیں کہ انہیںجڑ سے اکھاڑنا آسان نہیں تھا ۔اس کام کو کرنے کے لئے انہوں نے تعلیم کو اولیت دی ۔اور جگہ جگہ اسکول کھولے ۔اور انہونے اچھوتوں کے مقدمات کی پیروی کی ۔انہیں تعلیم کے لئے جگایا ۔یہ سارے کام وہ بہت محنت اور لگن سے کر رہے تھے ۔ان کی اس محنت کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ غریب ،پسماندہ اور مظلوموں کے مسیحا بن گئے ۔اور لوگ ان کو با با کہنے لگے ۔اور اس طرح ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر بابا صاحب امبیڈکرہوگئے ۔
بابا صاحب نے یہ طئے کر لیا کہ ہمیں ہندوستان سے اونچ نیچ کے بھید بھائو کو ختم کرنا ہوگا ۔اس کے بعد بھی اچھوتوں پر پانی کو لے کر حملہ کیا گیا ۔بابا صاحب نے یہ فیصلہ لیا کہ ہمیں جوابی حملہ نہیں کرنا ہے ۔اور وہ اچھوتوں کے مندر میں داخلے ،کنوئوں اور تالابوں سے پانی لینے کے حق کے لئے مسلسل جدو جہد کرتے رہے ۔مگر یہ کام بہت ہی مشکل تھا ۔انہوں نے پسماندہ لوگوں کی سبھائوں میں کہا کہ وہ بڑی تعداد میں فوج میں بھرتی ہوں ۔اور بمبئی کے گورنر سے مل کر ماہروں کے فوج میں بھرتی پر پابندی ہٹانے کی درخواست کی ۔اور گورنر نے منظوری دے دی ۔
اس وقت ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے سرگرمیاں تیز تھیں ۔ماوئوں نے اپنے بچوں کو وطن عزیز پر قربان کردیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں کی قربانیوں کے بعد ہمارا ملک آزاد ہوا ۔اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر پہلے وزیر قانون کے عہدے پر فائز ہوئے ۔آزاد ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی نے ایک دستور دا مسودہ تیار کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی ۔ڈاکٹر بھیم رائو امیڈکر اس کمیٹی کے صدر بنے ۔یہ مسودہ فروری ۱۹۴۸ء؁ میں پورا ہوگیا ۔دستور کا مسودہ عوام کے سامنے آیا اور ترمیم کے لئے چھ ماہ تک رہا ۔پھر اس مسودے کو دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا ۔اس میں آٹھ باب ۳۹۵ دفعات تھیں ۔بحث کے بعد پاس کر دیا گیا ۔
باباصاحب ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کی انتھک کوششوں سے جس تکلیف کو وہ بچپن سے برداشت کر رہے تھے ۲۸ نومبر ۱۹۴۸ ء؁ کو دستور کی دفع ۱۱ ،چھوت چھات کے خاتمہ کو پاس کر دیا گیا ۔
مان احساں ہمارا ہمارے وطن
ہم سے پہلے یہاںتھا اندھیرا بہت
بھیم رائو امبیڈکر کے ہم احسان مند ہیں کہ جنہوں نے تعلیم کے ذریعے ہندوستان میں انقلاب برپا کیا ۔اور پسماندہ ذاتوںا ور مظلوموں کو اس قابل بنا دیا کہ وہ ملک کے اونچے سے اونچے عہدے پر بیٹھ سکتے ہیں ۔اسی مقصدکو حاصل کرنے کے لئے اور اونچے مذہب کے لوگوں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے بابا صاحب نے ہندو مذہب چھوڑ نے کا ارادہ کیا تو ایک طوفان برپا ہو گیا ۔
آخر ۴ اکتوبر ۱۹۵۶ء؁ کو بھیم رائو اپنی بیوی اور تین لاکھ لوگوں کے ساتھ بدھ مذہب کو قبول کر لیا ۔
بھیم رائو سے لوگوں نے جب سوال پوچھا تو ان کا جواب یہ تھا ’’ یہ سوال آپ خود سے یا اپنے باپ دادا سے کیوں نہیں کرتے کہ میں نے ہندو مذہب چھوڑ کر بدھ مذہب کیوں اختیار کیا ؟
ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کا یہ سوال جائز تھا ۔جس کا جواب آج تک نہ مل سکا ۔اور پوری زندگی جدوجہد کرنے والا وہ سپوت ۵ دسمبر ۱۹۵۶ء؁ کو نیند ہی میں ہمیشہ کی نیند سو گیا ۔ان کی پوری زندگی جدوجہد بھری تھی ۔بھیم رائو کی زندگی کا مقصد ہی پسماندہ طبقات اور مظلوموں کو ان کا حق دلانا اور ہندوستان میں بھائیچارہ اور برابری کا ماحول پیدا کرنا تھا ۔
آج ۱۴ اپریل ہندوستان کے اس عظیم سپوت بابا صاحب ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کے یوم پیدائش پر دل گہرائیوں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا