مساوات مرد و زن شرعی و فطری

0
0

ذیشان الہی منیر

کتاب و سنت کا حوالہ ،صحابیات و تابعات کی زندگی کا خلاصہ عقل و فطرت کا تقاضا چاند و سورج کی طرح روشن اور تابناک ہے کہ مساوات مرد و زن شرعی و فطری ہے ۔ مساوات اور شرعی و فطری کے معنی و مفہوم پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مساوات کا مطلب برابری کے ہے جب کہ شرعی و فطری کا معنی ہوتا ہے جو شرعی اعتبار سے اور قدرتی اعتبار سے جائز ہو تو مساوات مرد و زن کا مطلب ہوا شرعی اور قدرتی اعتبار سے مرد و عورت میں یکساں صفات یا کام ۔مساوات مرد و زن کو لے کر عام طور پر دلیل کی سوئی یہی پر ٹکی رہتی ہے کہ یہ مغرب کی دین ہے ۔مگر یہ بات سچ کو جھوٹ ،حق کو ناحق کہنے کے برابر ہے۔کیوں کہ مساوات مغرب کی نہیں بلکہ عرب کی دین ہے اللہ تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت کی عربی خواتین پر ہو رہے ظلم کو روکا اور انہیں مردو کے ہم پلہ قرار دیا۔دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس کی وجہ کر صنف نازک کو جسمانی خطرہ ہے ۔مگر یہ دلیل بھی درست نہیں کیوں کہ مساوات مرد و زن سے کہیں بھی خواتین کے لئے کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ صرف ایک وہم ہے۔تیسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس کی وجہ کر عورت آزاد ہو جاتی ہیں اور گھروں کے کام نہیں کرتی ۔یہ دلیل بھی بے بنیاد ہے کیوں کہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے آزاد پیدا کیا ہے اور وہ شرعی حدود کا پاس و لحاظ رکھ کر ہر وہ کام کر سکتی ہیں جو ایک مرد کرتے ہیں اور عورت کو گھروں اور چولہے تک محدود کردینا یہ صنف نازک پر ظلم ہے۔مساوات مرد و زن کو غیر شرعی اور مغربی دین قرار دینا کیسے درست ہوسکتا ہے کیوں کہ قرآن و حدیث اور سیرت صحابیات کے ساتھ ساتھ بہت سارے دلائل موجود ہیں جو مساوات مرد و زن کو شرعی اور فطری ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔(1) عبادات کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کے مساوات کا پیغام دیا دلیل :ان المسلمین و المسلمات و المومنین و المومنات و القانتین والقانتات سے لے کر اعد اللہ لھم مغفرۃ و اجرا عظیما "یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ مساوات مرد و زن شرعی و فطری ہے ۔(2)نماز و زکوٰۃ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا "اقیموا الصلاۃ و اتوالزکوۃ "اس آیت کریمہ میں نماز و روزہ کی فرضیت مرد و عورت پر یکساں ہے جو اس بات کی دلیل ہے مساوات مرد و زن شرعی و فطری ہے ۔(3) قرآن مجید میں "کنتم خیر امہ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر”کا خطاب مرد وزن دونوں سے ہے جس کی تشریح سورہ توبہ آیت نمبر 4 میں موجود ہے "والمؤمنون و المومنات بعضھم اولیاء بعض یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر”جو اس بات کی دلیل ہے کہ مساوات مرد و زن شرعی و فطری ہے ۔ (4) مسجد میں مردوں کی طرح نماز خواتین پڑھ سکتی ہیں دلیل "لاتمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ (صحیح بخآری و مسلم) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مساوات مرد و زن شرعی و فطری ہے ۔(5)عید کی خوشیوں میں شکرانے کے طور پر نماز پڑھنے کے عظیم موقع پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث "امرنا ان نخرج الحیض یوم العیدین و ذوات الخدور فیشھدن جماعۃ المسلمین و دعوتھم "متفق علیہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مساوات مرد و زن شرعی و فطری ہے ۔(6) تحریک اسلامی میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا چٹان کی طرح کھڑی ہوجانا ،نبوت کے پہلے تین سالوں میں 55 مومنین میں 9 خواتین کا ہونا ،ہجرت حبشہ کے 83 مہاجرین میں 18 خواتین کا ہونا ظلم سہنے میں بلالؓ اور عمارؓ جیسے مرد کا ہونا تو امؓ عبس اور ام عمارؓ اور زبیرہؓ جیسی خواتین کا بھی ظلم سہنا،مدنی دور میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا اسلام کی خاطر قربانیاں دینا۔ جنگ احد کے موقع پر شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے کے شہید ہونے کی خبر سن کر بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کرنا؟ اسی جنگ میں ام عمارؓ کا پانی پلانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی اور کفار کے نرغے میں آتے دیکھ کر تلوار نکال کر سامنے کھڑی ہوجانا اور کفار سے دو دو ہاتھ کرنا اور زخمی ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچا لینا اس بات کی دلیل ہے کہ مساوات مرد و زن شرعی و فطری ہے ۔(7)سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا بلند پایہ محدثہ، دو ہزار دو سے زائد احادیث طیبہ کی حافظہ اور ہزاروں صحابہ کبار علیہم الرضوان کی استاد نیز دین کا تہائی حصہ انہیں کی بدولت امت تک پہنچنا۔ اسماء بنت عمیس سے 160 احادیث، اسماء بنت ابی بکر سے 158 احادیث ،ام المومنین ام حبیبہ سے 65 احادیث ، ام المومنین میمونہ رضی اﷲ عنہا سے 76 احادیث ، ام المومنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا سے60 احادیث، اسماء بنت یزید سے 81، ام ہانی بنت ابن طالب سے 46، ام فضل بنت حارث سے 30، فاطمہ بنت قیس سے 34 احادیث کی راویت کا ملنا۔اسی طرح نعیمیہ بنت علی، ام احمد زینب بنت مکی اور بہت سی دوسری خواتین کا اپنے وقت کے بڑے بڑے مدارس جیسے مدرسہ عزیزیہ میں رہ کر اپنی پوری زندگی علم حدیث کی خدمات میں گزار دینا۔ حکیم ترمذی کا اپنے لڑکپن میں سات معلمات سے علم حدیث حاصل کرنے کی گواہی دینا۔ابن قیم رحمہ اللہ کا 22 صحابیات جو فقہ و فتاویٰ میں مشہور تھیں کا صراحت کرنا۔ شیخ علاؤ الدین حنفی فقیہ مصنف تحفۃ الفقہاء کی صاحبزادی فاطمہ رحمہا اﷲ کاجلیل القدر فقہیہ ہونا ان کے شوہر شیخ علاؤ الدین کاسانی کا تحفۃ الفقہاء کی شرح البدائع الصنائع لکھنا اور شرح لکھنے کے دوران کوئی غلطی ہوجاتی تو وہ اس کی تصحیح کرواتیں فتاویٰ پر ان کے، ان کے والد و شوہر تینوں کی دستخط کا ہونا۔ محدث وعظیم فقیہ امام مالک ؒ کی صاحب زادیاں کا کمال درجہ کا علم رکھنا، عبارت حدیث اور اسماء رجال پر گہری نظر ہونا ،امام مالک ؒ جب درس حدیث کے لئے مسجد نبوی میں بیٹھتے تو پردے کے پیچھے سے آپ کی صاحب زادیاں کا مرد حضرات کی غلطی پر ایک لکڑی کو دوسری لکڑی پر مار کر آگاہ کرنا،مشہور امام ابویوسف طحاوی ؒ کا حدیث کی کتاب طحاوی شریف میں موجود احادیث کو پڑھتے وقت ان کی لائق بیٹی کا اسے تحریر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مساوات مرد و زن شرعی و فطری ہے ۔ (8)روزِ اول سے اسلام نے عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کرادر کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق اور مساوات کی ضمانت بھی فراہم کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ مساوات مرد و زن شرعی و فطری ہے ۔ مساوات مرد و زن کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ خواتین اپنے جسم کی نمائش کریں اور اپنے اوپر گناہ کا انبار جمع کر لے بلکہ اس کا صاف مطلب ہے کہ ہر وہ کام چاہے وہ عبادت،سیاست،ثروت اور ملازمت کا ہو خواتین اسے کر سکتی ہیں بشرطیکہ کہ وہ جائز اور شرعی حدود میں ہو ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو مساوات مرد و زن کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کی توفیق دے آمین ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا