محمد امین اللہ
ہندوتوا اک ایسا سفاک، توسیع پسندانہ ، اور متشدد ہندو قوم پرستی کا نظریہ ہے جو اس پورے برصغیر کو کابل سے لے کر برما تک
اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے۔اس نظریہ کی بنیاد ونائک دامودر ساورکر نے 1883 میں رکھی جو کٹر ہندو قوم پرست تھا جس نے اس نظریہ کا پرچار کیا کہ بھارت میں وہی رہنے کا حق دار ہے جو بھارت کو اپنی ماتر بھومی ( مادر وطن) مانے اور اس کو پوتربھومی ( پاک زمین) جان کر اس کی پوجا کرے۔ اس نے یہ پرچار کیا کہ مسلمان غیر ملکی اور قابضین ہیں لہذا ان کو بھارت میںرہنے کا حق نہیں ہے۔ یہ وہ شخص تھا جس نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں انگریزوں کا ساتھ دیا۔ کیوں کہ مسلمان اس تحریک میں سب سے آگے تھے۔ اس نے اپنے نظریات کو فروغ دینے کے لئے ہندو مہاسبھا جیسی کٹر قوم پرست تنظیم بنائی اورپورے ہندوستان میں انگریزوں کی سرپرستی میں سدھی تحریک یعنی مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی شروعات کی جس سے بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ اور آج بہروپ کی صورت میں بھارتیہ جنتا پارٹی جو اک دہائی سے زیادہ بھارت میں
حکمرانی کر رہی ہے سدھی تحریک کو گھر واپسی کے نام پر جبریہ طور پر پس ماندہ مسلمانوں کے علاقے میں چلا رہی ہے۔ اس ہندوتوا کے ایجنڈے کو کامیاب بنانے کی خاطر وشو ہندو پریشد ، ہندو مہاسبھا ، بجرنگ دل ، نیم عسکری تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) جیسی فسطاء تنظیم پورے ہندوستان میں اپنا پنجہ گاڑ چکی ہیں۔ بھارت کے تمام بڑے ہندو سرمایہ داراس تنظیم کے سرپرستی کرتے ہیں۔ڈالمیا جیسا سرمایہ دار وشو ہندو پریشد کا صدر ہے۔ لتا منگیشکر جیسی گلو کارہ اس کی رکن تھی۔ آر ایس ایس کے رضا کار جو پورے ہندوستان میں لاکھوں کی تعداد میں صبح سویرے ڈرل کرتے ہیں وہ اکھنڈ بھارت کا نقشہ سامنے رکھتے ہیں جس میں کابل سے لے کر برما تک کے علاقے شامل ہیں جو گوگل پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ بھارت کی آزادی سے لے کر طویل عرصے تک ہندوستان میں حکمرانی کرنے والی کانگریسی رہنماؤں کی بڑی تعداداس نظریہ کی حامی ہے اور اکھنڈ بھارت بنانا چاہتے ہیں۔تاریخی حقائق کو اگر سامنے رکھا جائے تو گانریس نہرو کی سربراہی میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے میں مسلمانوں کے تعاون سے واحد ملکی سطح پر متحرک تھی۔ گانگریس کے متعصبانہ رویے کی وجہ سے 1906 میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیااور گانگریس کے ہی مکارانہ چالوں کی وجہ سے پاکستان کا مطالبہ زور پکڑا ، گو کہ دیو بند اور دیگر مسلمان علماء اس تقسیم کے
حق میں نہیں تھے اور مولانا ابوالکلام آزاد بھی سخت مخالف تھے مگر انہوں نے بھی اپنی کتاب India wins freedom کے وہآخری 100 صفحات جو 40 سال بعد شائع ہونے نہرو ،پٹیل اور گاندھی کو تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ پٹیل جو بھارت کا پہلا
وزیر داخلہ تھا اس کی سرپرستی میں پورے ہندوستان میں وسیع پیمانے پر ہندو مسلم فسادات ہوئے جو آج بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کاپسندیدہ لیڈر ہے۔ گانریس کے دور حکومت میں اتنے بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات ہوئے ہیں کہ اس کا ذکر کرنے سے روح کانپ جاتی ہے۔ 1950 میں دس محرم الحرام کا کلکتہ میں جو فساد ہوا اس میں دس ہزار سے زائد لوگ مارے گئے۔ 1964 میںکشمیر سے موئے مبارک کی چوری کے بعد پورے ہندوستان میں جو خونی فسادات ہوئے جس میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے اوربڑے پیمانے پر لوگ پاکستان ہجرت کیئے احمد آباد ، بھیونڈی ، بھساول ، بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے ہندوستان میںفسادات یہ سب کانگریس کا کارنامہ ہے جو سیکولرزم کے نام پر ہندتوا کے مکروہ ایجنڈے کی تکمیل کو آگے بڑھاتی رہی ہے۔موجودہ ہندتوا اور گانریس اک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ میرے اس کالم کے قاریین تاریخ کے اس حقیقت کو دیکھیں۔
تقسیم ہند کے بعد بھارتی توسیع پسندی۔ جونا گڑھ ، حیدرآباد دکن ، دمن دیو ، گوا، نصف کشمیر ، سکم ، منی پور ، ناگالینڈ پر قبضہ
کیا۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کیا۔قومی علامتیں قومی بیانیہ اور مستقبل کی پیش گوئی کرتی ہیں۔ بھارت کے قومی پرچم میں اشوک چکر کا نشان جو اشوک سمراٹکی عظیم سلطنت کی عکاس ہے۔ بھارت کے قومی ترانے میں سندھ شامل ہے۔ پنجاب سندھ گجرات مراٹھا۔ دراویڑ اتکل بنگہ۔ آرایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی گاندھی کو تقسیم ہند کا ذمہ دار سمجھتی ہے اس لیے ناتھورام گوڈسے نے گاندھی کو قتل کیا جو آرایس ایس کا شدت پسند رکن تھا اور آج وہ ہندتوا کے علم برداروں کا ہیرو ہے۔ ناتھورام گوڈسے نے اپنی پھانسی سے قبل وصیت کیکہ میری راکھ ( خاک) گنگا میں نہیں بہانا بلکہ اس کو دریائے سندھ میں بہانا جب یہ بھارت میں شامل ہو جائے یہی وجہ ہے کہ اسکی راکھ ہریانہ کے میوزیم میں سونے کے طشت میں رکھی ہوئی ہے اور اس کی برسی پر ہزاروں آر ایس ایس کے رضا کار اکٹھے ہو کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ وہ سندھ کو بھارت کا حصہ بنائیں گے۔ یاد کریں 16 دسمبر 1971 رات 8 بجے اندرا گاندھی کیوہ تقریر جو اس نے مسلمانوں کے عظمت رفتہ کے لال قلعہ کے برجوں پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ آج ہم نے اپنی ہزار سالہ غلامی کا
بدلہ لے لیا اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا۔ یاد کریں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ایڈوانی نے کہا تھا کہ آج
ہم نے سوم ناتھ کا بدلہ لے لیا۔یہ وہ سابقہ سازشی کردار ہے جو ہندتوا کا ایجنڈا ہے۔ گو کہ آج کانگریس حزبِ اختلاف میں ہے مگر نریندر مودی اور کوئی بھیہندو قیادت کے زیر سرپرستی بھارت کی سیاسی جماعت مسلمانوں کی دشمنی میں اک دوسرے سے بڑھ کر نہ صرف کردار ادا کرتی ہے بلکہ مشترکہ طور پر معاونت کرتی ہیں۔میرے والد محترم اک شعر پڑھا کرتے تھے جو حسب حال ہے۔
اک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے اک مکر کی چلتی آندھی ہے۔
اک کا نام ساورکر دوسرا پٹیل کانگریسی ہے۔
تاریخ قومی چہرے کے پردے عیاں کرتی ہے۔ اس واقعے سے مزید حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ جب دس محرم الحرام 1950 میںکلکتے کے فساد میں محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار کے قریب مسلمان مرد و زن اور بچے شہید ہوئے تو کلکتہ ذکریہ اسٹریٹ کے محمد علی پارک میں اک جلسہ ہوا جس میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور ابو الکلام آزاد آئے تھے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر نہرو اور پٹیل یہ کہہ دیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا حصہ نہیں تو ہم اک اور پاکستان بنا لیں گے۔ یہ کہہ
کر جب وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شریک ہوئے تو گانگریسیوں نے ان کی شیروانی پھاڑ دی۔گانریس کا دور ہو یہ آج بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت یہ مسلم دشمنی میں اک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں۔ مسلمانوں کے مذہبی اور تہذیبی اقدار کے درپے ہیں۔ مشہور زمانہ شاہ بانو کا مقدمہ بھارت کے مسلمان بھولے نہیں ہیں جبکہ بھارت کے سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لاء کے خلاف فیصلہ شاہ بانو کے حق میں دیا وہ تو قربان جائیے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے پورے ہندوستان میں ایسی تحریک چلائی کہ مجبور ہوکر کانگریس کی حکومت نے پارلیمنٹ میں بل پیش کرکے اس فیصلے کو رول بیک کیا۔ آزادیسے پہلے ہی بجنور کے سید اشفاق حسین نے اپنی کتاب خون کے آنسوں میں لکھا کہ 1980 آتے آتے ہندوستان کے مسلمان شودروںکی حاصل شدہ مراعات کا مطالبہ کریں گے اور یہ سچ ثابت ہوا۔ سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کی قائم کردہ جسٹس سچرکمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کی معاشی ، تعلیمی اور سرکاری نوکریوں میں حالت زار شودروں سے بدتر ہے۔بھارت میں آزادی سے لے کر اب تک اک طویل عرصے تک کانگریس کی حکمرانی رہی اور یہ سب کچھ انہیں کے دور حکومت میں ہوا۔ یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے کانگریس اور مودی کی پالیسی اک رہی ہے۔ سرکاری نوکریوں میںمسلمانوں کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔ سب سے زیادہ فسادات کانگریس کے دور حکومت میں ہوئے۔ بابری مسجد کا انہدام راجیوگاندھی کی حکومت میں ہوا جبکہ یوپی میں بھی کانگریس کی حکومت تھی۔ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے تعلیمی ادارے کمیابہیں۔ جہاں کہیں مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی وہاں فسادات برپا کرکے ان کے املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ اب مودی کی حکومت یکساں سول کوڈ کے ذریعے مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ شہریت کے متنازع قوانین کے تحت مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دینے کے لئے اک خوفناک سازش کی جارہی ہے۔ اس کے خلاف ملک کے تمام حصوں اور جامعات میں تحریک کو ریاستی تشدد کے ذریعے کچلا گیا اور شاہین باغ کے تاریخی دھرنے کو دہلی میں ہندو مسلم فسادات کے ذریعے ختم کیا گیا۔ آئے دن ریاستی ذمہ داروں اور بھارتی جنتا پارٹی کے لیڈروں کی جانب سے اسلام اور مسلمانوںکے خلاف جارہانہ بیان بازیوں سے ملک کی فضا خراب کی جاتی ہے۔سمجھوتہ ایکسپریس ، مالے گاؤں ، اجمیر میں دھماکے حاضر سروس کرنل پروہت اور بجرنگ دل کی جانب سے کیئے گئے اوربے گناہ مسلمان نوجوانوں کو آتنک وادی بول کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد اب بنارس کی گیان بافی مسجداور متھرا کے عید گاہ پر قبضہ کرنے کی کوشش جاری ہے۔ آئے دن کہیں ن کہیں تجاوزات کے نام پر سیکڑوں سال پرانی تاریخی مسجدوں اور مزارات کو بلڈوز کیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ خوش حال مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بھی قبضے میں لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے بعد بھی وہاں مظالم کا نہرکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی ابادی کا واویلا کرکے اور love jehad کے نام پر فسادات ہوتے ہیں۔ گائے کی حفاظت کے نام پر بے گناہ نوجوانوں کو اجتماعی تشدد کا نشانہ بنایا جانا ہے۔ووٹر لسٹوں میں مسلمانوں کی تعداد ابادی کے تناسب
سے کم ہے۔ حلقہ بندیاں اس طرح کی گئیں ہیں کہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی تعداد بڑھنے نہ پائے۔ اگر یہ حلقہ بندیاں منصفانہ ہوں تو مسلمان پارلیمنٹ میں بیس فیصد سے زیادہ ہو جائیں گے۔ اور مسلمانوں کے بغیر کوئی حکومت نہیں بن سکتی ہے۔ انگریزوںنے مسلمانوں کو مختلف مسالک اور گروہوں میں تقسیم کیا تھا اب وہی تقسیم بھارتی جنتا پارٹی اپنی سرپرستی میں کر رہی ہے۔ بلکہایسے فرقوں اور گروہوں کی سرپرستی کی جاتی ہے جو اسلام دشمن ہیں۔ فی الحال ہی اسلام ترک کرکے مرتد ہونے والے کی بھر
پور حوصلہ افزائی کی گئی۔میں یقین سے کہہ رہا ہوں کہ اگر مسلمان پکے اور سچے مسلمان ہوں جائیں تو بھارت کی کثیر دلت قوم جوق در جوق مسلمان ہوگی
اور پڑھا لکھا ہندو نوجوان جو فرضی مذہبی ڈھکوسلے سے پہلے ہی نالا ہے مسلمان ہو جائیں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں وعدہ کیا ہے کہ۔ نہ گھبراؤ نہ غم کرو تمہیں کامیاب ہو گے اگر تم مومن ہو
تندء با
مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب۔
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے۔
نشیمن پہ نشیمن اس قددِ ر تعمیر کرتا جا۔
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بے زار ہو جائے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے۔
اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے۔