محمد قاسم کی زندگی جہد مسلسل اور خدمت خلق کا استعارہ 

0
0
 تحریر: ایاز احمد 
 محمد قاسم، انجینئرنگ شعبے بالخصوص جموں و کشمیر کے پاور ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک غیرمعمولی صلاحیت رکھنے والے معروف آفیسرتھے ۔ آپ 4 اپریل 1955 کو بھٹیاں ضلع راجوری میں ایک خانہ بدوش کنبے میں پیدا ہوئے، محمد قاسم کا ایک معمولی گاو ں سے چیف انجینئر محکمہ بجلی جموں وکشمیربننے تک کا سفر ثابت قدمی، جہدمسلسل ،عوامی خدمت اورپیشہ وارانہ کام سے لگن کانتیجہ اورزندہ جاویدمثال ہے۔
 محمد قاسم صاحب کا تعلیمی سفر راجوری سے شروع ہوا جہاں انہوں نے بنیادی تعلیم حاصل کی۔ انجینئرنگ کے لیے ان کے شوق کی وجہ سے موصوفنے سری نگر کے ریجنل انجینئرنگ کالج سے بیچلر آف الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ انکی قابلیت نے انہیں جموں وکشمیرمیں پہلا انجینئر بنا دیا جس نے الیکٹریکل اور سول انجینئرنگ دونوں میں ڈگریاں حاصل کیں، جو ان کی لگن اور ذہنی صلاحیتوں کامظہر ہے۔
 محمد قاسم صاحب نے محکمہ بجلی میں جونیئر انجینئر کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کیااوراپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پراسی محکمے کے چیف انجینئرکے عہدے تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی۔
 وہ جموں وکشمیر کے مختلف حصوں میں اسسٹنٹ انجینئر (AE)، اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر (AEE)، ایگزیکٹو انجینئر ( Ex En )، سپرنٹنڈنگ انجینئر (SE) سمیت مختلف عہدوں پر فائز رہے اور بالآخر 2008 میں چیف انجینئر تعینات ہوئے ، اس عہدے پر وہ 2013 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک فائز رہے۔ ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ پیر پنجال کے علاقے سے پہلے چیف انجینئر اور جموں وکشمیر میں اس باوقار عہدے پر فائز ہونے والے پہلے گجر تھے۔
 محمد قاسم صاحب نے چیف انجینئرکے طورپراپنے دور میں اہم کامیابیوں اورحصولیابیاں درج کرائیں۔ الیکٹریکل اور سول انجینئرنگ دونوں میں ان کی مہارت نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ خطے کے کچھ مشکل ترین منصوبوں کوپایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ۔ انہوں نے متعدد گرڈ سٹیشنوں کے قیام اورجموں وکشمیر بھر میں 132 KV ٹرانسمیشن لائنوں کی تعمیر کی نگرانی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کوششیں خاص طور پر دور دراز اور پہلے سے غیر محفوظ علاقوں کو بجلی فراہم کرنے میں اثر انداز ہوئیں، جس سے متعددطبقوں اورعلاقہ جات کے لوگوں کو بجلی پہنچائی گئی۔
جناب محمد قاسم صاحب کے نمایاں منصوبوں میں سے ایک پونچھ اور راجوری کے دور دراز علاقوں میں بجلی کی فراہمی تھی۔ قاسم صاحب کے اقدامات نے نہ صرف شہری ودیہی لوگوںکے معیار زندگی کو بہتر کیا بلکہ ان خطوں میں معاشی ترقی کو بھی فروغ دینے میں اہم رو ل اداکیا۔ جناب محمد قاسم صاحب نے کئی اہم منصوبوں کی منظوری اور کامیاب عمل درآمد میں اہم کردار ادا کیا، جس نے دوراندیش سوچ کو عملی نفاذ کے ساتھ ملانے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔
 اپنی تکنیکی ذہانت سے ہٹ کر، محمد قاسم صاحب کو ان کے انسان دوست جذبے اور سماجی اصلاحی اقدامات کے لیے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے شخصیت میںلوگوں کی خدمت کاجذبہ اللہ تعالیٰ نے کوٹ کوٹ کربھراہواتھا۔اوروہ ہمیشہ غریبوں اورپسماندہ لوگوں کی ترقی کے لیے پرعزم رہتے تھے۔ انہوں نے PDD کے اندر ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے، جو کہ روزی روٹی کے ذریعے دوسروں کو بااختیار بنانے میں ان کے کلیدی کردار کی عکاسی کرتا ہے۔
 محمد قاسم صاحب کی انسان دوستی نے بہت سے طلبائ، خاص طور پر ان کے آبائی گاو ¿ں کے طلباءکی تعلیم میں مدد کی۔ انکی مالی امداد نے بہت سے لوگوں کو علم اور بہترزندگی کے مواقعے فراہم کئے اورمتعددنوجوانوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم کے خوابوں کوعملی جامہ پہنایا۔اتناہی نہیں قاسم صاحب نے جموں میں پلس ہسپتال کے نام سے ایک میڈیکل انسٹی ٹیوٹ قائم کیا، جہاں ہزاروں لوگوں، خاص طور پر غریبوں کا مفت علاج کیاجاتاہے ۔ محمد قاسم صاحب کی کامیابی اور پائیدارشخصیت کی نمایاں خصوصیات کے امتزاج کی عکاسی کرتی ہیں۔
 ان کی سوچ اور قائدانہ صلاحیتوں نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا اور PDD میں اہم اصلاحات کیں۔
 اپنے پیشے کے لیے ان کی لگن اور کامیابی کے لیے اٹل عزم ان کی تمام کوششوں میں واضح تھے۔ ان کی ہمدردی اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی کوششوں نے ان کی سماجی ذمہ داری کے گہرے احساس کو اجاگر کیا۔
جناب محمد قاسم صاحب 6 ستمبر 2023 کو انتقال کر گئے، انھوں نے اپنے پیچھے ایک ایسا ورثہ چھوڑا جو انتہائی اہمیت کاحامل ہے ۔ محکمہ بجلی اور وسیع عوامی حلقوںمیں ان کی شخصیت اورکارناموں کو احترام اورتوقیرکی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔ سابق وزرائے اعلیٰ، ارکان پارلیمنٹ، سابق وزراء، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات کی طرف سے تعزیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قاسم صاحب کے جذبہ خدمت خلق سے عوام بڑے پیمانے پرمستفیدہوئی ہے۔
 محمد قاسم صاحب کی زندگی یہ بات ظاہرکرتی ہے کہ لگن، محنت اور دوسروں کی خدمت کرنے کاجذبہ ہوتو انسان زندگی میں بڑی سے بڑی بلندی کوچھونے میں کامیاب ہوسکتاہے۔موصوف کی زندگی اور کارنامے ہمیشہ کے لیے جموں و کشمیر کی تاریخ میں یادرکھے جائیں گے ۔
 ان کی پہلی برسی پر مجھے ایک شاعرکے یہ الفاظ یادآرہے ہیں۔
 ”دنیا میں جو آیا ہے وہ جانے کے لیے ہے
لیکن وہ یادیں چھوڑ جائے، جو زمانے کے لیے ہے“
 یہ شعر اس خیال کی غمازی کرتاہے کہ اگرچہ زندگی عارضی ہے، لیکن کسی کے کام اور اعمال کی میراث نسلوں تک رہتی ہے۔8

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا