مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے قربانی

0
0

مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے قربانی

 

آج کل قربانی کے حوالے سے طرح طرح کے سوالات سوشل میڈیا پر گردش کر رھے ہیں اس لئے مناسب سمجھا کہ اس موضوع پر ثواب کی نیت اور امت مسلمہ کی قران و حدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کے لئے اس کی تشریح کر دی جائے۔

 

قران و حدیث کی روشنی میں کسی بھی شخص کے لئے اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کا سب سے زیادہ ثواب تب ھے کہ جب اسے جینے کی امید ھو (یعنی وہ تندرست ھو) اور دوسرے نمبر پر اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ وہ صدقہ پسند ھے جو کوئی شخص اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دے کر کرے. اس سے ثابت یہ ھوتا ھے کہ بہترین صدقہ مسلمان کے لئے اپنی جائیداد میں سے اپنی مرضی سے تندرستی کی حالت میں دیا جانے والا صدقہ ھے۔ موت کے بعد منقولہ و غیر منقولہ جائیداد میں میت کا کوئی حق ما سوائے اس کے کہ وہ اس کے قرض کی ادائیگی، تجہیز و تکفین،یا وصیت (جب کہ وہ ایک تہائی سے کم مال کی ھو) پورا کرنے سے متعلق ھو – ہاں صحیح احادیث کی روشنی میں اولاد کے ہر صالحہ عمل میں (اگر چہ وہ اس کا تخصص والدین کے لئے کرے یا نہ کرے) والدین کا حصہ موجود ھے اور ھمیں اپنے والدین کی نیت سے بھی نفلی صدقات کرتے رہنا چاہئے کیوں کے یہ ان کا ھم پر حق ھے اور نہ کرنے پر اولاد گناہ گار نہیں ھو گی کیونکہ یہ صدقات نفلی(یعنی اضافی) کی حیثیت رکھتے ہیں

 

متوفی کے لئے قربانی کی یہ دلیل پکڑنا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لئے قربانی کی تھی درست نہیں کیوں کہ انھوں نے یہ قربانی زندہ امت کے لئے کی تھی مردہ کے لئے نہیں

 

مذید وضاحت کے لئے کتب احادیث میں مندرجہ ذیل حدیث کے علاؤہ کوئی دلیل نہیں ملتی اور جراح و تعدیل و اصول احادیث کی روشنی میں اس کی سند ضعیف و غریب بتائی گئی ھے

 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ، عَنْ الْحَكَمِ،‏‏‏‏ عَنْ حَنَشٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ،‏‏‏‏ أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ ،‏‏‏‏ فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَرَنِي بِهِ يَعْنِي:‏‏‏‏ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ،‏‏‏‏ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُضَحَّى عَنِ الْمَيِّتِ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُضَحَّى عَنْهُ،‏‏‏‏ وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ:‏‏‏‏ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَنْهُ،‏‏‏‏ وَلَا يُضَحَّى عَنْهُ،‏‏‏‏ وَإِنْ ضَحَّى،‏‏‏‏ فَلَا يَأْكُلُ مِنْهَا شَيْئًا،‏‏‏‏ وَيَتَصَدَّقُ بِهَا كُلِّهَا ،‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدٌ،‏‏‏‏ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ،‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ شَرِيكٍ،‏‏‏‏ قُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ أَبُو الْحَسْنَاءِ مَا اسْمُهُ،‏‏‏‏ فَلَمْ يَعْرِفْهُ،‏‏‏‏ قَالَ مُسْلِمٌ اسْمُهُ:‏‏‏‏ الْحَسَنُ.

 

وہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے، تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے اس کا حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، لہٰذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اس کو صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: علی بن مدینی نے کہا: اس حدیث کو شریک کے علاوہ لوگوں نے بھی روایت کیا ہے، میں نے ان سے دریافت کیا: راوی ابوالحسناء کا کیا نام ہے؟ تو وہ اسے نہیں جان سکے، مسلم کہتے ہیں: اس کا نام حسن ہے، ۳- بعض اہل علم نے میت کی طرف سےقربانی کی رخصت دی ہے اور بعض لوگ میت کی طرف سے قربانی درست نہیں سمجھتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: مجھے یہ چیز زیادہ پسند ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے، قربانی نہ کی جائے، اور اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کر دی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کر دے

سنن ترمزی حدیث نمبر1495کتاب: قربانی کے احکام و مسائل سند ضعیف

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قران پاک میں صاحب استطاعت افراد کو اپنے ھم اثر رشتےداروں اور غیر رشتیدار پڑوسیوں ، مساکین و غرباء کے لئے زکوٰۃ (فرض صدقات کے علاؤہ) بھی مال خرچ کرنے کی ترغیب کثیر مواقع پر دلوائی ھے تا کہ معاشی طور پر مستحکم سماج تشکیل پائے جس کی آج کے دور میں سب سے زیادہ ضرورت ھے اور نام و نمود اور کثرت رواج کی وجہ سے ھم اس طرف متوجہ ہی نہیں ھو پاتے ۔ میں اس حوالے سے ( طوالت کے ڈر سے) قرآن کریم کی صرف دو آیات پیش کر کے قارئین کرام کی توجہ اس جانب مبزول کروانے کی کوشش کروں گا:-

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ ؕ وَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۵۴﴾

اے ایمان والو ! جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے وہ دن آنے سے پہلے پہلے ( اللہ کے راستے میں ) خرچ کرلو جس دن نہ کوئی سودا ہوگا ، نہ کوئی دوستی ( کام آئے گی ) ، اور نہ کوئی سفارش ہوسکے گی ۔ ( ١٧٣ ) اور ظالم وہ لوگ ہیں جو کفر اختیار کیے ہوئے ہیں

 

*سورة البقرة آیت نمبر254*

 

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۹۲﴾

 

تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک ان چیزوں میں سے ( اللہ کے لیے ) خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں ۔ ( ٣٢ ) اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو ، اللہ اسے خوب جانتا ہے ۔

*سورة آل عمران آیت نمبر 92*

 

یہ احکامات اللہ کے ہیں اور ضعیف حدیث پر عمل پیرا ھونے سے کئی زیادہ فایدہ مند بھی

 

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں بہتر یہ ہی ھے کہ ہر فرد جو وسعتِ مال رکھتا ھو اپنی طرف سے قربانی کرے اور ایک کنبے کی جانب سے ایک قربانی کفایت کرے گی اگر چہ گھر میں کمانے والوں کی تعداد زیادہ بھی ھو ۔ اگر چہ کچھ اہل علم ہر صاحب استطاعت کی طرف سے قربانی کے وجوب کے بھی قائل ہیں لیکن مشروع طریقہ یہ ھے جو بیان کر دیا گیا

 

لہزا میری گزارش ھے کہ ھمیں مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اپنے مرحومین کے لئے قربانی کے علاؤہ صدقات کرتے رہنا چاہئے اور الحمد للّٰہ ھمارے معاشرے میں اکثر لوگ اس راہ پر گامزن بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ صحیح نیت کے ساتھ ھم سب کو عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین

 

دعاؤں کا خواستگار ۔ منظور الحق منظور کلائیوی

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا