مطالعہ کو اپنا رفیق حیات بنانا لازمی ہے

0
0

۰۰۰
عبد الرحمان عثمانی کنچن پوری
چندن کیاری ، بوکارو
۰۰۰
اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی ابتدا لفظ اقراء سے فرمائی تا کہ اصل یا شرک سے اس سے یہ پتا چلے کہ مذہبِ اسلام میں پڑھنے کی حصول علم اور مطالعہ کی بڑی اہمیت ہے اور حصولِ علم تمام اعمال پر مقدم ہے ، اگر انسان صرف مدرسہ یا اسکول کی تعلیم کو ہی مکمل سمجھنے لگے اور اسی پر اکتفا کر کے بیٹھ جا ئے تو اس کی سوچ اور سمجھ کا دائرہ نہایت مختصر ہو کر رہ جا ئے گا ۔ مدارس یا اسکول وغیرہ میں فقط مطالعہ کا ڈھنگ سکھایا جا تا ہے کہ مطالعہ کس طرح کیا جا ئے ، کس قسم کی کتابوں کو زیر مطالعہ رکھا جا ئے یہ ایک حقیقت ہے کہ جو انسان جتنا زیادہ مطالعہ کر ے گا اتنا ہی اس کے اندر نکھار پیدا ہو گا ۔ مطالعہ انسان کی صلاحیتوں کو ابھارنے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ مطالعے ہی کا کمال ہے کہ انسان اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے اور اپنے غور و فکر کر نے کی نظریئے کو بہتر بنا سکتا ہے ، اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کر نے کے لئے اسعت مطالعہ کی بے حد ضرورت ہے جو انسان میں یقین کو بڑھاتا ہے اور اس کے ذہن کو کشادہ کر تا ہے ، صلاحیتوں نکھارتا ہے ، جس طرح جاندار کو زندہ رہنے کے لئے کھانا پینا اور سانس لینا ضروری ہے اسی طرح تقریر اور تحریر کے لئے مطالعہ بہت ضروری ہے ۔ کسی مقرر کا بغیر مطالعہ کے تقریرکر نا اور مضمون نگار کا بغیر مطالعہ کے لکھنا ایسا ہی ہے جیسے ہوا کہ بغیر پتنگ اڑانے کی ناکام کوشش کر نا ، مطالعہ روانی کے ساتھ بولنے اور لکھنے کی طاقت پیدا کر تا ہے ، کم ہمتی اور احساس کمتری کو ختم کر تا ہے ، جو شخص مطالعہ کو اپنا رفیق حیات بنا لیتا ہے وہی علم کی دنیا میں راج کر تا ہے ۔ کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہو نے بچاتی ہے بلکہ انسان کی غم خوار و مدد گار بھی ہو تی ہے ، مطالعہ انسان کو اس کی کوتاہیوں اور کمزورویوں ںکا احساس دلاتا ہے اور اس کے بعد ان کمزوریوں کو وہ دور کر نے کی کوشش کر تا ہے جس میں اس کے علم میں پختگی پیدا ہو تی ہے اور اچھے برے میں فرق معلوم ہو تا ہے ۔ ماضی قریب میں ایسے ایسے علم کے پہاڑ گذرے ہیں جس کی تصانیف میں زبانوں کی زیادہ تر چاشنی ملتی ہے ۔ جنہوں نے اردو زبان کے عشق لا زوال سے سر شار قلب کو بے تاب اور فکر و نظر کو تا بناک بنا دیا ان لوگوں کی حیثیت جدا گانہ ہے ۔ مولانا ابو الکلام آزاد خطابت کے افق پر صبح خزاں کا اجالا تھے ، علامہ شبلی کے الفاظ میں ان کا دل سلگتا اور خون بولتا تھا ، مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے قلم کی حلاوت ایسی تھی کہ اسے شروع کر کے ختم کئے بغیر چھوڑ دینا اہلِ ذوق کے لئے مشکل ہے ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اپنی علمی و ادبی اور تاریخی تحقیقات میں بڑے دقیقہ رس اور الفاظ کے انتخاب میں انتہائی ذکی الحس تھے ، مولانا مناظر احسن گیلانی یہ ادیبوں کے ادیب تھے ان کا ذہن اتنا کشادہ اور قلم اتنا مواضہ تھا کہ جس موضوع پر لکھتے اس کے ہر پہلو پر معلومات کا انبار لگا دیتے تھے ، مولانا نور عالم خلیل امینی ایک ہنر مند قلم کار اورکا میاب قلم نفیس تھے اگر ان کو رہنمائے اردو و عربی کہا جا ئے بے جاں نہ ہو گا اور ابھی ابھی ہمارے درمیان دو ایسے ہیرے موجود ہیں جس کو دنیا مفتی تقی عثمانی اور مفتی خالد سیف اللہ رحمانی کے نام سے جانتی ہے ، یہ قلم کے دھنی اور زبان کے غنی ہیں ۔ ایسی بہت سارے شخصیات تھیں اور کچھ موجود بھی ہیں جنہوں نے مطالعہ کے ذریعے علم میں دسترس حاصل کی ۔ آج بھی اگر ہم نے اپنی غلفت کی چادر کو چاک نہ کیا تو یقینا چاروں طرف پھیلی ہو ئی گمراہی کے دبیز بادلوں کی بارش ہمیں تنکے کے مانند بہا لے جا ئے گی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مستقل دلچسپی اور مستقل محنت کے ساتھ مطالعہ کر نے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ آمین
Mob: 9431191858

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا