ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
زکوٰۃ اسلام کا ستون ہے، اس کا قرآن میں تیس مقامات پر ذکر ہوا ہے۔ جس میں صلوٰۃ قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے حکم دیا گیا ہے۔ جس طرح نماز جسمانی عبادت ہے اسی طرح زکوٰۃ مالی عبادت ہے۔ سورۃالتوبہ (آیت 60) میں زکوٰۃ کے مصارف کا ذکر موجود ہے۔ اس آیت مبارکہ کے مطابق فقرائ، مساکین، عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھا کرنے والے) مؤلفتہ القلوب، غلام کی آزادی، قرض سے گردن چھوڑانے، فی سبیل اللہ کے کاموں اور مسافروں پر زکوٰۃ صرف کی جانی چاہئے۔ احناف کے نزدیک کسی ایک مصرف میں زکوٰۃ دینے سے بھی فرض کی ادائیگی ہو جائے گی۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ذکر نماز کے ساتھ کیوں کیا گیا ہے اور آیت مبارکہ میں بیان مصارف کی ترتیب میں کیا اشارہ ہے۔
صلوٰۃ قائم کرنے کے لئے وقت مقررہ پر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اجتماعی نظام زکوٰۃ کے بغیر سماج کو اس کا فائدہ ملنا مشکل ہے۔ آیت مبارکہ کی ترتیب اجتماعی نظام زکوٰۃ کے ساتھ ترجیحات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ دین اسلام وسائل کی تقسیم کے ذریعہ سماج میں پائی جانے والی اقتصادی ناہمواری کو دور کرنا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ کسی کو بھی اپنی ضرورت کے لئے ہاتھ پھیلانا پڑے۔ اس لئے دولتمندوں کے مال میں غریبوں اور کمزوروں کا حصہ رکھا گیا ہے۔ اللہ رب العزت یہ جانتا یے کہ انفرادی طور پر اقتصادی ناہمواری کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے زکوٰۃ کے اجتماعی نظام پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں فوقیت فقرائ و مساکین کو دی گئی ہے۔ زکوٰۃ کے شعبہ میں کام کرنے والوں (عاملین) کو اکٹھا کی گئی زکوٰۃ سے ہی تنخواہ دی جائے گی۔
اس کے بعد مؤلفتہ القلوب کی مد میں زکوٰۃ خرچ کرنے کا حکم ہے۔ مؤلفتہ القلوب سے مراد اسلام اور مسلم دشمنوں کا قلب نرم کرنا ہے یعنی کچھ رقم دینے سے اگر کسی اسلام یا مسلم دشمن کا منھ بند ہو جائے، کوئی غیر مسلم غریب یا بے سہارا کی مدد کرنے سے وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائے، غریب مسلمانوں کو مال کے لالچ میں مرتد ہونے سے بچانے، نو مسلموں کو مالی کسمپرسی و کمزوری کی بنا پر کفر کی طرف پلٹنے سے بچانے کے لئے زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنی چاہئے۔ کئی علماء کرام کہتے ہیں کہ اسلام غالب ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ انہوما نے اسے منسوخ کر دیا تھا۔ لیکن اللہ کے رسول اس مد میں زکوٰۃ سے اعانت کرتے تھے۔ میرے نزدیک آج بھی اتنی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی ابتدائے اسلام میں تھی۔ آج زکوٰۃ کی رقم غیر مسلموں کی اصلاح، بیروزگار، بیمار لوگوں کی اعانت میں خرچ کی جانی چاہئے۔
آج غلام تو نہیں ہوتے لیکن بندھوا مزدور، پشتینی نوکر ضرور پائے جاتے ہیں۔ انہیں آزاد کرانے کے لئے زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جائے۔ اس کے بعد قرض سے گردن چھوڑانے کا معاملہ آتا ہے۔ ہر سال ہزاروں کسان معمولی قرض کی وجہ سے خود کشی کر لیتے ہیں۔ مسلم سماج میں بھی کئی کھاتے پیتے لوگ کاروبار میں نقصان کی وجہ سے قرض میں ڈوب جاتے ہیں۔
وہ اپنی پریشانی کسی سے شیئر بھی نہیں کر پاتے۔ ایسے لوگوں کی زکوٰۃ سے عیانت کی جائے تو وہ دوبارہ کھڑے ہوکر زکوٰۃ دینے کے لائق بن سکتے ہیں۔ فی سبیل اللہ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں تعلیم، صحت، خدمت خلق، مفت دوائیں، راشن، غریب بچوں کی اسکول، کالج، کوچنگ کی فیس وغیرہ شامل ہے۔ اس وقت زکوٰۃ کا بڑا حصہ دینی مدارس کے لوگ یا پھر پیشہ ور بھیکاری لے جاتے ہیں۔ جو زکوٰۃ کے اصل مستحق ہیں وہ محروم رہتے ہیں۔ اس میں زکوٰۃ کو لے کر مسلم سماج کی نا واقفیت کا بڑا دخل ہے۔
مسافروں پر بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ ہو سکتی ہے یہ تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہے۔ کئی مسافر جیب کٹنے یا سامان چوری ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر مارے مار پھرتے ہیں۔ اچھا کھاتا پیتا آدمی بھی کئی مرتبہ مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔ اس کے ساتھ لوگ پیشہ ور بھکاری جیسا سلوک کرتے ہیں۔ یہ سب کام اسی وقت ممکن ہیں جب زکوٰۃ کا نظام قائم ہو۔ سماج کو اس کا فائدہ بھی تبھی ملے گا۔ اگر مسلمان اپنے محلہ، گاؤں اور قصبات میں زکوٰۃ کا نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئے گی اور ان کی سماج میں کتنی عزت بڑھ جائے گی۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ قرآن میں بتائی گئی مدوں میں زکوٰۃ کی رقم کو خرچ کریں۔
ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں ہر سال بیس ہزار کروڑ روپے کی زکوٰۃ نکلتی ہے۔ جو کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے خرد برد ہو جاتی ہے۔ کچھ پر چندہ خور مولوی ہاتھ صاف کر لیتے ہیں اور کچھ پیشہ ور فقیر ڈکار لیتے ہیں۔ مسلمان ثواب کی نیت سے دل کھول کر زکوٰۃ کی رقم ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ بغیر یہ سوچے کہ مستحق تک اس کا حق نہ پہنچا کر وہ گناہ گار ہو رہے ہیں۔ جس علاقہ سے زکوٰۃاکٹھی ہوگی اسی علاقہ کے مستحقین تک اسے پہنچانا ہوگا۔ اگر علاقہ کی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد کچھ رقم بچتی ہے تو اسے آس پڑوس کے علاقے کی ضرورت پورا کرنے میں لگایا جا سکتا ہے۔ فقراء ، مسکین، غریب، ضرورت مندوں کی حالت اسی وقت بہتر ہوگی جب مسلسل ان کی اعانت ہو۔ ایک مرتبہ تھوڑا یا بہت کچھ دے دینے سے ان کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اب غور کیجئے کیا ایسا کوئی نظام آپ کے علاقے میں ہے۔ اگر نہیں ہے تو اس کی ابتدا ہونی چاہئے چاہے چھوٹی سطح پر ہی کیوں نہ ہو۔