محمد اعظم شاہد
کرناٹک میں جب سے بی جے پی شکست فاش سے دوچار ہوئی ہے، اس پارٹی کی بوکھلاہٹ میں ہر دن اضافہ ہونے لگا ہے۔ آر ایس ایس کی زیر سر پرستی بشمول بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیمیں فرقہ واریت کو ایک نیا رُخ دینے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ اب آہستہ آہستہ ریاست میں معمول پر لوٹتے امن و شانتی کو خراب کرنے بی جے پی کے ذمہ دار لیڈران تو کبھی ان کے حامی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو زہر آلود کر نے اشتعال انگیز بیانات پھر سے دینے لگے ہیں۔ ایک طرح سے مسلمانوں کو ورغلا یا جارہاہے۔ اپنے سیاسی منشور میں بی جے پی نے ہندوؤں سے کیے گئے وعدے کے مطابق کشمیر کی خصوصی شناخت اور مراعات کا خاتمہ، این آرسی قانون، طلاق ثلاثہ کے بعد اب یونی فارم سیول کوڈ کا مدعا گر مایا جارہا ہے۔ تا کہ 2024کے لوک سبھا انتخابات کے دوران ان معاملات کی آڑ میں ہندو مسلم کارڈ ایک بار پھر سے کھیل کر اقتدار کی بازی جیت جائیں۔ ان حالات میں جہاں عالمی سطح پر بی جے پی کی مسلمانوں سے متعلق جارحانہ اور غیر جمہوری پالیسی پر مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جارہا ہے۔ وہیں کرنا تک میں ہندو مسلم اتحاد کی ایک نئی مثال قائم ہوئی ہے۔ واقعہ ہے یکم؍ جولائی 2023 کا۔ کرناٹک کے شمال میں واقع ضلع کو پل کے کو کنور تعلقہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں بانا پور کا۔ اس گا ؤں میں مسلمانوں کے صرف پانچ گھر آباد ہیں۔ اکثریت میں ہندو رہتے ہیں۔ دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مل کر جن میں ہندوؤں کی شمولیت بھی شامل رہی ہے۔ ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے، جس میں بڑھ چڑھ کر مقامی ہندوؤں نے حصہ لیا ہے۔ مسجد کا افتتاح مقامی گوی ہندو مٹھ کے سوامی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس مسجد کے افتتاح کے بعد اپنے خطاب میں مقامی سوامی جی نے کہا ہے۔ کیا خوب کہا ہے۔ سورج کی روشنی، سانسوں میں سمائی ہوا، ہماری اس زمین، چرند پرند کے لیے جب کوئی مذہب نہیں ہے تو انسانوں کے لیے کیوں؟ پھل کھا کر چھلکے پھینکنا اور دوسروں پر اڑانا یہ مذہب نہیں ہے۔ ماحول کو صاف ستھرا رکھنا مذہب ہے۔ دوسروں کے دلوں کو دکھ پہنچائے بغیر زندگی بسر کرنا ہی اصل مذہب ہے۔ اس چھوٹے سے گاؤں کی یہ خبر مین اسٹریم میڈیا میں کہیں نظر نہیں آئی۔ بنگلورو سے شائع ہونے والے اصول پسند کنڑا اخبار ” وارتا بھارتی Vaarta Bharthi)) نے یہ خبر نمایاں طور پر شائع کی ہے۔ تا کہ مذہب کے نام پر پھیلنے والی شر پسندی کو آئینہ دکھایا جائے۔
گذشتہ سال جب کرناٹک میں بھی اذان، حلال، حجاب،مسلمانوں کے تجارتی بائیکاٹ جیسے تنازعات سراٹھائے ہوئے تھے۔ اُن دنوں بنگلور سے شائع ہونے والے چند انگریزی اور کنڑا زبان کے اخبارات میں مذہبی رواداری کا ایک واقعہ نمایاں طور پر شائع ہوا تھا۔ کرناٹک کے ضلع ہاسن کے تاریخی گاؤں بیلور میں مقامی قدیم مندر کی رتھ یاترا کا آغاز ہر سال مقامی قاضی صاحب کی تلاوت آیات قرآنی سے ہوا۔ یہ روایت صدیوں سے اس گاؤں میں چلی آرہی ہے۔ ایسے ہی کئی واقعات مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح کرناٹک میں بھی روبہ عمل ہوتے رہے ہیں۔ مگر اپنے پراگندہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے آرایس ایس اور بی جے پی نے ہر بار مذہبی رواداری کا سودا کیا ہے۔ عدم رواداری کو حربہ بنا کر اپنی مذموم سازشوں سے بدامنی عام کی جاتی رہی ہے۔ جس سیاسی پارٹی (بی جے پی) کے پاس ملک وریاستوں کی بہتر ترقی کا کوئی منصو بہ نہیں ہے وہاں مذہب کے نام پر کشیدگی پھیلا کر اقتدار حاصل کرنا ہی ان (بی جے پی والوں) کا نصب ا لعین رہا ہے۔ ملک کی مشترکہ تہذیب سے آرایس ایس اور اس کی پیروی کرنے والی تمام جماعتوں کو ایک نفرت سی ہے۔ جو ملک میں تکثیریت کی دہائی دیتا ہے۔ رواداری کی وراثت کی باتیں کرتا ہے اور کسی بھی طرح کی بدامنی پر سوال اٹھاتا ہے۔ وہ فرد یا انجمن یا گروہ معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ملک کا غدار اسے قرار دے دیا جاتا ہے۔ نفرتوں کے بازار میں نفرتوں کی تجارت سے منافع حاصل کرنے والوں کو مذہب سے ملنے والی روشنی ہی سے نفرت رہی ہے۔ وہ (بی جے پی) مذہب کو اقتدار کا ہتھیار مان کر چلتے ہیں اور اپنے ہم نواؤں کو اس کی پرزور تلقین بھی کرتے آئے ہیں۔
[email protected] Cell : 9986831777