شگفتہ پروین
مرغوب اثر فاطمی کا شمار عصر حاضر کے ممتاز شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق بہار کے مشہور شہر’’گیا‘‘ سے ہے جو ادبی لحاظ سے محتاج تعارف نہیں ۔ہمیشہ سے ہی یہ شہر علم و ادب کا گہوارا رہا ہے۔
فاطمی صاحب کی ولادت ۵ فروری ۱۹۵۱ء میںبیلا،وارث تھانہ،گوہ ضلع اورنگ آباد (بہار) میں ہوئی۔ اور ان کی مستقل رہائش گاہ روڈ نمبر۷ علی گنج گیا ہے۔فاطمی کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ جہاں تک ان کے ملازمت کا سوال ہے تو ۱۹۷۴ء میں بہار پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور فروری۲۰۱۱ء میں سینئر ڈی۔ایس۔پی کے عہدے سے ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ رٹائرمنٹ کے بعد موصوف اردو ادب کی خدمت میں منہمک ہوگئے۔ گویا ساری زندگی کے پختہ تجربات کا نچوڑ صفحہ ٔ قرطاس پر بکھیرنے کا تہیہ کرلیا۔ بہار اردو اکیڈمی نے انھیں پہلا مجموعہ’’منزل دشوار‘‘ ۲۰۱۲ پر انعام سے بھی نوازا ہے۔ اثر فاطمی شاعری پر اصلاح سے متعلق اقرار کرتے ہیں کہ میرے اوّل و آخر باضابطہ استاد شاعری جناب پروفیسر محمد منصور عالم سبکدوش صدر شعبۂ اردو ادبیات مگدھ یونی ورسٹی بودھ گیا ہیں۔
مرغوب اثر فاطمی کی شاعری کے تعلق سے یہ امر لائق تحسین و ستائش ہے کہ شعر و ادب سے بالکل بے گانہ اور خشک ماحول میں ہونے کے باوجود شاعری کو ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا بلکہ پیشہ وارانہ مصروفیات کے ساتھ ذوق شاعری کو برقرار رکھا اور اس کے نوک پلک کو سنوارتے رہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ کہیں یہ رہی کہ ادب اور شاعری سے ان کا قلبی رشتہ عالمِ طفلی سے تھا۔ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ خود تحریر کرتے ہیں کہ:
’’والد صاحب کی علمی صلاحیت قابل رشک تھی ساتھ ہی ان کی اردو دوستی قابل قدر تھی۔گیاکے ادبی حلقوں میں جناب قیوم اثر،قیوم خضر، معین شاہد،شاہ لعل قادری وغیرہ انکے معاصرین تھے۔ اور باری روڈ گیا میں حکیم ظہیر صاحب کے دوا خانہ کی ادبی نشستوں کا ذکر اکثر بچپن میں بھی سننے کو ملا۔ہم بھائی بہنوں کو انھوں اس طرح پالا کہ درسی تعلیم اپنی جگہ تھی اور زبان دانی کی زبانی تعلیم ہم لوگوں کو کھیل کھیل میں ملتی رہی۔ سردیوں اور گرمیوں کی راتوں میں قصّے کہانیوں کے ساتھ ساتھ غالبؔ و میرؔ کے اشعار کی گھٹی پلا تے رہے۔ اشعار کو باوزن پڑھنے اور ان کے اندر چھپے رموز کو سمجھنے کا شعور پنپتا رہا۔‘‘
فاطمی صاحب نے تقریباً شاعری کے تمام اصناف مثلاً غزل ،نظم ،حمد،رباعیات،قطعات اور دوہے جیسے قدیم صنف پر بھی طبع آزمائی کی ہے اور سبھی پر یکسا ں قدرت کے مالک ہیں۔ ان کا تین شعری مجموعہ ’’منزل دشوار۲۰۱۲ء‘‘،’’شجر سایہ دار۲۰۱۴ء‘‘،’’خیمہ بہار۲۰۱۸ء ‘‘ اردو کے ہم عصر شعری اثاثے میں ایک اضافے کی حیثیت سے سامنے آگیا ہے۔ مرغوب اثر فاطمی کی شاعری متنوع موضوعات کے حامل نظر آتی ہیں۔ انھیں ہر رنگ میں شعر کہنے کا ہنر ہے۔ جب ہم ان کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو عمدہ موضوعات کے ساتھ بے حد صاف ستھرا اور سنبھلا ہوا انداز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تشبیہات و استعارات کے بوجھ سے ان کے اشعار بالکل پاک اور عاری ہیں ۔اشعار کے پیش کش میں بڑی تخلیقی بصیرت اور فن کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہو۔
انسان سے فضا پامال ہوئی
اب مانگے رات سہانی کیوں
پیار کے بول پر سر کے بل چل دیا
تو نے آواز دی دَل کا دَل چل دیا
آغاز میں صعوبتیں درپیش تو ہوئیں
پیہم مشقتوں نے انھیں رام کردیا
اداس نسلوں کے آگے ہے منظر دل سوز
چراغ گھات میں ہیں اورہوانشانے پر
فاطمی مبہم الفاظ سے ممکن حد تک گریز کرتے ہیں۔ شعری اصطلاحات کو اس ہنر مندی سے برتا ہے کہ قاری کہیں الجھن کا شکار بھی نہیں ہوتا اور اظہار بیان میں پختگی اور روانی برقرار رہتی ہے۔’’پروفیسر وہاب اشرفی‘‘ موصوف کی شاعری پر اظہار و خیال کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’فاطمی میرے لیے نئے شاعر ضرور ہیں لیکن ان کے اشعار میں بڑی پیوستگی نظر آتی ہے۔ مجھے کوئی فنی جھول نظر نہیں آتا۔ ایک مصرعہ دوسرے مصرعہ سے اٹوٹ رشتہ رکھتا ہے۔ اس طرح ابہام کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ایسی شاعری کررہے ہیںجو قافیہ اور ردیف پر قدرت کے سبب از خود معنی پیدا کردیتے ہیں۔ شاعری میں صنعت گری ایک اہم بات ہے۔ اُس میں انفرادیت حسیات کا ایک رول ہوتا ہے۔ یہ احساس مجھے ہورہا ہے کہ مرغوب اثر فاطمی بیحد ذی حس شاعر ہیں لہذٰا ان کے یہان امیجز جو آتے ہیں وہ متاثر کرتے ہیں۔‘‘
فاطمی کی شاعری میں کوئی بھاری بھر کم اور گہری معنویت پوشیدہ نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ دیگر شعراء کے بہ نسبت عصری حالات اور مقامی رنگ زیادہ نمایاں ہے۔ ان کے انتخاب موضوع ،ذخیرہ الفاظ اور شعری اصطلاحات میں ہندوستانیت کا عکس پو رے حسن کے سا تھ عیا ںہے۔ ان کے غزلوں کا تیور بے حد متاثر کن ہے جو فوراً قاری کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے ۔کچھ منتخب اشعار ملاحظہ کریں ؎
باغ رضواں سے نکل کر حضرت انسان نے
جس بیاباں پر نظر ڈالی گلستاں کردیا
آشیاں برق کے تنکوں سے بچانے نکلے
دشمنانِ جان کو ہم دوست بنانے نکلے
اثر فاطمی نظم نگاری کے لحاظ سے بھی اپنا ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گرچہ غزل کے مقابلے نظموں کی تعداد کم ہیں لیکن نظریات و افکار، تاریخ، روایات اور تہذیب کے پیش کش کے لحاظ سے کافی آگے ہیں۔ چونکہ شاعر اور ادیب کا باشعور ذہن اطراف زندگی سے سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے اسے وہ اپنی فنی اورتخلیقی بصیرت کے ذریعے ابھارنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے یہ چیز بھی موصوف کے یہاں توانہ انداز میں موجود ہے۔ خاص طور پر وہ حالاتِ حاضرہ پر نالاں و گریاں نظر آتے ہیں۔ مثلاً قوم کی حالت زار، فرقہ پرستی، تعصب،بدعنوانیاں،اخلاقی قدروں کا چورہونا، عورتوں کی حالت زار، جڑ و ں کی گمشدگی وغیرہ کو نوک قلم پر لاتے ہیں۔ اس نوع کی نظموں میں وعدوں کا گلدستہ ،مائوں کا المیہ، مجھے مرنے دو، لمحوں کی لاش، آنسوں کا قحط، نونہال، فراغت، آڑی ترچھی لکیریں، منزل، اردو وغیر ہ بے حذ اثر پذیر نظمیں ہیں۔ نظم ’’بدلتی قدریں‘‘ کا ایک بند ملاحظہ ہو ؎
اک انقلاب سوچ میں لوگوں کے آگیا
سارے سماج ہی میں کھلاپن سماگیا
فیشن بڑھا سماج کی قدریں بدل گیں
ہر گھر میں فلمیں اپنا اثر ڈالتی گیں
کل تک جو ناروا تھا وہ مقبول ہوگیا
اب’’سکس‘‘ پر بھی گفتگو تہذیب بن گئی
جھینی سی پردہ داری میں سب کچھ روا ہوگیا
تہذیب کا غرور بھی کب کا ہوا ہوا
اثر فاطمی اپنے خوبصورت نظموں کے توسط سے حیات و کائنات کے ہر موضوع پر اپنے تاثرات کو سبط کیا ہے۔ کہیں سیدھے اور سلیس انداز میں سماجی ناہمواریوں ،مٹتی اقدار و تہذیب،رشتوں کے ٹوٹنے بکھرنے،جڑوں کی گمشدگی، تعصب وغیرہ پر نوحہ گری کرتے ہیں تو کہیں حسین طنزیہ انداز اختیار کر کے نونہالوں کو نصیحت کرتے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس نوع کا ایک عمدہ اور عمیق مثال کے لیے نظم’’مقابلے اور اندیشے‘‘ کا ایک بند حاضر ہے ؎
ملتا ہے انعام ذہنی انتشار
یہ سماجی مرض ہے ناسور ہے
کھانے لگتا ہے یہ تب ، گھن کی طرح
زندگی کو ، ناامیدی ، مایوسی
ہاتھ لگتے ہیں قتال و خودکشی
مخاصمت ، بے رہ روی کشیدگی
باڑھ سی آجاتی تشویش کی
آنے والی نسل کی محدود راہ
ان مسائل پر ہیں چپ چپ والدین
فخر کرنے ہی کو بس ترجیح ہے
اس لحاظ سے مرغوب صاحب کا ایک اور بے حد پر اثر نظم’’دیر کہیں نہ ہوجائے‘‘ ہے ۔ایک بند ملاحظہ ہو:
چڑیلوں کی پرچھائیاں ہر سو پھیل رہی ہیں
ڈائینوں کا رقص بھی دید زیب ہوا ہے
فاختہ انڈے سینے لگی ہے ہر موسم میں
رشتوں کا اخلاص بھی اب بے جاں پڑا ہے
’’بیٹی‘‘ کے عنوان سے موصوف کا ایک کامیاب اور دلکش نظم ہے جس پر طنز کا جھونکا بھی غالب ہے۔ بدلتے اقدار اور حالات زار کی ضد میں آئی ہوئی ’’نسوانی طبقہ‘‘ اس قدر ہوس کا نشانہ بن چکی ہیں کہ وہ ہر پاک رشتے حتی کے بڑے بزرگ اور والدین سے بھی خوف زدہ رہنے لگی ہیں۔ یعنی عصر حاضر میں رشتوں کے فاصلے دم توڑ چکے ہیں۔ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
ہاں وہی سبزیوں سی بکتی ہے
ہاں وہی روز ننگی ہوتی ہے
گھونٹی جاتی ہے اس کی ہی گردن
ناز نفرت میں وہ جھلستی ہے
شیشہ آبرو بچانے کو
باپ سے، بھائی سے بھی ڈرتی ہے
قتل ناموں کا حدف ہے وہی
سنسکاروں کی اونچی ویدی پر
اس کا کومل بدن لٹکتا ہے
قابل معافی اک خطا بھی نہیں
کل کا خمیازہ وہ اٹھاتی ہے
زندگی حبس میں بتاتی ہے
پوچھتے کیا ہو جانتے ہو تم!
شاید یہی وجہ ہے کہ موصوف کی ایک نظم’’آہ لڑکیاں‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں وہ کہیں نہ کہیں لڑکیوں کو پردہ میں دیکھنے کے قائل نظر آتے ہیں۔ یہاں پہ بھی ظاہر کردوں کہ فاطمی صاحب لڑکیوں کو سخت پابند رکھنے کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ ان کے یہاں ایسے بھی اشعار موجود ہیں جسے پڑھ کر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرتے ہیں، ان کی عظمت کو ابھارنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ بلاوجہ پردے سے باہر دیکھنا نہیں چاہتے۔ اسی لیے ان کے قلم سے اس طرح کے اشعار تحریر ہوتے ہیں۔
اونچے طبقہ کا یہ طریقہ ہے
کم پہننا جہاں سلیقہ ہے
مغربی سونچ کا نتیجہ ہے
ٹی وی کلچر نے جس کو سینچا ہے
کتنی آزاد ہیں،دکھاتی ہیں
لڑکیاں گھر سے بھاگ جاتی ہیں
اسی لیے ان سے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ’’اثر پردے کے خلاف اور بیجا آزادی نسواں کے حمایتی نہیں۔‘‘ فاطمی صاحب کا موضوع گھریلو اور سماجی زندگی سے خاص تعلق رکھتا ہے۔ وہ سیاسی بن کرلمبی لمبی باتیں نہیں کرتے اور نہ ہی عالمانہ رویہ اختیار کر کے قاری کو الجھانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ان کا اسلوب اور موضوع عوامی ہے جسے سلیس انداز میں بیان کرتے ہیں۔اس منا سبت سے ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
بات میری ہے گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
اثر فاطمی کی شاعری کی یہی وہ اہم جزو ہے جو انھیں ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے وہ معاشرے کے تمام خدوخال پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں الفاظ و تراکیب کے انتخاب اور استعمال میں ایک خاص رکھ رکھائو اور احساس حسن پایا جاتا ہے۔ ان کے لہجے میں سادگی اور سچائی ہے عام فہم زبان کا استعمال اور عوام الناس کے جذبات و محسوسات کی خوبصورت ترجمانی میں ہی ان کی مقبولیت کا راز مضمر ہے۔ موصوف کے تین شعری مجموعہ منظر عام پر نہ محض آچکے ہیں بلکہ انھیں معاصرین میں عمدہ پہچان بھی بخشنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ان کے معاصرین میں سلطان اختر،مناظری شق ہرگانوی، شہپر رسول، خورشید اکبر،احمد مشتاق ،جمال اویسی، عطا عا بد ی ،انور آفاقی،خورشید اکرم، طارق متین، سرفہرست ہیں۔