دوپہر تک بازار کھلے ، نجی وپبلک ٹرانسپورٹ کی آوا جاہی جاری ، انٹرنیٹ بدستور بند
سرینگر؍ :کے این ایس / دفعہ370کی تنسیخ کے118ویں روزسنیچر ، 28 نومبر کو وادی کشمیر میں معمولات زندگی غیر یقینی صورتحال میں الجھے رہے ۔ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں دوپہر تک کاروباری وعوامی سرگرمیاں جاری رہیں جبکہ کہیں کہیں یہ سرگرمیاں دن بھر جاری رہیں تو کہیں جزوی طور ، متاثر رہیں ۔ ادھر پبلک ونجی ٹرانسپورٹ کی آوا جاہی دن بھر جاری رہی ۔ دریں اثنا ء کشمیر میں طویل ترین انٹر نیٹ بند ش برقرار ہے ۔ کشمیر نیوز سروس (کے این ایس ) کے مطابق 5اگست سے وادی کشمیر میں جاری غیر یقینی صورتحال کے سبب معمولات زندگی 118روز گزر جانے کے باوجود مکمل طور بحال نہ ہوسکے ۔ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں جمعرا ت کو محدود کاروباری وعوامی سرگرمیاں جاری رہیں ،تاہم ایک بجنے کیساتھ ہی یہ سرگرمیاں دوبارہ ٹھپ ہوئیں ۔تجارتی مرکز لالچوک اور اسکے گرد ونواح بازاروں میں دوپہر ایک بجے تک دکانات کھلے رہے جسکے بعد بازاروں میں سناٹا چھا گیااور یہ سلسلہ حالات کے اُتار چڑھائو کیساتھ تاحال جاری ہے ۔شہر خاص میں بھی اسی طرح کی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے ۔وادی کے دیگر 9اضلاع میں کہیں مکمل طور معمولات زندگی بحال ہوگئے ہیں اور کہیں محدود کاروباری وعوامی سرگرمیاں جاری ہیں ۔پبلک ٹرانسپورٹ ونجی گاڑیوں کی آوا جاہی غیر یقینی صورتحال کے سائے میں جاری ہے ۔ اس دوران وادی کشمیر میں طویل ترین انٹر نیٹ بندش بھی جاری ہے ۔سنیچر کو118ویں روز بھی انٹر نیٹ خدمات بحال نہ ہوسکے ۔انٹر نیٹ کی بندش کے سبب صحافیوں کو شدید ترین مشکلات کا سامنا ہے اور وہ انتظامیہ کی جانب سے قائم کئے گئے ’میڈیا سہولیاتی مرکز‘ پر انحصار کررہے ہیں ۔مقامی اخبارات کے نمائندوں کو بھی انٹر نیٹ بندش کے سبب ذہنی کوفت کا سامنا ہے ۔مقامی اخبارات کے نمائندوں کو اخباری مواد کے حصول کیلئے اسی مرکز کا دورہ ہر شام کرنا پڑ رہا ہے جبکہ اب یہ ایک معمول بن چکا ہے ۔سردیوں کے ایام اور برستی بارشوں میں مقامی اخبارات کے نمائندوں کو ہر روز میڈیا سہولیاتی مرکز کے کئی بار چکر لگانے پڑتے ہیں ۔یہاں بھی کبھی کبھار انٹر نیٹ بند رہنے کے سبب صحافیوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامناہے ۔صحافیوں نے وادی میں انٹر نیٹ خدمات بحال کرنے کے مطالبے کو لیکرکئی مرتبہ صدائے احتجاج بھی بلند کی ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے ،جہاں طویل ترین ،غیر معینہ عرصے اور تاریخ ساز انٹر نیٹ بریک ڈائون جاری ہے ۔کشمیر اس حوالے سے دنیا میں اول نمبر پر ہے ،جہاں118روز سے انٹر نیٹ خدمات مکمل طور بند ہیں ۔اس کے علاوہ کشمیر میں پری ۔پیڈ موبائیل فون سروس بند ہے جبکہ ایس ایم ایس ،سروس پر بھی پابندی برقرار ہے ۔انٹر نیٹ کی مسلسل بندش کے سبب تاجروںکو بھی شدید مالی خسارے کا سامنا ہے ۔ تاجروں کو جی ایس ٹی سمیت دیگر ٹیکسز کی ادائیگی میں مشکلات درپیش ہیں ۔ان کا کہناہے کہ جب تک انٹر نیٹ خدمات بحال نہیں ہوتی ،تب تک وہ ٹیکسز کی ادائیگی نہیں کریں گے ۔ادھر طلبہ کو بھی انٹر نیٹ کی بندش کے سبب مسائل کا سامنا ہے ۔طلاب زیادہ تر انٹر نیٹ کا استعمال کرکے نصابی وغیر نصابی کتابوں کا مطالعہ انٹر نیٹ پر ہی کرتے ہیں ،کیونکہ کتب خانوں تک اُنکی رسائی محدود ہے ۔سرینگر سمیت دیگر کئی اضلاع میں نوجوانوں اور طلاب کی سہولیت کیلئے انٹر نیٹ سہولیاتی مراکز قائم کئے گئے ہیں ،تاہم بہت قلیل تعداد اِن مراکز سے مستفید ہورہی ہے ۔اگرچہ انتظامیہ دعویٰ کررہی ہے کہ ہزاروں نوجوان اور طلاب انٹر نیٹ سہولیاتی مراکز سے مستفید ہورہے ہیں ۔تاہم طلاب کی جانب سے یہ مسلسل شکایات موصول ہورہی ہیں کہ انٹر نیٹ خدمات مسلسل منقطع رہنے سے اُنکی پڑھائی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔وادی میں انٹر نیٹ کی بحالی کا مطالبہ ہر گذر تے دن کیساتھ زور پکڑتا جارہا ہے ۔اس تمام صورتحال کے بیچ وادی کشمیر میں 5اگست سے سیاسی سرگرمیاں بھی مفقود ہیں ۔تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ ،عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت 50سے زیادہ مین اسٹریم لیڈران مختلف مقامات پر نظر بندہیں ۔کوئی سب جیل قرار دئے گئے ایم ایل اے ہوسٹل میں مقید ہے تو کوئی اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہے ۔مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ مین اسٹریم لیڈران کی نظر بندی احتیاطی اقدامات کے تحت عمل میں لائی گئی ہے اور کشمیر میں حالات مکمل طور پر نارمل ہونے کیساتھ ہی انکی رہائی بھی عمل میں لائی جائیگی ۔دوسری جانب مرکزی حکومت یہ بھی دعویٰ کررہی ہے کہ کشمیر میں حالات نارمل ہیں جبکہ مین اسٹریم لیڈران اس دعوے پر سوال اٹھا رہے ہیں ۔ان کا کہناہے کہ اگر حالات نار مل ہیں ،تو انٹر نیٹ خدمات منقطع کیوں ہیں؟ ،مین اسٹریم لیڈران،اسیران کیوں بنائے گئے ؟۔دریں اثناء کشمیر میں بارہمولہ ۔بانہال ریل سروس جاری ہے ۔اس تمام صورتحال کے بیچ کشمیر میں معمولات زندگی غیر یقینی صورتحال کے بھنور ،دلدل اور بھول بھلائیوں میں الجھے ہوئے ہیں ۔