مختصر افسانہ حاضر جواب

0
0

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
09419336120
اسسٹنٹ پروفیسر :شعبہ اُردو،باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی

پکار ناتھ ایک ہائر اسکینڈری اسکول میں علم حیاتیات(zoology) کے لیکچرر ہیں۔ ہر وقت ننانوے کے پھیر میں رہتے ہیں۔بہت زیادہ لالچی ہیں؛کسی سے اگر دوستی کریں گے تو پہلے یہ دیکھیں گے کہ مجھے اس شخص سے کتنا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے غرضیکہ نفع پہ نظر رکھتے ہیں۔ ڈیوٹی کو غلامی سمجھتے ہیں۔اس لےکبھی کبھی اسکول آتے ہیں۔اسکول میں بچوں کو کم ہی پڑھاتے ہیں کیونکہ وہ گھر میں ٹیوشن پڑھانے کے عادی ہیں ۔انھوں نے پیتل اور تانبے کے برتنوں کی بھی دکان رکھی ہے؛کسی کی بات نہیں سنتے ؛بس اپنی ہی سناتے رہتے ہیں۔ضدی قسم کے آدمی ہیں ۔اسکول کے اندر اور باہر لوگ انھیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ کھانے پینے والے آدمی ہیں۔انھیں معمار قوم کے بجائے اگر مسمار قوم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔جولائی کا مہینہ تھا؛ گرمی اپنے پورے جوبن پر تھی۔ پکار ناتھ اسکول جارہے تھے کہ اچانک قومی شاہراہ پہ چھوٹی بڑی گاڑیاں رک گئیں۔وہ منی بس سے اترے اور باقی لوگوں کی طرح سڑک پہ پیدل چلنے لگے ۔اسکول تقریبا” دو کیلو میٹر کی دوری پر تھا۔ چلچلاتی دھوپ میں وہ بار بار پسینہ پونچھتے رہے ۔گرمی اور پسینے سے ان کا برا حال ہورہا تھا۔ اسکول تک پہنچتے پہنچتے وہ بہت تھک گئے۔ انھوں نے حاضری رجسٹر پہ دستخط کیے اور بارہویں کلا س میں پڑھانے چلے گئے۔ طلبہ احتراما” ان کے لیے کھڑے ہوگئے اور پھر ان کے کہنے پر بیٹھ گئے۔ کلاس روم میں بجلی غائب تھی۔ پکار ناتھ نے کرسی پر بیٹھتے ہی اپنی شرٹ کھولی اور کرسی کی پشت پہ رکھ دی۔ اسکول لائبریری سے اخبار منگوائے اور دو لڑکوں کو اپنے دائیں بائیں اخبار جھلانے کے لیے کھڑا کر دیا اور دو کو اپنی ٹانگیں دابنے پہ لگادیا۔ابھی تقریبا”پندرہ ہی منٹ ہوئے تھے کہ اچانک چیف ایجوکیشن آفیسر صاحب اسکول میں آگئے ۔وہ پرنسپل صاحب کے آفس میں جانے کے بجائے سیدھے کلاسوں کا معائنہ کرنے لگے۔ وہ جونہی بارہویں کلاس روم کے دروازے پہ پہنچے تو پکار ناتھ نے انھیں دیکھ لیا اور زور زور سے طلبہ کو سمجھانے لگے ” پیارے طالبعلمو۔ اب آپ کو سمجھ آئی کہ آکسیجن کیا چیز ہے
اور بلڈ سرکولیشن کیا ہوتی ہے ۔آپ کو ہم نے یہ بھی سمجھایا کہ
ہمارے پارٹس آف باڈی کیا کام کرتے ہیں۔کیا آپ کو میری باتیں
سمجھ میں آئیں”؟
سب طلبہ نے بیک آواز کہا
"جی سر؛سمجھ آئی”
چیف ایجوکیشن آفیسر صاحب لمحہ بھر کے لیے کھڑے رہے اور پھر کلاس روم میں تشریف فرما ہوئے ۔پکار ناتھ فورا”کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ہاتھ جوڑ کر آداب بجا لائے۔ چیف ایجوکیشن آفیسر صاحب انھیں حیرت سے دیکھ ر ہے تھے۔پھر انھوں نے پکار ناتھ سے پوچھا
"آپ کا نام”؟
"سر؛ناچیز کو پکار ناتھ کہتے ہیں”
"آپ کس سبجیکٹ کے لیکچرر ہیں”؟
"سر ؛ میں زولوجی پڑھاتا ہوں اور میری یہ کو شش رہتی ہے کہ
تھیوری کے ساتھ ساتھ اسٹوڈینٹس کو پریکٹیکل کروایا جائے
تاکہ انھیں یہ پتا چلے کہ کہاں کیا ہے”
چیف ایجویکشن آفیسر کے چہرے پہ خوشی کے آثار دکھنے لگے؛ان کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا
"ویری گڈ؛ ہمیں ایسے ہی لیکچرز کی ضرورت ہے جو پریکٹیکل پر
زیادہ زور دیں؛ یہ سائنس اور ٹکنالوجی کا دور ہے ۔ خیالی قصوں
کا زمانہ نہیں ہے” پھر وہ پرنسپل صاحب کی طرف مخاطب ہوئے
اور انھیں کہنے لگے
"مجھ سے محکمئہ تعلیم کے اعلیٰ آفیسران نے بیسٹ ٹیچر ایوارڈ
فائل مانگی ہے۔میں پکار ناتھ صاحب کا نام اس کے لیے مناسب
سمجھتا ہوں ۔آپ دو دن کے اندر ان کی فائل میرے آفس میں
پہنچا دیں تاکہ میں اپنی منظوری کے ساتھ اسے آگے بھیج دوں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا