’محض بچوں کی فحش فلمیں دیکھنے کوبذات خودمجرمانہ فعل نہیں گردانا جاسکتا‘

0
0

موبائل فون پر بچوں کی نازیبا فلمیں دیکھنے سے متعلق کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ نظرثانی کرے گا
یواین آئی

نئی دہلی؍؍موبائل فون پر بچوں کی فحش فلموں اور ویڈیوز کو ڈائو ن لوڈ یا دیکھنے یادیکھنے کو پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسوئل آفنس (پوکسو) ایکٹ یا انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت قابل تعزیر جرم نہ ماننے کے کیرل ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی جسٹ رائٹس فار چلڈرن الائنس کی عرضی پر سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کیا ہے۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا نے سماعت کے دوران مدراس ہائی کورٹ کے بھی اسی نوعیت کے ایک فیصلے کاحوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ محض بچوں کی فحش فلمیں دیکھنے کوبذات خودمجرمانہ فعل نہیں گردانا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مدراس ہائی کورٹ کے فیصلہ پر فیصلہ محفوظ ہے اور اس کا اثر کیرل ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی پر بھی پڑے گا، اس لیے درخواست گزار کو فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔کیرالہ ہائی کورٹ نے جون 2024 میں 27 سالہ سیبن تھامس کو بری کر دیا تھا، جس کے موبائل فون میں بچوں کی فحش فلمیں پائی گئی تھیں۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ موبائل فون میں خود بخود یا حادثاتی طور پر ایسے ویڈیوز ڈائو ن لوڈ ہوجانے پر جن میں بچے جنسی حرکات میں مصروف ہیں، پوکسو یا انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت جرم نہیں ہے۔
اس معاملے میں درخواست گزار جسٹ رائٹس فار چلڈرن الائنس ملک بھر میں بچوں کے جنسی استحصال، بچوں کی اسمگلنگ اور بچوں کی شادی کے خلاف کام کرنے والی 120 سے زیادہ این جی اوز کا اتحاد ہے۔ درخواست میں الائنس نے کہا کہ دونوں ہائی کورٹوں کے فیصلوں پر ملک بھر میں بڑے پیمانے پر بحث ہوئی اور اس سے یہ پیغام گیا کہ بچوں کی فحش ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنے یا دیکھنے پر کسی بھی شخص کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس سے بچوں میں فحش فلمیں دیکھنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی ہوگی جو بچوں اور ان کی بھلائی کے مفاد میں نہیں ہوگی۔
بچوں کی نازیبا فلموں کے معاملات پر ہائی کورٹوں کے حالیہ فیصلوں پر جسٹ رائٹس فار چلڈرن الائنس کے کنوینر روی کانت نے کہاکہ یہ تشویش کی بات ہے کہ مختلف ریاستوں کی ہائی کورٹ سنگین جرائم میں گمراہ کن فیصلے دیتی ہیں۔ جبکہ ایسی حرکات میں ملوث لوگوں کو انتہا ئی سخت اور واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق چائلڈ پورن فلموں کے معاملات میں انتہائی تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ سال 2018 میں چائلڈ پورن فلموں کے صرف 44 معاملات تھے جو 2022 میں بڑھ کر 1171 ہو گئے۔ ہمیں کنفیوڑن پھیلانے والے فیصلے کرنے کے بجائے اس معاملے پر فوری توجہ دینے اور ایکشن کی ضرورت ہے۔
درخواست گزار کی جانب سے عدالت پیش ہوئے سینئر وکیل ایچ ایس پھولکا نے بنچ کو بتایا کہ کیرالہ پولیس کو پتہ چلا ہے کہ 8 سے 10 اور 15 سے 16 سال کی عمر کے کئی بچوں کو قابل اعتراض اور فحش فلمیں بنانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملزم کو کیرالہ پولیس کی انسداد اطفال جنسی استحصال (سی سی ایس ای) ٹیم کے خصوصی آپریشن ’پی -ہنٹ‘کے دوران گرفتار کیا گیا جو بچوں کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے بنائے گئے ‘سائبرڈوم’ کے تحت کام کرتی ہے۔یہ جانکاری یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں دی گئی۔سماعت کے دوران درخواست گزار نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کا حوالہ دیتے ہوئے چائلڈ پورن فلموں اور ویڈیوز کے معاملات میں سال بہ سال اضافے کے تفصیلی اعداد و شمار پیش کیے جو کہ اس میںتقریباً 2516 فیصد اضافہ کو ظاہر کرتے ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا