مسلمان، سائنس کے پرچم بردار: نوبل انعام یافتگان اور انسانیت کے سفیر:

0
0

 

 

 

جنید عبدالقیوم شیخ ، سولاپور

سائنس کی دنیا میں مسلمانوں کے کارناموں کی تاریخ طویل اور روشن ہے۔ ان میں سے کئی نام ایسے ہیں جنہوں نے اپنی تحقیق، جدوجہد اور نئی دریافتوں سے نہ صرف اپنی برادری بلکہ پوری انسانیت کی خدمت کی ہے۔ آج قومی یوم سائنس کے موقع پر ہم ان چار نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کا تذکرہ کریں گے جنہوں نے اپنے کاموں سے دنیا کو متاثر کیا اور سائنس کے میدان میں مسلمانوں کی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
پروفیسر ڈاکٹر منگی باوندی: کوانٹم ڈاٹس کے خالق:
ابتدائی زندگی اور تعلیم:1961ء میں ٹیونیشیا میں پیدا ہوئے، پروفیسر باوندی کی دلچسپی ہمیشہ سائنس کی طرف مائل رہی۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ٹیونیشیا میں حاصل کی اور بعد میں پیرس، فرانس میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ انہوں نے کیمیائی حیاتیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، جس کے بعد امریکہ چلے گئے اور وہاں مختلف اداروں میں تحقیق کی۔
کوانٹم ڈاٹس کی دریافت اور ترقی:* پروفیسر باوندی کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک کوانٹم ڈاٹس کی دریافت اور ترقی ہے۔ یہ نیم موصل مواد کے نینو سائز کے ذرات ہیں جن کا سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں انقلابی اثر ہے۔انہوں نے ان ذرات کی منفرد خصوصیات کو سمجھا اور انہیں الیکٹرانکس، طبی تشخیص، اور توانائی کی پیداوار جیسے شعبوں میں استعمال کرنے کے لیے نئے طریقے بنائے۔
نینو ٹیکنالوجی میں انقلاب: پروفیسر باوندی کی تحقیق نے نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ان کی دریافتوں نے نینو سائز کے مواد کی صلاحیتوں کو کھول کر دیا ہے اور دنیا بھر کے سائنسدانوں اور انجینئرز کو نئی ٹیکنالوجیوں کی ترقی کی راہ ہموار کی ہے۔
عالمی پہچان اور اعزازات: پروفیسر باوندی کی کامیابیوں نے انہیں نینو ٹیکنالوجی کے ایک ممتاز ماہر کے طور پر عالمی شہرت دلائی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا ہے، جن میں 2023ء کا نوبل انعام برائے کیمیا بھی شامل ہے۔
مسلمان سائنسدانوں کے لیے ایک مثال: پروفیسر باوندی مسلمان سائنسدانوں کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔ ان کی کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ محنت، لگن اور جذبے سے کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلمان سائنسدان بھی دنیا بھر میں سائنسی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دلچسپ باتیں: پروفیسر باوندی ایک انتہائی متجسس اور محنتی سائنسدان ہیں۔ انہیں چیلنجوں کا مقابلہ کرنا اور نئی چیزیں دریافت کرنا پسند ہے۔وہ ایک باصلاحیت استاد اور رہنما بھی ہیں جو اپنے علم اور تجربے کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ان کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ خوابوں کو پورا کرنے کے لیے مستقل مزاجی اور محنت ضروری ہے۔پروفیسر باوندی کی کہانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ سائنسی ترقی میں تمام انسانوں کا کردار ہے، چاہے ان کا مذہب یا پس منظر کوئی بھی ہو۔ وہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتی کہ نئی چیزیں دریافت کرنے اور دنیا کو بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے۔
پروفیسر ڈاکٹر عزیز سانکار: ڈی این اے کے محافظ کی وسیع تر کہانی
ابتدائی زندگی اور جدوجہد: 1946 میں ترکی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے، عزیز سانکار کی زندگی مشکلات سے بھرپور تھی۔ کم عمری میں ہی بیماری کی وجہ سے انہیں اسکول چھوڑنا پڑا۔ لیکن یہ ان کے علمی سفر کا اختتام نہ تھا۔ وہ مسلسل کتابیں پڑھ کر خود کو سکھاتے رہے اور ایک نرس کے طور پر کام کرکے امریکہ جانے کے لیے پیسے جمع کیے۔
امریکہ میں نئے سرے سے آغاز: 1970 کی دہائی میں، سانکار امریکہ پہنچے، زبان کی رکاوٹوں اور ثقافتی اختلافات کے باوجود اپنی تعلیم جاری رکھی۔ انہوں نے سخت محنت اور لگن سے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان ڈیاگو سے بیالوجی میں بیچلر ڈگری اور بعد میں یونیورسٹی آف نورٹھ کیرولائنا، سے کیمیائی حیاتیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
ڈی این اے کی مرمت کا سفر: اپنی ڈاکٹریٹ کے دوران، سانکار ڈی این اے کی مرمت پر تحقیق کرنے لگے۔ یہ ایک ایسا شعبہ تھا جس پر اس وقت زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی تھی۔ لیکن سانکار کو یقین تھا کہ اس عمل میں خلیوں کی صحت اور بیماریوں سے لڑنے میں اہم کردار ہے۔ ان کی تحقیق نے یہ انکشاف کیا کہ کس طرح خلیات سورج کی روشنی، کیمیکل، اور دیگر عوامل سے ہونے والے نقصان سے اپنے ڈی این اے کی مرمت کرتے ہیں۔ انہوں نے ان مرمت کے عمل میں شامل انزائمز کی دریافت اور وضاحت بھی کی۔
کینسر اور دیگر بیماریوں سے لڑائی میں انقلاب:سانکار کی تحقیق نے کینسر، عمر بڑھنے، اور دیگر بیماریوں سے لڑنے کے لیے نئی راہیں کھول دیں۔ ان کی دریافتوں نے نئی دواؤں اور علاجوں کی ترقی میں مدد کی ہے، جن میں کینسر کے مریضوں کے لیے زیادہ موثر اور کم نقصان دہ علاج شامل ہیں۔
عالمی پہچان اور اعزازات: سانکار کی تحقیق کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور وہ متعدد اعزازات کے حقدار بنے، جن میں 2015 میں نوبل انعام برائے کیمیا بھی شامل ہے۔ انہیں ترکی میں بھی قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔
ترکی اور مسلمان سائنسدانوں کے لیے ایک مثال: سانکار اپنے عزم، لگن، اور علمی کاوشوں کی وجہ سے ترکی اور مسلمان سائنسدانوں کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔ ان کی کہانی ثابت کرتی ہے کہ چاہے حالات کیسے ہی ہوں، محنت اور لگن سے کوئی بھی شخص بڑے سے بڑے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔
دلچسپ باتیں: سانکار کو کھانا پکانا اور باغبانی کا بہت شوق ہے۔وہ ایک باصلاحیت استاد اور رہنما ہیں، جو نوجوان سائنسدانوں کی مدد کرنے میں ہمیشہ پیش قدم رہتے ہیں۔ ان کا نوبل انعام لینے کا خطاب، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے چیلنجوں اور کامیابیوں کا ذکر کیا، نوجوانوں کے لیے ایک طاقتور انگیز پیغام ہے۔پروفیسر ڈاکٹر عزیز سانکار کی کہانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ سائنسی ترقی میں ہر شخص اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ صرف صلاحیت اور تعلیم پر ہی منحصر نہیں، بلکہ اس میں عزم، لگن، اور اپنے مقصد پر یقین رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔*
پروفیسر ڈاکٹر احمد زویل: روشنی کی رفتار سے تیز سائنسدان
ابتدائی زندگی اور تعلیم: 1946ء میں مصر میں پیدا ہوئے، احمد زویل نے ابتدائی تعلیم ڈمنہور میں حاصل کی۔ ان کی ذہانت اور سائنس میں گہری دلچسپی بچپن ہی سے ظاہر تھی۔ اس کے بعد وہ امریکہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (Caltech) سے کیمیائی سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
لیزر کی طاقت کا استعمال:پروفیسر زویل کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک کیمیائی رد عمل کے انتہائی تیز مراحل کا مشاہدہ کرنا تھا۔ لیکن یہ عام تکنیکوں سے ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے انتہائی طاقتور لیزر کی روشنی کا استعمال کرکے ایک نئی تکنیک تیار کی جسے ”فیمٹوسیکونڈ لیزر سپرکٹروسکوپی” کہا جاتا ہے۔یہ تکنیک اتنی تیز ہے کہ کیمیائی رد عمل کے ہر لمحے کو کروڑوں حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے ایسی تیز رفتار کے مشاہدے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
کیمیائی رد عمل کی نئی دنیا: زویل کی تکنیک سے انکشاف ہوا کہ کیمیائی رد عمل پہلے سوچے گئے سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور تیز ہوتے ہیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیمیائی بانڈز ٹوٹنے اور بننے کے مراحل فیمٹوسیکنڈز میں پورے ہوتے ہیں، جو ہماری روزمرہ کی زندگی کے پیمانے سے کروڑوں گنا تیز ہے۔ اس تحقیق سے کیمیائی عمل کی نوعیت، کیمیائی کاتالیسٹ کی کارکردگی، اور نئی مادوں کی تخلیق کو سمجھنے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔
عالمی پہچان اور اعزازات: پروفیسر زویل کی دریافت کا سائنس کی دنیا میں بہت بڑا اثر ہوا۔ انہیں 1999ء میں کیمیائی رد عمل کے ٹرانزیشن سٹیٹس کے مطالعے کے لیے نوبل انعام برائے کیمیائی سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں متعدد دیگر اعزازات بھی ملے۔عرب دنیا اور مسلمان سائنسدانوں کے لیے ایک مثال: پروفیسر زویل عرب دنیا اور مسلمان سائنسدانوں کے لیے ایک شاندار مثال ہیں۔ ان کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان سائنسدان دنیا میں سائنسی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دلچسپ باتیں: پروفیسر زویل ہمیشہ سیکھنے کے شوقین رہے اور نئی چیزوں کو دریافت کرنے کی جستجو رکھتے تھے۔وہ ایک بہترین استاد اور رہنما بھی تھے، جو دوسروں کو سائنس سے محبت کرنے اور اسے آگے بڑھانے کی ترغیب دیتے تھے۔ان کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ عزم، محنت، اور تخلیقیت سے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔پروفیسر ڈاکٹر احمد زویل کی کہانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ سائنس کی دنیا میں ہر ایک کا کردار اہم ہے۔ وہ ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ نئی دریافتوں کے لیے ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہیے، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی یا بظاہر ناممکن کیوں نہ لگے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالسلام: ایک مسلم سائنسدان کا چیلنجوں سے نوبل انعام تک سفر:
ابتدائی زندگی اور تعلیم: 1926ء میں پنجاب، پاکستان کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے، عبدالسلام نے اپنی ذہانت اور محنت سے خود کو ممتاز کیا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ریاضی میں ڈگری حاصل کی اور پھر کیمبرج یونیورسٹی، برطانیہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اپنے دور کے سب سے باصلاحیت ریاضی دانوں اور نظریاتی طبیعیات دانوں میں سے ایک سمجھے جاتے تھے۔
الیکٹروویک تھیوری میں انقلابی کام: عبدالسلام کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ”الیکٹروویک تھیوری” کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنا تھا۔ یہ نظریہ مادے کی دو بنیادی قوتوں، یعنی برقی قوت اور کمزور نیوٹرل قوت کو ایک ہی فریم ورک میں جوڑتا ہے۔ اس سے پہلے، یہ قوتیں الگ الگ سمجھی جاتی تھیں۔عبدالسلام نے پہلے کمزور نیوٹرل کرنٹ کی پیش گوئی کی، جو بعد میں تجربات سے ثابت ہوئی۔ یہ ایک بہت بڑی دریافت تھی جس نے الیکٹروویک تھیوری کی سچائی کو ثابت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
چیلنجوں کا سامنا اور اس پر فتوحات: ایک احمدی ہونے کی وجہ سے، عبدالسلام کو پاکستان میں تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، وہ اپنے عقائد اور علمی صلاحیتوں سے پیچھے نہیں ہٹے اور انٹرنیشنل سینٹرز میں اپنی تحقیق جاری رکھی۔ انہوں نے بین الاقوامی اداروں جیسے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) اور ٹرائسٹے میں اہم کردار ادا کیا اور پاکستان میں بھی سائنس کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔
عالمی پہچان اور نوبل انعام:ان کی علمی کاوشوں کی وجہ سے، انہیں 1979ء میں نوبل انعام برائے طبیعیات سے نوازا گیا۔ اس اعزاز کے ساتھ وہ پاکستان اور مسلمان دنیا کے لیے ایک عظیم ترقی کی علامت بن گئے۔
دلچسپ باتیں: عبدالسلام ایک بہترین معلم اور مصنف بھی تھے۔ انہوں نے سائنس کو آسان انداز میں سمجھانے کی کوشش کی اور اسے عام لوگوں تک پہنچانے کا اہم کام کیا۔وہ سائنس اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی کی بات کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ دونوں ہی انسان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ان کی زندگی کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ عزم، محنت، اور اپنے خوابوں پر یقین رکھنے سے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالسلام کی کہانی نہ صرف پاکستانی اور مسلمان سائنسدانوں کے لیے بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک تحریک ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ چیلنجوں سے نہ گھبرائیں، اپنے خوابوں کا پیچھا کریں، اور دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی کوشش کریں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد عبد السلام، احمد زیویل، عزیز سانکار، اور منگی باوندی کی کہانیاں ہمیں دکھاتی ہیں کہ مسلمان سائنسدانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی کامیابیاں ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ ہر انسان، قطع نظر اس کی نسل، مذہب، یا ثقافت کے، دنیا میں اہم کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔ یہ چار نام صرف چند مثالیں ہیں، مسلمان سائنسدانوں کی ایک طویل فہرست کا حصہ ہیں۔ مزید سائنسدانوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے آپ ”مسلم سائنسدانوں کی سائنسی خدمات” نامی کتاب اس لنک پر موجودپی ڈی ایف پڑھ کر حاصل کر سکتے ہیں۔
https://archive.org/details/MuslimSciencedanoKiScienciKhidmaat
ان کی کہانیاں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ عزم، لگن اور محنت سے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے اور ہم سب اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے دنیا کو ایک بہتر جگہ بنا سکتے ہیں۔
آئیے آج قومی یوم سائنس کے موقع پر ہم ان سائنسدانوں کی مثالیں اپناتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھیں گے اور انسانیت کی خدمت کے لیے اپنا حصہ ڈالیں گے۔ انشاء اللہ

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا