صارم اقبال
امام ابن جوزی علیہ الرحمہ لکھتے کہ ایک مقرر بیان کر رہا تھا کہ مجلس میں سے ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ کہ آپ نے فلاں بات کہی ہیں جو کہ سراسر جھوٹ ہے ۔اعتراض پر مقرر نے کہا کہ آپ نے میرے موضوع پر گویا پورا علم حاصل کیا ہے ۔۔اعتراض کرنے والے نے کہا کہ سارا علم تو حاصل نہیں البتہ آدھا علم حاصل ہے۔اس پر مقرر نے کہا یہ جو آپ نے موضوع کے حوالےسے بات سنی یہ اس آدھے علم سے ہے جو آپ نے ابھی تک حاصل نہیں کیا ہے ۔۔یہی حال اہل بیت اطہار کے مطلق ہے جب شان اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں کوئی حدیث بیان کی جاتی ہیں تب وہ آدھے علم والے اعتراضات کے بیانات داغتے رہتے ہیں۔حالانکہ سیدنا علی علیہ السلام کے باب العلم ہونے کی قوی دلیل سادہ لوگوں کے لئے یہ بھی ہے کہ حضرت مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ایسے علم کے موجد ہیں جس کے بغیر کوئی عالم ہو ہی نہیں سکتا۔اگر آج کا انسان علم ہونے کا دعویدار ہے، اگر کوئی قران و حدیث کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ صلاحیت اس علم کی بدولت ہے جس کے موجد باب العلم سیدنا مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔
مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے متعلق اللہ کے نبی ﷺ نے بے شمار فضائل و کمالات کا اعتراف کر کے اپنے درفشاں مبارک بے شمار احادیث مبارک بیان فرمائے۔شیر خدا کرم اللہ تعالی وجہہ کو اس کے سوا برتری کیاحاصل ہو گئی جس کے متعلق اللہ کے نبی ﷺ نے اپنی لخت جگر بیٹی شہزادی کونین، حضرت فاطمہ زہراہ رضی اللہ عنھا کو فرمایا "اے فاطمہؓ میں نے آپ کا نکاح قریش کے بہترین خاندان کے بہترین انسان سے کیا۔” اللہ کے نبیﷺ کا فیصلہ یہ تھا کہ فاطمہؓ دنیا کی بہترین عورت ہے اور اس کا نکاح بھی بہترین انسان سے کیا گیا ہے۔ اس بارے حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ۔۔حضرت علی علیہ السلام کو تین خوبیاں عطا کی گئی ۔۔اگر ان میں سے کوئی خوبی مجھے حاصل ہوتی تو وہ مجھے سرخ اونٹوں کے عطا ہونے سے ذیادہ محبوب ہوتی ۔۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ،سیدہ فاطمہ سلام علیھا کا ان کے نکاح میں آنا۔۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا مسجد میں ٹھہرنا ،جس میں ان کے لئے جائز ہے جو فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے لئے جائز نہیں ۔خیبر کے دن انہیں پرچم کا عطا ہونا۔
تواریخ اسلام نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جس کے متعلق امام ابو العباس القرطبی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین تقریباً چودہ سو صحابی جنگ خیبر کے موقعہ پر انتہائی بے قراری کے ساتھ گردنیں آٹھا اٹھا کر دیکھ رہیے تھے ۔۔وہ رتبہ اس دن اس شخص کو مرحمت ہوا جس کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔کل ایک شخص کو پرچم عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے محبوب رکھتے ہیں۔
ایں سعادت بروز بازو نیست ۔۔
تانہ بخشد خدائے بخشندہ۔۔
چنانچہ بعض احادیث سے مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو پہلے ہی پتہ تھا جو شخص فاتح خیبر بن کر ابھرے گا اس کا نام "علی” ہوگا۔آج کے دور میں نواصب کے انفیکشن نے بڑے پیمانے پر اپنا کام جاری رکھا ہے حالانکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحتا بیان فرمایا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم محب خدا و مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور محبوب خدا و مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔اس سے بڑھ کیا شان ہوگی مولائے کائنات علی علیہ السلام کی۔ناصبیت کے انفیکشن والے مریض کو چاہیئے کہ وہ اپنے آپ سے اس بات کی طرف توجہ دلائیے جائے کہ وہ اس زمرے میں نہ آئے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔۔۔اللہ پاک نے نجاست کو اہل بیت اطہار سے پاک رکھا ہے۔دوسری جگہ حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اپنا عقیدت واحترام اس قدر اظہا فرمایا” عورتیں علی بن ابو طالب جیسا جننے سے عاجز ہو گئی”
علی المرتضیؓ کو اللہ پاک نے ایسا عروج بخشا ہے کہ ولادت بھی کعبہ میں ہوئی اور شہادت بھی اللہ کے گھر کے اندر ہوئی وہ بھی سجدے کی حالت میں جس سجدے کے متعلق یہودی سے کہا تھا کہ اللہ کی قسم میں نماز میں دوسرا سجدے سے سر نہیں اٹھاتا جب تک نہ دیدار اللہی سے مستفید ہوتا ہوں۔فاتح خیبر حضرت علی المرتضیؓ حق،شجاعت،صداقت و عدالت کا ایسے سر چشمہ تھا کہ آپ۰ؓ کے تصور کے بغیر تواریخ اسلام کا ہر ورق نا مکمل ہے۔ اسلام کے ماننے میں بچوں میں فسٹ ڈویژن کامیاب ہونے والی شخصیت،شب ہجرت میں دشمنوں کے سائے تلے بستر رسولﷺ میں آرام فرما کر دشمنان اسلام کی دھول چٹا کر نبوت اور خاتم النبینﷺ کو تحفظ دے کر پیش پیش رہیے۔ ہجرت کے دنوں مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم راتوں کو مدینہ کی طرف چلا کرتے تھے اور دن کو چھپ جاتے اسی طرح مدینہ پہنچے ۔آپ کے پاؤں مبارک پھٹ چکے تھے ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اطلاع ملی کہ علی آگئے تو فرمایا علی علیہ السلام کو بلاؤ۔لوگوں نے عرض کیا وہ چل نہیں سکتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور دیکھا کہ پاؤں کا ورم دیکھ کر رو پڑے پھر ان پر لعاب دہن لگایا اور دست مبارک پیروں پر پھیرا جس کا اثر یہ تھا کہ مولائے کائنات علی علیہ السلام کو تا عمر پیروں کی تکلیف نہیں ہوئ ۔اسلامی معرکوں میں حصہ لے کر اللہ کے دین کو ہر قدم پر فتح و نصرت دلائی۔معرکے بدر اسلام کے پہلے حق و باطل کے جنگ میں اللہ کے نبیﷺ کی قیادت میں قریش کے 70آدمی قتل ہو جاتے ہیں جن میں اللہ کے اس عظیم مجاہد نے36 آدمی خود اپنے ہاتھوں سے قتل کئے۔اسلام کے حق و باطل کے ایک اور معرکے احد میں پیش پیش رہیے۔ جب اللہ کے نبیﷺ اس معرکے میں زخمی ہوئے تو شیر خدا کرم اللہ تعالی وجہہ نے آپﷺ کو پہاڑ پر لے گئے اور اپنی ڈھال میں پانی بھر کر زخموں پر گرا دیتے تھے تاکہ خون مبارک بند ہو جائے۔معرکہ بنی نضیر میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ نے نمایاں کردار ادا کیا ۔
پیغمبر اسلام ﷺ نے علی المرتضیؓ کے متعلق فرمایا کہ علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے۔ راقم کا عقیدہ ہے دنیا بدل سکتی ہے سب کچھ بدل سکتا لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذرہ برابر بھی نہیں بدل سکتا ۔۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔سوائے منافقین علی علیہ سلام سے محبت نہیں کر سکتا ۔۔جنگ میں مشرکین کے ایک پہلوان نے علی کی تلوار کے تلے آگیا،لمحوں کی فرق رہ جاتی کہ پہلوان کا قتل ہو جاتا۔اسی اثناء میں وہ مشرک حضرت علیؓ کے دہن مبارک کی طرف تھو کتا ہے۔حضرت علی ؓفورا اپنی تلوار کو راپس لے لیتا ہے اور مشرک پہلوان کو قتل کرنے سے باز آ جاتا ہے۔دشمن بھی حیران رہ گیا کہ آخر علی ؓ نے اپنی تلوار کیوں واپس کھینچ لی۔ماجرا جب دریافت کیا گیا تو آپؓ نے کیا خوب جواب مرحمت فرمایا۔فرمایا کہ دشمن کے تھوکنے سے یہ میرا ذاتی معاملہ تصور کیا جاتا حالانکہ میری تلوار اللہ کی خوشنودی کے سوا کسی پر ضرب نہیں لگائے گی۔انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق دشمن کو قتل تو ہونا ہی تھا مگر قربان جائیں ابو تراب ؓ کی اس وسعت نظری کا جس میں علم کے بیش بہا خزانوں کے راز چھپے ہوئے ہیں۔آپؓ نے دشمن کو قتل کرنے میں ذاتی نفس کو دور رکھا۔
دین اسلام کی آبیاری کے لئے ہمیشہ شیر خدا ابو ترابؓ نے اپنے بہادری کے کرتب دکھا کر مشرکین مکہ کے سامنے ایسا رعب قائم رکھا کہ ان کی مجال تھی کہ کوئی آپؓ کے سامنے دم پھونکے۔ حق یہی ہے کہ ہر زمانے کے حق بین مورخوں نے آپؒ کی دین اسلام اور عدل و انصاف و اعتدال کی روش کو اختیار کرنے کی تعریف کے تعی انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے بغیر نہ رہ سکے۔بلکہ غیر مسلم مورخوں نے بھی قوت پروردگار شیر خداؒ کے حوالے سے رائے دینے لگے۔ایک مسیحی پولس سلامہ رقمطراز ہے،,ہاں میں ایک مسیحی ہوں،وسعت نظر ہوں،تنگ نظر نہیں ہوں،میں اس شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے،پاکیزگی ان کے ساتھ ہے،شاید خدا بھی ان کا احترام کرے۔ اسی طرح مشہور بر طانوی جرنل سر پرسی سایکس اپنا اظہار عقیدت یوں پیش کرتے ہیں کہ حضرت علی دوسرے خلفاء کے درمیان شرافت نفس،بزرگواری اور اپنے ماتحت افراد کا خیال رکھنے کے اعتبار سے بہت مشہور تھے۔بڑے لوگوں کے خطوط آپؓ کی کار کردگی پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی ان کے تحفے تحائف پر آپؓ ترتیب اثر دیتے تھے۔سچائی،پاکیزہ عمل کامل دوستی،دور اندیشی،اخلاص،اوصاف حمیدہ سے آراستہ ہونے کے باعث آپؓ کو ایک خاص قدرو مزلت حاصل تھی۔خلیفہ المسلین حضرت علی الرتضی کی بہادری میدان جنگ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپؒ انسانیت کی گہرائی،روشن فکر،پاکیزہ وجدان کے اوصاف حمیدہ کے علاوہ ایمان کی حرارت اور جذبہ ایمانی سے بھی سرشار تھے۔ مظلوموں کی حمایت کے ساتھ ہی ساتھ فقراء و نادار لوگوں کی مدد کرنے، اور باہمی حسن سلوک میں پیش پیش رہتے تھے۔دونوں جہانوں کی بیٹی فاطمہ ؓ اکثر کئی اوقات فاقوں سے گزر جاتی تھی، لیکن اس کے باوجود آپؓ کی سخاوت اور رحمدلی کے بے شمار واقعات احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل کی گنجایش نہیں۔شاہ ولی اللہ محدثؒ نے اللہ کے نبیﷺ کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ کے تقرب اور تربیت کو ان کے فضائل کو اصل بنیاد قرار دیا۔آپؒ مزید لکھتے حضرت علیؓ نے ابتدا سے ہی علم و فضل کے گہوارہ میں تربیت پائی ہیں اس لئے صحابہ کرام ؓ میں آپؓ غیر معمولی تجربہ اور فضل و کمال کے مالک ہوئے۔حق شناس حضرت علیؓ بچپن سے ہی پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔دین اسلام کیی صداقت پر اتنا ناز تھا جب صلح حد یبیہ کا صلح نامہ آپؓ کے دست مبارک سے تحریر کیا گیا جس پر قریش مکہ نے محمد رسول اللہﷺ کے تحریری الفاظ پر اعتراض کیا جس پر اللہ کے نبیﷺ نے الفاظ کاٹنے کا حکم دیا تھا،لیکن حضرت علیؓ نے یہ کہہ کر الفاظ کاٹنے سے انکار کیا کہ فرمایا ان الفاظ کو میں اپنے ہاتھ سے نہیں مٹا سکتا(کیونکہ الفاظ حقیقت پر مبنی ہیں)آپﷺ نے الفاظ کو پھر اپنے دست مبارک سے خود کاٹ دیے تھے۔اللہ اکبر
مولائے کائنات علی علیہ السلام کی نمایاں خصوصیت اور بات جو ان کی پہچان بن گئ وہ ان کی دنیا میں ایسی حالت میں بے رغبتی و بے نیازی تھی۔حالانکہ راقم کا دعوای ہے آپ اول سے لے کر آخر تک پوری دنیا کی اسلامی کتابوں کے اوراق پھیر لو اہل بیت اطہار کا ہر فرد دنیا کی طرف بے رغبت پاؤ گے۔تواریخ گواہ ہے مولائے کائنات علی علیہ کے اہل و عیال پر طرح طرح کے ظلم و ستم کئے لیکن قربان جاؤں آل عبا صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم سہہ لئے لیکن رضا الہیٰ اور دین اسلام کے خاطر اپنے سر مبارک نچھاور کئے لیکن کبھی اف تک نہیں ہوا۔۔بلکہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے والوں پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے ۔
حضرت علیؓ کے متعلق بہت سارے احادیث موجود ہے جو کسی اور صحابی کے متعلق نہیں ملتے۔اللہ کے نبیﷺ نے علیؓ کے متعلق فرمایا کہ علیؓ کومجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسی علیہ السلام سے تھی اور اس کے ساتھ ہی مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کو نفس رسول ﷺ کا خطاب ملا تھا۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حکمت اور علم کے دس جزء اور حصے ہیں جن میں سے نو صرف علیؓ کو عطا کئے گئے اور باقی ایک حصہ پوری امت کے پاس ہے۔جیساکہ آپﷺ نے بیان فرمایا کہ میں شہر علم ہوں اور علی ؓ اس کے دروازہ ہے۔ چنانچہ اپنی دختر امم کلثوم کے مہمان بن کر حضرت علیؓ چوتھے خلیفہ راشد دین اسلام کا یہ چراغ جن کے پورے اہل خانہ نے دین اسلام کی روشن شمع کو جلانے میں اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا منافقین کی سازشوں کے شکار ہو کر شہید کئے گئے۔ شام سے آئے ایک ملعون نے قطامہ نامی خارجی عورت کی مدد اور فریب سے سر نازنین پر ضرب لگائی اور اس کے تین دن بعد ۱۲ رمضان المبارک کو جام شہادت نوش فرمایا۔ شہادت بھی دن ایسا مقرر ہوا کہ سال کے مہینوں کے سردار ماہ مبارک میں ہفتے کے دن کا سردار یوم جمعہ فجر کے وقت اور اللہ کے نبیﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک عمل نماز میں،نماز کے سجدے کی حالت میں اللہ کے دین کے لئے باپ(علی)ؓ نے اپنی جان مبارک کا نذرانہ پیش کر کے اس کے بیس سال بعد اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے بیٹے نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے اپنا سر مبارک اسی نماز کی حالت میں دے کر یہ سبق دیا کہ حق کو کبھی باطل کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے ۔سر کٹانا پڑے لیکن باطل کے سامنے کلمہ حق کی صدائیں گونجنی چاہیے۔۔۔آل رسولﷺ کا ایسا گھرانہ ہو تو کیوں نہ ہم کہے۔۔جانم فدائے حیدری۔