ڈاکٹر طارق قمر
کسی ایسے شاعر کی نگارشات پر قلم اٹھانا جس نے کم سنی میں ہی لالٹین کی چٹخی ہوئی چمنی سے پھوٹتی روشنی میں کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچتے ہوئے جبر و تشدد کے خلاف خطِ تنسیخ کھینچ دی ہو ، اور شعوری طور پر خطِ مستقیم کھینچنے کا قصد کرلیا ہو، جس نے اپنی صداقتوں کو زہر کے پیالے میں ڈبوکر زہر کو امرت بنانے اور صلیب و دار کے پس منظر میں سانس لیتی ہوء رفعتوں اور عظمتوں کی شہادت دینے کے لئے اپنے ضمیر کو بیدار اور اپنے وجود و حواس کو تیار کرلیا ہو جس نے سرِ شاخِ گل اور سرِ شاخِ نیزہ کھلنے والے پھولوں کی خوشبو سے اپنی روح کو سرشار کرلیا ہو۔ جس نے دل کی دنیا کے گہرے اندھیروں کو جگمگانے کے لئے چراغوں میں سرخ نور کے قطرے نچوڑ دئے ہوں، جس نے زہر آلود موسم سے انتقام لینے کے لئیچشمِ نم کو جھلستے اور سوکھتے پیڑوں کی نذر کردیا ہو جس نے اپنی ایڑھیوں سے پھوٹنے والے چشموں کو کوثر کی جانب موڑ کر اپنے حصے اور اپنے مقدر کے صحرا میں سیراب و مسرور رہنے کا ہنر سیکھ لیا ہو۔ایسے فن کار کی تخلیقات کا حق کیا ہمارے عہد کی تنقید کا کوئی بندھا ٹکا اصول یا کوئی طے شدہ نظریہ ادا کرسکے گا ؟
چھاؤں سے دھوپ تک۔کو کچھ دیر پڑھا تو یہ احساس ہوا کہ یہ مصداق اعظمی کی نظمیہ شاعری کا نہیں بلکہ سحر انگیزیوں اور خون اگلتی سچائیوں کا مجموعہ ہے۔۔
یہ دھوپ چھاؤں سا اک شخص کیا کہوں اس کو،
نظر کے ساتھ سراپا بدلتا رہتا ہے۔۔
کبھی بھی اچھی اور سچی شاعری کو سخت گیر نقادوں اور مفکروں کی ضرورت نہیں رہی ہے اتنا ضرور ہوا ہے کہ اعلیٰ و ارفع شہ پاروں کا لہو چاٹ کر تنقید کی دیوی تاب و توانائی حاصل کرکے خود کو جوان اور خوبصورت بنائے رکھنے کی کوشش ضرور کرتی رہی ہے اسی لئے سچے اور حقیقی فنکاروں نے ہر عہد میں تنقید سے بے نیاز ہوکر تخلیقی سفر طے کیا ہے۔
اک طرف میری بے چینیوں کی گھٹن
اک طرف ظلم اپنی جوانی پہ ہے۔
مصداق اعظمی کی بے چینیاں ان کی گھٹن بے مقصد و بے معنی نہیں سماج کی بے راہ روی کجروی کھوکھلے پن اور ناہمواریوں نے ان کے ذہن و دل پر ضربیں لگاکر ان کیاحساس کو زخمی کردیا ہے
مصداق اعظمی کی نظمیں پڑھتے ہوئے کسی نقطے پر ذہن کا اچانک ٹھہر جانا، کتاب کو ہاتھ سے رکھ کر دیر تک کبھی دیوار کبھی چھت کو تکتے رہنا اور پھر کسی دوسری دنیا کے نہ معلوم راستوں اور نہ معلوم منزلوں کی طرف نکل جانا طلسم نہیں تو اور کیا ہے۔ اس فضا سے پھرکتابی دنیا میں واپس آئیے تو ایک اور خوبصورت احساس اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔۔۔۔۔۔
برا نہ مانے تو اک بات پوچھ لوں تجھ سے
تو اپنے آپ کو
کس آئینے میں دیکھتا ہے
کبھی حساب بھی کرتا ہے اپنے بارے میں
کہ تیرے ظاہر و باطن میں
فرق کتنا ہے۔۔۔۔۔۔
مصداق اعظمی کی نظمیہ شاعری کی کائنات متنوع رنگوں سے آراستہ ہے ، عشقِ لا حاصل کا جنوں خیز لہو میں ڈوبا ہوا سرخ رنگ،خلوص وشواس کا گہرا سفید لازوال رنگ ،شبِ ہجر کی اداسیوں اور تنہائیوں میں ڈوبا ہوااداس کالا رنگ ،من کی دنیا میں ڈوب کر تن کے ذخم چھپانے والا رنگِ خودی ، معاشرے کی پیشانی پر چسپاں بھوک ظلم افلاس جبر تشدد اور عدم انصاف سمیت کتنے ہی رنگ ہیں جو مصداق اعظمی کی شاعری کے کینواس پر بکھرے پڑے ہیں۔۔۔۔
دل کی شاخوں سے لپٹی ہوء
زرد موسم کی یادوں کو معلوم تھا
فصلِ گل کی یہ بکھری ہوئی داستاں
اس قدر کیوں خزاؤں سے مانوس ہے
مصداق اعظمی کا احساس کبھی چھاؤں سے دھوپ تک جاتا ہے تو کبھی اس گھنیرے اور دیاوان برگد کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے جس کے سائے میں سورج مزاج لوگوں نے روحانی تسکین حاصل کی ہے۔۔۔۔۔
ایک برگد کی دیاوان گھنیری چھاؤں
دھوپ اور روپ کے ہر رنگ سے اوپر اٹھ کر،
میرے اندر ہی اتر جاتی ہے۔
زندہ کرتی ہے کسی شے کو وہاں
اور کوئی شیہے کہ جو مرجاتی ہے۔۔۔
یوں تو مصداق اعظمی نے ایک زیرک ناظر و مشاہد اور ایک حساس شاعر کی حیثیت سے زندگی کے تمام پہلوؤں اور مسائل کا احاطہ نہایت خوش سلیقگی اور شعور کی پختگی کے ساتھ کیا ہے اور اس میں کہیں کہیں جمالیاتی حس بھی اپنی زندگی اور تابندگی کا پتہ دیتی ہے ، آنکھوں سے روشنی کی باتیں کی جاتی ہیں ،رات زلفوں سے سرگوشیاں کرتی ہے، پائے نازک پر پھول رشک کرتے ہیں ماتھے پر بوسوں کے چاند روشن کییجاتے ہیں ،لبوں کی جنبش سے گل کھلائے جاتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے حسن و عشق کی سانس لیتی دھڑکتی داستان دل کے سنّاٹوں میں کہیں کھو جاتی ہے۔۔لیکن کمالِ فن یہی ہے کہ یہ شاعری اپنے قاری کو حسن و شباب کی رنگینیوں میں غرق کرنے کے بجائے انسانی مسائل سے روبہ رو کراتی ہے اْس بے حس معاشرے میں شمعِ ادراک روشن کرنے ،احساس کی قندیل جلانے کی کامیاب کوشش کرتی ہے جس میں اخلاق و خلوص کی کھیتیاں سوکھ چکی ہیں اور چشمِ محبت آنسوؤں سے خالی ہے، ٹوٹتے بکھرتے خود غرض رشتوں کا کوئی محور و مدار تک نہیں ، دستِ سوالی پر نا امیدی کے سکّے رکھنے والے شرمسار تک نہیں ، ایک کھیل ہے جو بے بسی و محرومی کی شکار لاچار زندگی کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔۔۔نظموں کے ان اقتباسات پر نظر ڈالئے اور سوچئے شاعری زندگی ہے یا زندگی شاعری ہے۔۔۔۔
سانس لینے کی دشواریاں اک طرف
قتل وغارت گری سے وہ تھک جائے گا
اس کے ہر فعل کو موت بے وقت آجائے گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی نہریں
جو اسکے کھیت کو کو سیراب کر دیتیں
بہائی جارہی ہیں کاغذوں پر
ایک مدت سے۔۔۔۔۔
بھیڑ اور بھوک کی اس
جنگ کا نقشہ دیکھو
کیسے منصوبے سے تیار کیا ہے اسنے۔۔۔۔۔۔
اہلِ نفرت کے تعصب کی
کڑی دھوپ کبھی
میرے جذبے
مرے ایثار و محبت کا لہو مانگتی ہے۔۔۔۔۔۔
مصداق اعظمی نے قومی مسائل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مسائل کو بھی اپنی نظموں کا موضوع بنایا ہیوہ نا مساعد حالات میں بھی زندگی کی الجھنوں اور صعوبتوں سے گھبراتے نہیں بلکہ مسائل و مشکلات کا سامنا ہمت و جواں مردی سے کرتے ہیں اور نہایت خلوص ودرد مندی سے دوسروں کو بھی نبرد آزما ہونے کی دعوت دیتے ہیں انکے نزدیک زندگی کے نشیب و فراز ، تیشہ و سنگ اور جوئیشیر کی مانند ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صرف موضوعات اور اسلوب کی سطح پر ہی نہیں بلکہ لسانی سطح پر بھی مصداق اعظمی کی نظمیں ان کے لسانی شعور و عرفان کی غمازی کرتی ہیں۔ان کا تحیّر ان کی نظموں کے لیے فضا تیار کرتا ہے وقت اور حالات کے اعتبار سے نئی زمینوں کا لمس حاصل کرتاہے ،اور پھر استعجابِ اظہار سے ہم آہنگ ہو کر نظموں سے قاری کا طلسمی رشتہ قائم کرتاہے یہی سبب ہیکہ ان کی نظموں کا قاری معنی کی لہروں پر سوار ہوکر دریا کے کسی اور کنارے نکل جاتا ہے خدا کرے ان کے دریائے تخئیل کی موجوں کا یہ اضطراب کبھی کم نہ ہو کیونکہ یہی بیچینی ان کی تخلیق کی روح ہے۔۔