مشتاق احمد یوسفی پر ڈاکٹر بی بی رضا کی تصنیف تحقیقی و تخلیقی تنقید کا شاہکار گلبرگہ میں محترمہ کنیز فاطمہ کے ہاتھوں ‘ اردو طنز و مزاح کا یوسفِ لا ثانی: مشتاق احمد یوسفی ‘ کا اجرا

0
0

یواین آئی
حیدرآباد نامور طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی پر ڈاکٹر بی بی رضا خاتون ، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کی تصنیف ‘ اردو طنز و مزاح کا یوسفِ لا ثانی: مشتاق احمد یوسفی ‘ کی رسم اجراءمحفل نساءگلبرگہ کے زیر اہتمام ٹیپو سلطان آڈیٹوریم ،الہلال اسکول میں رکن اسمبلی گلبرگہ شمال محترمہ کنیز فاطمہ قمر الاسلام کے ہاتھوں انجام پائی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا ” مجھے ہمارے تاریخی شہر اردو کے مرکز گلبرگہ کی ہونہار ادیبہ ڈاکٹر بی بی رضا کی پہلی اور بے مثال کتاب ‘اردو طنز و مزاح کا یوسفِ لا ثانی: مشتاق احمد یوسفی ‘ کی رسم اجراءانجام دیتے ہوئے بڑی مسرت ہورہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ گلبرگہ نے اردو زبان کے کئی بڑے ادیب پیدا کئے ۔اچھے شاعر بھی یہاں پیداہوئے ہیں۔ تحقیق اور تنقید میں بھی کئی نام منظرعام پر آئے ہیں۔ اب بی بی رضا خاتون کی کتاب منظر عام پرآ رہی ہے وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اردو کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔مجھے امید ہے کہ وہ اپنی محنت تحقیق اور جستجو سے اردو دب میں نئے نئے کارنامے انجام دیں گی اور گلبرگہ شہر کا نام ساری دنیا میں روشن کریں گی”۔ڈاکٹر وہاب عندلیب ( سابق صدر کرنا ٹک اردو اکیڈمی ) نے صدارت کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا”میں حامد اکمل کے اس خیال سے پوری طرح متفق ہوں کہ بی بی رضا نے مشتاق احمد یوسفی کے فن کا جس عالمانہ اور تخلیقی انداز سے جائزہ لیا ہے وہ بے حد اہم ہے مستقبل میں جب کوئی مشتاق احمد یوسفی پر تحقیق کرے گا تو وہ بی بی رضا کی کتاب کو چھوئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ واقعہ یہی ہے کہ بی بی رضا نے یوسفی کے ایک ایک لفظ کو جانچا پرکھا اور اس کے ابعاد کوواضح کیاہے ۔ یوسفی کی کتابوں کے تمام الفاظ اور ان کے استعمال کا اشاریہ بھی انھوں نے پیش کیا ہے ”۔ شمس الرحمان فاروقی نے تسلیم کیا ہے کہ نثر میں صنائع بدائع کا جائزہ لینے والی بی بی رضا پہلی محقق ہیں انھوں نے ایک انوکھی مثال قائم کی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ جب تک یوسفی صاحب کا فن زندہ رہے گا اس وقت بی بی رضا کی کتاب بھی لاثانی بنی رہے گی۔ گہوارہ علم و ادب گلبرگہ سے اس کتاب کی اشاعت بے حد اہمیت کی حامل ہے ۔مصنفہ کے اس کارنامے پر ہم بجا طور پر فخر کرتے رہیں گے ۔ تحقیق تلاش اور جستجو کا مادہ بی بی رضا میں بدرجئہ اتم موجود ہے وہ انھیں مستقبل میں بہت دور تک لے جائے گا اور بہت اونچائیوں پر فائز کرے گا۔ مسٹر حامد اکمل ایڈیٹر ایقان ایکسپریس، نے اپنی استقبالیہ تقریر میں کہا کہ نامور نقاد شمس الرحمان فاروقی نے اس کتاب کے بارے میں کہا ہے کہ ایسی کتاب آج تک ان کی نظر سے نہیں گزری۔بی بی رضا نے جس عرق ریزی اور انوکھے انداز سے یوسفی کے فن کاجائزہ لیا ہے اردو تحقیق و تنقید میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ممتاز مزاح نگارپدم شری مجتبیٰ حسین کے بقول بی بی رضا نے یوسفی صاحب کی ایسی متعدد خوبیوں کو اجاگر کیا ہے جن سے آج تک خود یوسفی صاحب بھی لاعلم تھے ۔ کرناٹک اور اتر پردیش کی اردو اکیڈ میوں نے اس کتاب کو انعامات سے نوازا ہے ، بی بی رضا گلبرگہ کے لئے سرمایہ افتخار ہیں ۔ ڈاکٹرعبدالحمید اکبر سابق صدر شعبئہ اردو ، گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ نے کہا مشتاق یوسفی کی تحریروں میں طنز کی کاٹ کے ساتھ مزاح کی چاشنی کا خوبصورت امتزاج ہوتا ہے ۔وہ کسی کی صلاح کے لیے طنز کا سہارا لیتے ہیں تو مزاح کی چاشنی اس طنز کو گوارا بنا دیتی ہے ۔ مسٹر سید عبد الغنی ( ڈائریکٹر ٹیپو سلطان ایجوکشنل ٹرسٹ گلبرگہ) نے تہنیتی پیام روانہ کیا جسے محترمہ نویدہ بیگم( صدر معلمہ) نے پڑھ کر سنایا۔ پیام میں کہا گیا ہے کہ ”گلبرگہ شہر کی ایک با صلاحیت ادیبہ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون کی کتاب اردو طنز ومزاح کا یوسفِ لاثانی ‘ مشتاق احمد یوسفی کی رسم اجراءہمارے لیے باعث مسرت ہے ۔ بی بی رضا گلبرگہ کی صاحب کتاب خواتین میں شامل ہورہی ہیں ڈاکٹر صغری عالم ، ڈاکٹر شمیم ثریا اور ڈاکٹر کوثر پروین ، شاعری، تحقیق اور افسانہ نگاری میں کافی نام پیدا کرچکی ہیں ان کے بعد کی نسل میں بھی کئی خواتین ادب کی خدمت کر رہی ہیں ان میں بی بی رضا سب سے ہونہار ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کی تعریف ملک کے نامور طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین اور اردو کے دنیا کے عظیم نقاد پروفیسر شمس الرحمٰن کر چکے ہیں۔ ان دو حضرات کی سند کے بعد ہمارا کچھ کہنا محبت اوراخلاص کی تعریف میں آتا ہے سند کا درجہ نہیں رکھتا۔ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون کو ان کی پہلی کتاب بہت بہت مبارک ، اس امید کے ساتھ کہ وہ اسی طرح لکھتی پڑھتی رہیں اور سال میں ان کی کم از کم ایک کتاب شائع ہوتی رہے ۔ ڈاکٹر کوثر پروین ( معتمد محفل نسائ) نے کہا کہ بی بی رضا خاتون نے اردو طنز ومزاح کا یوسفِ لاثانی ‘ کے ذریعہ اپنی تنقیدی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ‘ اس کے پاکستانی ایڈیشن کی اشاعت سے بھی اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے ۔ ممتاز شاعر ڈاکٹر وحید انجم نے منظوم ہدیئہ تہنیت پیش کیا۔ڈاکٹر حمید سہروردی ( سابق صدر ، شعبہ اردو، گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ ) نے کہا کہ دکن میں محقق زیادہ پیدا ہوئے نقاد بہت کم ہوئے بی بی رضا کی کتاب اردو طنز و مزاح کا یوسف لاثانی’ کے مطالعہ سے ایک تخلیقی نقاد کی آمدکا احساس ہوتا ہے ۔ انھوں نے یوسفی کی خلاقیت اور ان کی لفظیات کا ہمہ جہت جائزہ لیا ہے اردو ادب میں ایسی تنقید اب تک نہیں لکھی گئی اس پرجس قدر مسرت اور افتخار کا اظہار کیا جائے کم ہے ۔یہ بی بی رضا کا شاندار کارنامہ ہے انھوں نے کہا کہ مشتاق یوسفی بڑے مزاح نگار ہیں لیکن ان کی زبان اور اسلوب طبقئہ اشرافیہ کے نمائندہ ہیں اس لیے ان کی تحریروں کو عام لوگ اور طلبا نہیں سمجھ سکتے اس خیال کو بھی بی بی رضا نے پیش نظر رکھا ۔ مشتاق یوسفی رومانی تحریروں کے ناقد ہیں لیکن ان کا اسلوب بھی رومانی مکتب فکر سے متاثر ہے ۔ بی بی رضا ایسی فنکارہ ہیں جن پر ان کے والدین کو ہی نہیں ہم سب کو فخر کرنا چاہیئے ۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں وہ مزید بڑ ے ادبی کارنامے انجام دیں گی۔ بزرگ ادیب سراج وجیہہ نے مجلسِ شعور ادب کی جانب سے اور اسد علی نصاری نے نائب صدرمحفل نساءڈاکٹر صبیحہ سلطانہ کی جانب سے مصنفہ اورمہمانان خصوصی کنیز فاطمہ و صبیحہ آپاکی گلپوشی اور شال پوشی کی۔ان کے علاوہ دیگر مہمانوں کی شال پوشی و گل پوشی ، کوثر پروین ، محمد ایوب ، عطیہ فاطمہ، محمد اسلم،شیخ حسین، محترمہ امتہ البصیر، افسر نسرین انصاری،شوکت فاطمہ، نور فاطمہ انصاری نے کی۔ ان کے علاوہ محمد اطہر بابا کی کم سن نواسی سیدہ شبرہ فاطمہ حسینی ( دختر سید اکبر حسینی صاحب) نے محترمہ کنیز فاطمہ کی گل پوشی کی۔جلسے کا آغاز حافظ محمد نصیرالدین قریشی کی قرات کلام پاک سے ہوا۔ محترمہ افسر نسرین انصاری نے نظامت کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دئیے ۔محترمہ نور فاطمہ انصاری نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔ڈاکٹر غضنفر اقبال اور شہباز احمد نے انتظامات کی نگرانی کی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا