"مدرس کا مرتبہ "

0
0

 

 

 

تحریر: نیلوفر (جموں وکشمیر)

نظام تعلیم میں معمار قوم یعنی مدرس یا معلم مرکزی حیثیت کا حامل ہے، جو قوم وملت کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مدارس کا بنیادی مقصد متوازن شخصیت کی تشکیل کرنا ہے جس کے نتیجے میں ایک متوازن معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس لئے ہم بجاطور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ مدرس طلبا و طالبات کے خیالات و افکار کو نہ صرف جلا بخشتا ہے، بلکہ ان کے شعور کو بیدار، ذہنوں کو منور اورتشخص کی آبیاری کرتا ہے، ان کی فطری قوتوں اور صلاحیتوں کی نشونما کرتا ہے۔ اتنے پر ہی اکتفا نہ کرتے ہوئے حق و باطل میں امتیاز کرنا سکھاتا ہے اور جہالت اور ظلمت کے اندھیروں سے نکال کر وادی نور میں آباد کرتا ہے۔ الغرض یہ تمام عظیم فرائض اس عظیم شخصیت، جسے روحانی باپ کہا جاتا ہے،سے
ہی انجام پاتے ہیں۔ بقول شاعر
معلم ہی کے دم سے شمع علم و عقل ہے روشن
اس کے دم سے نور علم چھایا ہے زمانے میں
مشہور جرمن معلم مسٹر مارٹن لوتھر کا قول ہے کہ، "کسی قوم کی کامیابی اور سر بلندی کا راز یہ نہیں کہ اس کی فوجی تعداد کتنی ہے یا اس کے قلعے کتنے مضبوط ہیں، بلکہ اس کا تمام انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس قوم کے بیٹے علم و اخلاق کی تربیت سے کسی حد تک بہرہ ور ہیں "۔ چنانچہ کسی قوم یا ملک کی کامیابی اور سر بلندی بڑی حد تک ایک مدرس کی مرہونِ منت ہے۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ سماج نے جتنی ذمہ داریاں مدرس پر عائد کی ہیں، شاید اپنیکندھوں پر نہ رکھی ہوں۔
مدرسہ صرف پڑھنے لکھنے کی جگہ نہیں ، جہاں محض مخصوص وقت میں نصاب مکمل کرایا جائے۔ بلکہ وہ ایسا شفا خانہ ہے جہاں اخلاق و عمل کی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے، جہاں بچے کی عقلی اور دماغی کمزوریاں دور کی جاتی ہیں، اسی کے ساتھ اس کی ذہنی صلاحیتوں کو اْبھارا کر اس کی کردار سازی کی جاتی ہے۔ جس سے اس کی خود اعتمادی آسمانوں کو چھونے لگتی ہے ان تمام امور خاص سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایک مدرس کی حیثیت کیا ہے۔؟ اس کے نازک کاندھوں پر کتنی نازک ذمے داری کا بوجھ ہوتا ہے۔؟ اور وہ کس قدر عزت و وقار کا حامل ہوتا ہے۔؟ اس پیشے کو پیغمبروں کا پیشہ کہا گیا ہے۔ تو بھلا اس پیشے کی عظمت کے کیا کہنے۔ بقول شاعر:

مدرس قوم کی بنیاد کا معمار ہوتا ہے مدرس علم اور اخلاق کا معمار ہوتا ہے

لیکن مقام حیف کہ آج کے بیشتر مدرس اس عظیم رتبے کی نازک ذمے داریوں اور فرائض منصبی کو فراموش کر چکے ہیں۔علم و اخلاق کی تعلیم سے ان کا برائے نام واسطہ ہے۔ وہ کم از کم وقت میں نصاب مکمل کراکے اپنے آپ کو بری الزمہ سمجھتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کہیں نئی پود کے اندر ملی تشخص اور شناخت کا شعور بیدار کرنا بھی مدرس کی اولین ذمے داری میں شامل تو نہیں ہے۔!!! یہ شعور یقیناً بیدار ہو گا اگر ایک مدرس بچوں کو آنے والی زندگی کے ٹھوس حقائق سے آگاہ کرائے ، فطرت کا مشاہدہ کرا کے کارخانہ قدرت پر غور و فکر کرنا سکھائے۔ لیکن افسوس کہ ان تمام امور کو انجام دینا تو در کنار، آج متعدد مدرس یہ محسوس کرنے کے باوجود کہ بچہ راہ راست سے بھٹک رہا ہے، اسے راہ راست پر لانے کی پرواہ نہیں کرتے اور اس کے عیوب کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور اگر بالفرض محال کچھ رد عمل ظاہر بھی کرتے ہیں تو وہ رویہ چیر پھاڑ کر کھا جانے والے بھیڑئے کا سا ہوتا ہے ہم اپنے منفی رویے سے اسکی پوشیدہ صلاحیتوں کو ہمیشہ کی موت سلا دیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں بات بننے کے بجائے اور بگڑ جاتی ہے۔ بچہ پڑھائی کو ہی سرے سے خیر باد کہنے میں اپنی عافیت جانتا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بحیثیت استاد کے ہم اپنی مثبت افکار ، جاندار و شاندار رویے سے رونما ہونے والی خامیوں کی جڑوں تک جا کر خامیوں یا پنپنے والی برائیوں کو جڑ سے نکال پھینک سکیں مگر اس کے برعکس زیادہ تر ہماری منفی سوچ،منفی رویے ،ہمارے چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات و سکنات اسے زہنی موت سلا دیتے ہیں۔ مذکورہ حال زار دیکھ کر فرعونیت کی یاد تازہ ہوتی ہے،بلکہ فرعونیت کو بھی کچھ گام پیچھے چھوڑ ا ہوا محسوس ہوتا ہے،
سچ پوچھییتو علم کی شمع آج طوفانوں کی زد میں ہے اور غیر محسوس انداز میں آنے والے خطرات چاروں طرف منڈلا رہے ہیں۔یوں مانئے کہ ہماری نسلیں کھوکھلی ہوتی جارہی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہم جان کر بھی انجان بنے بیٹھے ہیں۔ اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ آج کل زیادہ ترتعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام پر جو کچھ حاصل کیا جارہا ہے اس سے شخصیت سازی اور کردار سازی کے بجائے کردار کشی کے نتائج ہی سامنے نظر آتے ہیں۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم سب اس امر پر غورکریں کہ آج کا مدرس موجودہ نسل میں تشخص ،غیرت اور خود داری و خود اعتمادی جیسی صفات اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہے یا نہیں۔ والد ین کے لئے یہ لمحہ فکر یہ ہے کہ وہ اپنے لخت جگر کو تعلیم و تربیت کے لئے جس ماہر فن کے سپرد کرتے ہیں، کیا وہ اس عظیم فن کی حرمت اور اس کی تمام باریکیوں سے آشنا بھی ہے یا وہ محض زر و پر کے بل ہوتے پر اس عظیم عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ کیوں کہ ایک ماہر فن کبھی اپنے فن کو داغدار نہیں کرسکتا ہے۔ وہ اپنے فن کی تمام باریکیوں کو جانتے ہوئے اس میں اپنی مہارت کا ثبوت دیتا ہے۔ چاہے وہ فن نا کارہ گاڑیوں کو پھر سے درست کر کے ان کو چلنے کے قابل بنانے کا ہو، یا دیگر فنون ،شرط اتنی سی ہے کہ فن کی باریکیاں جاننے والا ہی فن کار کہلایاجائے۔
الغرض آج کے اس مضمون کا لب لباب یہ ہے کہ تمام مدرس صاحبان کو اپنے فرائض منصبی نہایت ایمانداری سے انجام دینے چاہئیں۔ مدرس عمل صالح رکھتا ہو۔ اس کے قول وفعل میں تضاد نہ پایا جائے، بلکہ اس کا قابل تقلید ہونالازمی ہے۔ مدرس کی کوشش بچوں کو بہترین شہری، بہترین انسان تشکیل دینے کی ہو۔ ہر حال میں مہر بانی اور خلوص کا پیکر بن کر اپنے کام کو جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
مانا کہ آج کے مدرس کی صورت حال کہیں رلانیوالی بھی ہوتی ہے۔ وہ بے بنیاد الزام تراشیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ، اس کی کار کردگی پر سماج کی حسد بھری نگاہ کا پہرہ ہے۔ اسے ذلیل کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔مگر ایسے قابل افسوس مقام پر مدرس کو یقین رکھنا چاہئے کہ استاد کو کسی ذاتی حسد کی بنیاد پر بے وجہ ذلیل کرنے والے لوگ اپنی بد تہذیبی ہی کا کھلا ثبوت دیتے ہیں مشہور مفکر افلاطون کے یہ اقوال یہاں قابل ذکر ہیں کہ :

(1) جہاں کے لوگ ڈاکٹر کو زیادہ محترم جانیں وہ بیمار ذہن کے ہوتے ہیں۔

(2) جہاں کے لوگ جرنیل کو زیادہ محترم جانیں وہ شدت پسند وحشی ہوتے ہیں۔

(3) جہاں کے لوگ استاد کو سب سے زیادہ محترم جانیں وہ حقیقی تہذیب یافتہ ہوتے ہیں۔
چنانچہ استاد کی تذلیل کرنے والے کسی صورت تہذیب یافتہ نہیں کہلائے جاسکتے۔ المختصر مدرس کو اپنے اس عظیم پیشے جسے پیغمبری کا پیشہ کہا گیا ہے ، اس کا ہر حال میں لحاظ رکھنا چاہیے اور اپنی خوش بختی پر نازاں ہو کر بغیر کسی صلے اور تحسین کی پرواہ کئے،اپنے فرائض کو نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ جو بیج بویا جاتا ہے یقینا’ وہی فصل کاٹنے کو ملتی ہے۔

از مکافات عمل غافل مشو
گندم از گندم بروید جوز جو

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا