مسلمان اپنے اوپر ایمرجنسی نافذ کرلیں

0
0

 

 

ابراہیم آتش گلبرگہ کرناٹک

جی ہاں ایمرجنسی کا نام سنتے ہی لوگ چونک جاتے ہیں جب ملک میں حالات بد سے بدتر ہو جاتے ہیںاس وقت ملک پرحکمراں جماعت کی جانب سے ایمرجنسی نافذ کی جاتی ہے تاکہ حالات نارمل ہوں پھر اس کے بعدایمرجنسی بحال کی جاتی ہے بلکل اسی طرح آج ملک میں مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہمیں دکھائی دے رہی ہے لہذا مسلمان بھی اپنے اوپر ایمرجنسی نافذ کرلیں تاکہ ملک کے تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آجائیں جب تک ایمرجنسی اپنے اوپر نہیں لگا لیں گے حالات مسلمانوں کے متعلق بہتر ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں بعض لوگ یہ سمجھ رہے ہوں گے جو کچھ آج کل ہو رہا ہے وہ سب سیاست کے لئے ہو رہا ہے اور 2024 کے بعد حالات نارمل ہو جائیں گے میں سمجھتا ہوں اس طرح کی سوچ غلط ہے کیونکہ 2024 میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں آئے حالات بدلنے والے نہیں ہیں 19 سپٹمبر کا واقعہ جو ہندوستان کی نئی پارلیمنٹ میں پیش آیا وہ ملک کی جمہوریت پر بد نما داغ ہے پارلیمنٹ میں ایک ایم پی کے ذریعہ ایک ایم پی پر جس طرح گندے لفظوں کا استعمال کیا گیا یہ پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلی بار اس طرح ہوا اور ملک کی نئی پارلیمنٹ میں یہ واقعہ یہ بد نما داخ بن کر رہ گیا اور شاید یہ دنیا کی کسی بھی پارلیمنٹ میں اس طرح کا واقعہ پیش نہیں آیا ہوگا پارلیمنٹ اخلاقی حدوں کو پار کرتے ہوئے اتنی نچلی سطح پر پہنچ جائے گاکسی کو گمان نہیں تھا آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ میں اور کیا کیا سننے کو ملے گا ہم اندازہ کر سکتے ہیں نہ صرف پارلیمنٹ بلکہ ملک کی اسمبلیوں اور گلی کوچوں میں اس طرح کی بات عام ہو جائے گی جب ایک ممبر آف پارلیمنٹ کو بخشا نہیں گیا تو عام انسان کی کیا حیثیت ہوگی مسلمان اپنے اوپر ایمرجنسی کیوں لگائیں کس طرح لگائیں اور اس سے کیا ہوگا یہ بہت اہم سوال ہے اگر مسلمان اپنے اوپر ایمرجنسی لگا لیتے ہیں تو ہندوستان کے مسلمانوں کے اندر ایک انقلاب آئے ملک کے زیادہ تر مسلمان آج بھی ملک کے حالات سے واقف نہیں ہیں اور جو واقف ہیں وہ سنجیدہ نہیں ہیں مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت آنے والی نسل ہے اس نسل کو بچانے کے لئے اسی نسل کو تیار کرنا ہوگا وہ جس طرح برباد ہو رہی ہے اور غفلت میں سوئی ہوئی ہے اس کو جگانا ہوگا سب سے پہلے مسلمانوں میں شعور پیدا کر نے کی ضرورت ہے شعور پیدا کرنے کے لئے کچھ چیزوں کوترک کرنا ہوگا سب سے پہلے مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے آپسی مسلک کو ختم کرنا ہوگا آج کے بعد مسلک انفرادی ہوگا کسی پر زبردستی تھوپنے کی کوشش نہیں ہوگی آج کی بعد کوئی سنی نہیں کوئی تبلیغی نہیں کوئی اہل حدیث نہیں تمام ایک ہوں گے کوئی کسی کو مسلک کی وجہہ سے نہیں پہچانا جائے گا صرف مسلمان کی حیثیت سے پہچانا جائے گا اور نہ کوئی مسجد کسی مسلک کی خاص ہوگی ملک کے تمام مسجد ایک جیسے ہوں گے کوئی بھی نماز پڑھ کر یہ نہیں محسوس کرے گا یہ فلاں مسجد ہے ہر مسلمان کو لگے گا یہ ہم سب کی مسجد ہے بلکہ اس کی روح کو سکون ملے گا اور نہ ہی مسجد کے پیش امام کسی مسلک کے ہوں گے وہ ایک متقی او ر پرہیز گار مسلمان ہوں کسی مسلک کی تبلیغ ہوگی اور نہ اشاعت کا کام ہوگا نہ اجتماع ہوگا نہ جلسہ ہوگا جو کچھ ہوگا مسلمانوں کے نام پر ہوگا کوئی اخبار میں کسی خاص مسلک کے لئے نہ لکھے گا جو کچھ لکھے گا صرف مسلمانوں کے بارے میں لکھے گا یو ٹیوب پر کسی بھی مولانا کی کسی خاص مسلک کی کوئی ویڈیو اب کے بعد دیکھنے کو نہیں ملے گی جو کچھ کہنا ہوگا صرف مسلمانوں کے لئے کہنا ہوگا اس طرح جب مسلک پر ایمرجنسی نافذ ہو جائے گی اس کے فائدے انشا اللہ تعالی آنے والے سالوں میں تمام مسلمانوں کودیکھنے کو ملیں گے آج کے بعد مسلمان کرکٹ کی دنیا خیر باد کو کہہ دیں یہ بیماری ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہے مسلمانوں میں اس بیماری کی ایسی لت لگ گئی ہے بچہ جوان بوڑھا سب اس میں غرق ہوگئے ہیں جن کو کرکٹ کی اے بی سی نہیں معلوم وہ بھی اپنا وقت برباد کر رہا ہے جب دوخاص ملکوں کا میا چ ہوتا ہے اس وقت مسلمانوں کے لئے اور بھی کٹھن مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور بعض دفعہ حالات اس قدربگڑ جاتے ہیں فسادات بھی رونما ہوتے ہوئے ہم نے دیکھے ہیں وقت بھی بچ جائے گا وہ اپنے وقت کو اچھے کام میں استعمال کر سکے گا جب اس کے پاس وقت ہوگا تو وہ اپنے اطراف ہونے والے واقعات پر نظر بھی ڈالے گا اس کے بعد کے بعد وہ مسلمانوں کے بارے سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہوگا اس کے ساتھ نوجوانوں میںبڑھتا ہوا فلموں کو شوق جو موج مستی اور فحاشی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ترک کرنا ہوگا اس سے پیسہ بھی بچے گا اور وقت بھی بچے گا اس وقت کو اپنے لئے صحیح جگہ استعمال کر سکے گا مسلمانوں کے تمام نکاح مسجدوں میں ہوں بلکل مختصر مہمانوں کی دعوت ہوگی بلکل سادگی کے ساتھ شادیاں ہو ں گی ناچ گانہ بیانڈ باجہ سب بند کرنا ہوگا جتنا عیش کرنا تھا کر لئے اور جس کے نصیب میں عیش تھا ان کو مل گیا آنے والی نسل کے لئے بہت ہی مشکل دور آنے والا ہے اگر وہ صبر استقامت کے ساتھ ہر برائی سے دور رہنے ہیں اور خالص ایما ن کی بنیاد پر تمام مسلمان ایک ہوتے ہیں تو اللہ تعالی کی مدد وہ نصرت شامل حال ہوگی اور کامیابی ملے گی اگر اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹ جاتے ہیں تو تباہی وہ بربادی کو کوئی نہیں ٹال سکتا مسلمانوں کو سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا ملک کے حالات اتنے خراب کیوں ہوئے ہیں اور کیوں ہو رہے ہیں خراب ہونے کی وجہہ یہ ہے اس طرح کے حالات پیدا کر کے ووٹ حاصل کئے جا رہے ہیں اور یہ ووٹ لینے کی کوشش کامیاب ہو رہی ہے بی جے پی اور ہندوتوا کی جانب سے اشتعال انگیزی کے واقعات ہر دن ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں جو جتنی زیادہ اشتعال انگیزی کرے گا اس کو اتنا ہی بڑا انعام دیا جا رہا ہے اور اس دوڑ میں ہر کوئی نظر آ رہا ہے ہمیں اشتعال انگیزی کا جواب صبر سے دینا ہوگا اکثریتی علاقہ کے مسلمانوں کو بہت دور اندیشی اور حکمت سے کام کرنا ہوگا بہت سے مسلم اکثریت علاقے کے مسلمان یہ سمجھتے ہیں وہ جو چاہے کر سکتے ہیں وہ اپنے علاقے میں مذہبی جلسوں او جلوسوں کا اس قدر حد سے زیادہ مظاہرہ کرتے ہیں کو دوسری قوموں میں بھی وہی جوش پیدا ہوتا ہے مسلمانوں کی کثیر آبادی ملک کے چند شہروں تک محدود ہے جبکہ دوسری قوم کی آبادی پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے جہاں مسلمان بلکل اقلیت میں رہتے ہیں ان پر مصیبت آن پڑتی ہے
اور اس کی ذمہ داری ان مسلمان پرعائد ہوتی ہے مسلمان اپنے جلوسوں میں کوئی اشتعال انگیزی نہ کرتے ہوں اور نہ کسی مذہب کے بارے میں کوئی فقرے کسے جاتے ہوں اس کے باوجود ان جلوسوں سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے جیسے کوئی سبز انقلاب آنے والا ہے اس کے بعد اس کے جواب میں ملک کے ہر شہر میں مختلف ناموں پر بے شمارجلوس نکلتے ہیں اور عین مسجدوں کے سامنے اشتعال انگیزی کی جاتی ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہوتی ہے ان کے لئے وہ وقت کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا حالانکہ مسلم اکثریتی علاقہ کے مسلمانوں کے مظاہرے سے اسلام کو کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے ان کے اس اعمال سے کوئی اسلام قبول کرنے کے لئے بے تاب نہیں ہوگا نہ اس طرح کے اعمال سے اس کے اندر تقوی پریزگاری پیدا ہوگی اس طرح کے مذہبی جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد سیاسی مقاصد کے لئے کیا جا رہا ہے دینی اعتبار سے اس کو کوئی وقعت نہیں ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں میں تعلیمی بیداری بہت اہم ہے تعلیم کے ذریعہ سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعہ دنیا کی وہ تمام قومیں دنیا پر غالب آ چکی ہیں اس کی مثالیں ہم بہت سی دوسری قوموں میں دیکھتے ہیں یہودی اس کی مثال ہے جاپانی اس کی مثال ہے علم کا حاصل کرنا اس لئے بھی ضروری ہے موجودہ حالات میں مسلمان کس طرح مقابلہ کریں اتنا شعور ہر مسلمان کو ہونا ضروری ہے مسلمانوں پر مظالم ہو یا مسلمانوں کے خلاف اشتعال ا انگیزی اس کا جواب سڑکوں پر مظاہروں سے نہیں دیا جا سکتا اگر سڑکوں پر مظاہرہ ہوگا تو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا بے قصور نوجوانوں کوبے جا الزامات میں پھنسایا جائے گا اگر مسلمان کسی بھی معاملے میں ملوث نہ ہوں تب بھی امکان ہے انھیں پھنسایا جائے اس لئے ملک کے ہر شہر میں وکیلوں کی ایک جماعت تیار کی جائے اور مسلمانوں کے خلاف جو شخص زہر افشانی کرتا ہے اس کے خلاف ملک کے ہر شہر میں مقدمات درج ہوں ملک بھر کی عدالتوں میں گھسیٹا جائے اپنے معیاری ہاسپلس ہوں اور تعلیمی ادارے ہوں یہ تمام چیزیں نا ممکن نہیں ہیںشرط یہ ہے کہ ملک کے تمام مسلما ن اپنی نا جائز خواہشوں کو ترک کر دیں اور مسلکوں سے اوپر اٹھ کر صرف مسلمان اور کلمہ کی بنیاد پر ایک ہو جائیں
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا